قومی اسمبلی،فنانس بل2015-16ء کثرت رائے سے منظور،فنانس بل کی منظوری کے وقت وزیراعظم نوازشریف اور دیگر اہم وزراء ایوان میں موجود نہیں تھے،سینیٹ کی92تجاویز میں سے 56 تجاویز شامل، وفاقی وزراء کی تنخواہوں میں ساڑھے سات فیصد اضافہ،کٹوتی کی تحریکیں نظراندازکرنے پراپوزیشن کا واک آؤٹ، شدید نعرے بازی،اپوزیشن کا حکومت سے ایوان کے اندر تعاون کی پالیسی ختم کرنے کا اعلان،واک آؤٹ کرنے والوں میں پیپلزپارٹی،تحریک انصاف،جماعت اسلامی،ایم کیو ایم کے اراکین شامل تھے،وفاقی وزراء کی اپوزیشن کو واپس لانے کی کوششیں ناکام،اپوزیشن ارکان گھروں کو چلے گئے،بجٹ کی باقی کارروائی میں حصہ لینے سے انکار

بدھ 24 جون 2015 08:33

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔24 جون۔2015ء)حکومت نے فنانس بل2015-16ء کثرت رائے قومی اسمبلی سے منظور کرالیا ہے،فنانس بل کی منظوری کے وقت وزیراعظم نوازشریف اور دیگر اہم وزراء ایوان میں موجود نہیں تھے۔فنانس بل کی منظوری کے بعد حکومت کو اب قانوناً اختیار حاصل ہوگیا ہے کہ وہ بجٹ تجاویز پر من وعن عمل کرسکے گی۔فنانس بل کی منظوری کے وقت صرف پانچ وفاقی وزراء ایوان میں موجود تھے جبکہ اہم وزراء غائب رہے،یہ ملک میں انوکھی مثال قائم ہوئی ہے کہ قائد ایوان بجٹ منظوری کے وقت ایوان میں حاضر نہیں تھے۔

اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں فنانس منظور کیا گیا ہے جس میں سینیٹ کی طرف سے92تجاویز میں سے 56 تجاویز بھی شامل کی گئی ہیں۔نئے بل کے تحت وفاقی وزراء کی تنخواہوں میں ساڑھے سات فیصد اضافہ کو قانونی شکل دے دی گئی ہے۔

(جاری ہے)

بجٹ میں اقتصادی راہداریکیلئے اربوں روپے کے فنڈز مختص کئے گئے،ایل این جی گیس درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،ملک میں سستے موبائل بنانے کیلئے کمپنیوں کو مراعات دی گئی ہیں حکومت نے نئے فنانس بل میں نہ رےئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لاگو کئے ہیں اور نہ بڑے بڑے زمینداروں پر ٹیکس لگایا گیا ہے،فنانس بل کے تحت ملک کے پوش علاقوں میں اربوں کی جائیداد کے مالکوں پرٹیکس عائد نہیں کیا گیا،اپوزیشن نے یہ بجٹ امیروں کا قرار دے کر مسترد کردیا ہے اور کہا کہ بجٹ کے بعد اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گاادھرمتحدہ اپوزیشن نے بجٹ میں کٹوتی کی تحریکوں کو نظرانداز کرکے وفاقی بجٹ2015-16ء کو منظور کرانے پر ایوان سے واک آؤٹ کیا اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

اپوزیشن نے حکومت سے ایوان کے اندر تعاون کی پالیسی کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔واک آؤٹ کرنے والوں میں پیپلزپارٹی،تحریک انصاف،جماعت اسلامی،ایم کیو ایم کے اراکین شامل تھے۔ظہر کی نماز کے بعد جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو اپوزیشن نے حکومت کی طرف سے کٹوتی کی تحریکیں نظرانداز کرکے وزارتوں کیلئے مطالبات زر منظور کرانے پر واک آؤٹ کیا۔سپیکر کی ہدایت پر وفاقی وزراء نے اپوزیشن گیلری میں جاکر اپوزیشن کو واپس ایوان میں لانے کی کوشش کی لیکن ان کی کوششیں ناکام ہوگئیں۔

اپوزیشن ایوان میں واپس آنے کی بجائے اپنے گھروں میں چلے گئے اور بجٹ کی باقی کارروائی میں حصہ لینے سے انکار کیا۔حکومت نے اپوزیشن کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فنانس بل2015-16ء بھی منظور کرلیا۔اپوزیشن کی ترامیم بھی غیر مؤثر ہوگئی،حکومت نے فنانس بل میں مجوزہ ترامیم کو اکثریت کی بناء پر منظور کرالیا،گزشتہ روز اپوزیشن نے عین اس وقت ایوان سے واک آؤٹ کیا تھا جب وزیرخزانہ مطالبات زر پیش کر رہے تھے۔منگل کے روز بھی فنانس بل کی منظوری کے وقت اپوزیشن ایوان سے غائب ہوگئی اور وزیرخزانہ نے آسانی سے فنانس بل منظور کرالیا،انہیں اپوزیشن کی کوئی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا،حکومت کے کسی رکن نے بجٹ پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا