پرویزخٹک،سراج الحق کے حلقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے،کراچی میں لوڈشیڈنگ کی ذمہ دار کے الیکٹرک ہے،خواجہ آصف،سابقہ ادوار میں بجلی کی ٹرانسمیشن لائنوں پر توجہ نہیں دی گئی، آج سسٹم 14ہزار میگا واٹ سے زیادہ لوڈ برداشت نہیں کرسکتا ہے، 2018ء تک 15ہزار میگا واٹ مزیدبجلی سسٹم میں شامل ہوگی، کے الیکٹرک ہم سے 650 میگا واٹ سستی بجلی لے کر منافع کما رہی ہے،قومی اسمبلی میں بیان

جمعرات 25 جون 2015 08:47

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔25 جون۔2015ء )وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ کراچی میں لوڈشیڈنگ کی ذمہ داری کے الیکٹرک پر عائد ہوتی ہے سابقہ ادوار میں بجلی کی ٹرانسمیشن لائنوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے آج سسٹم 14ہزار میگا واٹ سے زیادہ لوڈ برداشت نہیں کرسکتا ہے ، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے حلقوں میں 50سے 80فصد تک بجلی چوری ہوتی ہے۔

2018ء تک 14سے 15ہزار میگا واٹ مزیدبجلی سسٹم میں شامل ہوگی ٹرانسمیشن لائنوں کو اپ گریڈ کرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ راولپنڈی اسلام آباد کی کچی بستیوں میں بجلی زیادہ چوری ہوتی ہے۔گزشتہ دنوں بجلی چوروں کے خلاف آپریشن کے دوران دو اہلکار شہید ہوئے اور مرتکب افراد افغانستان بیٹھے ہیں۔

(جاری ہے)

گزشتہ سال کے مقابلے میں اب تک ہم نے 389 گیگا واٹ زیادہ بجلی پیدا کی ہے، کے الیکٹرک کی پیداواری صلاحیت 2419 تھی، اب یہ صلاحیت 2093 ہو گئی ہے، وفاقی حکومت ان کو 650 میگا واٹ بجلی دے رہی ہے، آئی پی پیز انہیں 363 میگاواٹ دے رہے ہیں، کے الیکٹرک ہم سے 650 میگا واٹ بجلی نہ بھی لے تو وہ اس فرق کو پورا کر سکتے ہیں مگر وہ ہم سے سستی بجلی لے کر منافع کما رہے ہیں حالانکہ وہ خود بھی یہ بجلی پیدا کر سکتے ہیں، اس صورتحال کے بعد بھی کوئی وفاقی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتا ہے تو زیادتی ہوگی،کراچی الیکٹرک نے پی ایس او، ایس ٹی ڈی سی اور سوئی سدرن کے 57 ارب روپے دینے ہیں، قائد حزب اختلاف سندھ حکومت کی گورننس کا ملبہ ہم پر نہ ڈالیں۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں خواجہ محمد آصف نے بجلی کی حالیہ لوڈ شیڈنگ پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ یکم رمضان سے بجلی کا بحران شروع ہوا، جس کی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 15 سال کے دوران حکومتوں کی مجرمانہ غفلت کا قوم خمیازہ بھگت رہی ہے، یہ بحران گزشتہ دو سال سے شروع نہیں ہوا، 7 جون 2013ء کو ہم نے حکومت سنبھالی، جولائی میں رمضان کا آغاز ہوا، اس وقت بھی بحران تھا۔

2014ء میں ایک بریک ڈاؤن ہوا مگر کا رمضان بخیر و خوبی گزر گیا، ہمارے دور کا یہ تیسرا رمضان ہے۔ 2012ء میں اوسط پیداوار 10122 میگا واٹ، طلب 13578 میگا واٹ اور لوڈ شیڈنگ 3456 میگا واٹ رہی۔ 2013ء میں پیداوار 13426 میگا واٹ، طلب 19692 میگا واٹ ہو گئی اور لوڈ شیڈنگ 6429 میگاواٹ رہی۔ 2014ء میں پیداوار 14186، طلب 21186 اور لوڈ شیڈنگ 7 ہزار میگا واٹ رہی۔ 2012ء سے اب تک سسٹم میں بجلی صرف نظام کو بہتر بنا کر شامل کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ 2015ء میں پیداوار 13715 اور طلب 18000 رہی، شہروں میں 5 گھنٹے، دیہی علاقوں میں 8 گھنٹے اور صنعتوں کیلئے بھی 8 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں سمندر سے ہوائیں نہیں آ رہیں، جس کی وجہ سے شدید گرمی ہے، ہم کراچی کو 650 میگا واٹ بجلی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں اب تک ہم نے 389 گیگا واٹ زیادہ بجلی پیدا کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج صبح 9 بجے بجلی کی پیداوار 13144 اور طلب تقریباً 16 ہزار کے قریب تھی، فرق تقریباً 3 ہزار میگا واٹ تھا۔ گیپکو میں 92 فیصد، فیسکو میں 100 فیصد، آئیسکو 89.2 فیصد، لیسکو کی 98.2 فیصد ریکوریاں رہیں، کیسکو میں بجلی کی ریکوری 33 فیصد، پشاور 87.3 فیصد، حیسکو 76 فیصد اور سیبکو میں 57.8 فیصد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا میں بجلی کی صورتحال بہترہوئی ہیں اور ٹرانسمیشن لائنیں بچھائی گئیں، دو گرڈ سٹیشن تعمیر کئے گئے ، اس کے علاوہ انفراسٹرکچر کی تعمیر کا کام جاری ہے، پرانے گرڈ سٹیشنوں کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔

صارفین کی سہولت کیلئے ہزاروں ٹرانسفارمر فراہم کئے گئے۔ کے پی کے میں ٹرانسفارمر مرمت کرنے کی ورکشاپس نئی بنائی گئیں، ایک ہزار کلو میٹر سے زیادہ ٹرانسمیشن لائنیں بچھائی جا رہی ہیں، چکدرہ میں گرڈ سٹیشن کی تعمیر کیلئے سوا سال پہلے ہم نے سوا کروڑ روپے جمع کرا رکھے ہیں مگر تاحال زمین فراہم نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اُوچ سے جعفر آباد ٹرانسمیشن لائن سے بلوچستان میں صورتحال بہتر ہوگی ، نندی پور پاور منصوبہ دسمبر میں ایل این جی کی فراہمی کے بعد 500 میگاواٹ بجلی پیدا کرنا شروع کر دے گا۔

انہوں نے قائداعظم سولر پارک فاؤنڈیشن ونڈ جنریشن، چشمہ پاور پلانٹ کے جاری منصوبوں کی بھی تفصیلات بتائیں۔ 2016-17ء میں 969 میگاواٹ نیلم جہلم منصوبہ مکمل ہوگا، تربیلا فورتھ ایکسٹینشن سے 1410 میگاواٹ، قائداعظم سولر پارک سے 600 میگا واٹ مزید بجلی آئے گی، 2017ء تک سسٹم میں 4692 میگاواٹ بجلی مزید شامل ہوگی، 2018ء کے آخر تک 5742 میگاواٹ سسٹم میں شامل ہو جائے گی۔

ایل این جی کے ذریعے 3600 میگاواٹ بجلی، اس کے علاوہ 2018ء تک 14 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی سسٹم میں شامل ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ نیلم جہلم منصوبہ 1980ء سے شروع تھا، سکی کناری منصوبہ آٹھ سال قبل شروع ہوا، اس کے علاوہ کئی منصوبے التواء کا شکار رہے ہیں، ہم انہیں مکمل کر رہے ہیں۔ ایل این جی سستا ایندھن ہے، اس کے ذریعے ٹیرف کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کی صورتحال کا الزام وفاقی حکومت پر لگایا جا رہا ہے، اس سے پہلے تھر میں سینکڑوں بچوں کی اموات ہوئیں، کراچی میں 6 سات دنوں سے شدید گرمی پڑ رہی ہے، وہاں پر پانی کی قلت وفاقی حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے، صورتحال واقعی افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ قطر کے ساتھ ایل این جی معاہدہ نہیں ہوا، ایل این جی سپاٹ سے خریداری کی جا رہی ہے، 14 فیصد کم ریٹ پر ایل این جی خریدی جا رہی ہے۔

ایشیاء کے کسی ملک کو اس سے کم قیمت پر ایل این جی نہیں مل رہی۔ انہوں نے کہا کہ ایم ایف او سے 20 فیصد اور ایل ایف او ایندھن سے 30 فیصد اور ڈیزل سے 50 فیصد سستی بجلی پیدا ہوگی، اس سے ہمیں سالانہ 100 ارب روپے کا فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کیالیکٹرک کی پیداواری صلاحیت 2419 تھی، اب یہ صلاحیت 2093 ہو گئی ہے، وفاقی حکومت ان کو 650 میگا واٹ بجلی دے رہی ہے، آئی پی پیز انہیں 363 میگاواٹ دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک ہم سے 650 میگا واٹ بجلی نہ بھی لے تو وہ اس فرق کو پورا کر سکتے ہیں مگر وہ ہم سے سستی بجلی لے کر منافع کما رہے ہیں حالانکہ وہ خود بھی یہ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی الیکٹرک نے پی ایس او، ایس ٹی ڈی سی اور سوئی سدرن کے 57 ارب روپے دینے ہیں۔ کے الیکٹرک سپلائی کمپنی کے مسائل کے حوالے سے ہمیں مورد الزام ٹھہرانا افسوسناک ہے، ہم سالانہ کے الیکٹرک کو ایندھن کی قیمتوں کے فرق کی مد میں 30 ارب روپے ادا کرتے ہیں۔

2008ء میں یہ معاہدہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے بعض مسائل کی نشاندہی کی تھی جن میں سے بعض مسائل حل ہوئے اور بعض مسائل کے حوالے سے مبالغہ آرائی بھی کی جا رہی ہے، ان علاقوں میں جنڈ کے فیڈرز پر 70 سے 90 فیصد تک چوری ہوتی ہے ہم وہاں پر بجلی نہیں دیتے مگر افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں جو لوگ بل دیتے ہیں ان کو بھی مسائل کا سامنا ہے۔

پیسکو کے 230 فیڈرز میں 95 فیصد نقصان میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلی پرویز خٹک جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں 57 فیصد چوری ہوتی ہے، سراج الحق کے حلقہ کے تین فیڈرز ہیں جہاں 55.40 اور 41.50 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔ ارکان کو چاہیے کہ اپنے اپنے حلقوں کے عوام سے بھی کہیں وہ بل ادا کریں۔ وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا کہ مجھے تو بجلی پر تقریر کرنے کا کہا گیا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پہلے میں پالیسی بیان دوں۔ انہوں نے کہا کہ تھر اور کراچی سمیت جہاں بھی اموات ہوئی ہیں ہمیں اس پر افسوس ہے، میں تو بجلی کے بحران پر بات کر رہا ہوں، اگر اصل حالات ایوان کو نہ بتائے تو ناانصافی ہوگی، کراچی میں اموات پر افسوس ہے، وفاقی حکومت ہر مدد کیلئے حاضر ہے انہوں نے کہا کہ اگر سیالکوٹ کے کینٹ فیڈر میں چوری ہوتی ہے تو خواجہ آصف کو روکنا چاہیے ، اربن سکھر فیڈر سے 57 فیصد نقصان ہو رہا ہے۔

انہوں نے سندھ کے مختلف فیڈرز سے ہونے والے نقصانات کی تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھرکے بجلی صارفین بل ادا کریں تو گردشی قرضہ نہیں پیدا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اکتوبر سے لیکر 30 شعبان تک صنعتوں کو بجلی فراہم کی گئی تاہم کسی نے ستائش نہیں کی، سحر و افطار کے اوقات میں بجلی پوری کر کے وزیراعظم کا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت سنبھالتے وقت میں نے یا وزیراعظم محمد نواز شریف نے 6 ماہ میں بجلی پوری کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا، سندھ حکومت 55 ارب روپے کا نادھندہ ہے جس میں 22 ارب روپے سندھ حکومت نے تسلیم کر لئے ہیں۔