جمہوری دور میں بعض معاملات فوجی عدالتوں کے تحت کر دینا بھی آمریت ہے جس کی اجازت نہیں دے سکتے ، سپریم کو رٹ ،1973ء کے آئین میں راستہ روکنے کے باوجود ملک پر آمریت مسلط رہی،چیف جسٹس ناصر الملک ،حکومت انقلاب کے خوف کے پیش نظر فوج کو مدد کیلئے بلا سکتی ہے تو ا ب بھی ایسا کیا جاسکتا تھا،فوجی عدالتیں بنانے کی ضرورت نہیں ،جسٹس جواد ایس خواجہ ، سوات میں کیا گیا آپریشن فوجی عدالتوں کے تحت نہیں بلکہ آرٹیکل245 کے تحت کیا گیا تھا۔اگر وہاں پر حالات بہتر ہوسکتے ہیں تو یہاں کیوں نہیں،جسٹس دوست محمد خان کے ریما رکس

بدھ 24 جون 2015 08:33

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔24 جون۔2015ء)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے ٹرائل ریکارڈ بارے اٹارنی جنرل پاکستان نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ فوجی عدالتوں کے ٹرائل کی تمام تر تفصیلات حاصل کرلی گئی ہیں جو ویڈیوز کی شکل میں دی جائیں گی۔تحریری دلائل بھی جمع کروا دئیے۔چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دئیے ہیں1973ء کے آئین میں راستہ روکنے کے باوجود ملک پر آمریت مسلط رہی ہیں جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس میں کہا کہ اگر حکومت انقلاب کے خوف کے پیش نظر آرٹیکل245 کے تحت فوج کو مدد کیلئے بلا سکتی ہے تو ا ب بھی ایسا کیا جاسکتا تھا،فوجی عدالتیں بنانے کی ضرورت نہ تھی۔

صدر کے پارلیمنٹ کی منظوری سے قبل دستخط کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی ملزم کو ٹرائل سے قبل ہی پھانسی دی جائے۔

(جاری ہے)

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جمہوری دور میں بعض معاملات کو انتظامی طور پر فوجی عدالتوں کے تحت کر دینا بھی آمریت ہے جس کی کیسے اجازت دے سکتے ہیں۔اکیسویں ترمیم کو پڑھ کر لگتا ہے کہ ابھی بھی اس کوکوئی تحفظ دینے کی ضرورت ہے،عسکری قیادت کی جانب سے وفاقی حکومت کو فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے ترمیم کرنے کی ہدایت جاری ہونے کے بعد پھر21ویں ترمیم کی کوئی ضرورت نہ تھی۔

جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ سوات میں کیا گیا کامیاب آپریشن فوجی عدالتوں کے تحت نہیں بلکہ آرٹیکل245 کے تحت کیا گیا تھا۔اگر وہاں پر حالات بہتر ہوسکتے ہیں تو یہاں کیوں نہیں اور فوجی عدالتوں کے قیام کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے جبکہ اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے دلائل میں کہا ہے کہ اگر مارگلہ پہاڑیوں کے پیچھے سے پانچ سو دہشتگرد حملہ کرتے ہیں تو کیا فوج ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی طرف دیکھے گی یا ان کے خلاف کارروائی کرے گی،دارالحکومت پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے چڑھائی حالت جنگ نہیں تھی اس لئے آرٹیکل245 کا سہارا لیا گیا۔

انہوں نے یہ دلائل چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں17رکنی فل کورٹ بنچ کے روبرو منگل کے روز دئیے ہیں۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ1973ء کے وزیر قانون نے پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران کیا تھا کہ اب ہم آئین کے ذریعے فوجی آمروں کیلئے دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کردیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے باوجود دو آمر آئے اے جی نے کہا کہ آرٹیکل245میں بھارتی آئین کا بھی حصہ ہے کے تحت ملک دشمن عناصر کے خلاف اور ملک کی سالمیت اور خود مختاری کیلئے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیا جاسکتا ہے جس پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل245کی موجودگی فوجی ایکٹ میں ترمیم کی کیا ضرورت تھی۔

21ویں ترمیم کے دیباچے میں کہا گیا ہے کہ اس ترمیم کا مقصد فوجی عدالتوں کو آئینی تحفظ فراہم کرنا ہے اے جی نے کہا کہ ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے ہی یہ فوجی عدالتیں قائم کرنے کی ترمیم کی گئی۔بھارت نے بھی اپنے آئین کے آرٹیکل59 میں عارضی ترمیم کی جو ہم نے بھی کی ہے۔آرمی ایکٹ میں ترمیم اور21ویں ترمیم قومی اسمبلی میں ایک ہی وقت منظور ہوئی جبکہ سینیٹ میں آرمی ایکٹ کی ترمیم پہلے اور21ویں ترمیم بعد میں منظور ہوئی اس پر جسٹس خواجہ نے کہا کہ کیا صدر نے پہلے دستخط نہیں کئے تھے صدر کا پہلے دستخط کرنا ایسے ہی کہ جیسے ملزم کی پھانسی کے بعد فیصلے پر دستخط کئے جائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صدر نے دستخط کرتے وقت ٹائم درج کیا تھا کہ اس وقت کیا وقت تھا ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم مذاق تھا کہ جس کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔اے جی نے کہا کہ لیاقت حسین کیس سے ساری چیز واضح ہوجاتی ہے ۔بدھ کو حقائق کی طرف آؤں گا اور فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی تفصیلات بھی دوں گا اور یہ سب ویڈیوز کی شکل میں ہوں گی،ان کے دلائل ابھی جاری تھے کہ عدالت کا وقت ختم ہونے کی وجہ سے مقدمے کی مزید سماعت آج بدھ تک کیلئے ملتوی کردی