18ویں اور 21ویں ترمیم کیس،صدر نے پارلیمنٹ کی منظوری سے پہلے دستخط کئے تو بازی پلٹ گئی،جسٹس آصف کھوسہ،پارلیمنٹ کی منظوری سے قبل صدر کے دستخط کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں، یہ قانون کے خلاف ہے،صدر پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد دستخط کرتا ہے،ریمارکس،پارلیمانی جمہوریت،پارٹی سربراہ جمہوریت میں تبدیل ہوگئی ،اصل اقتدار اعلیٰ پارٹی قیادت کے پاس ہے جو پارلیمنٹ اور ملک سے باہر بیٹھ کرانتظام چلاتے ہیں،جسٹس فائز عیسیٰ،21ویں ترمیم سے قبل سیاسی رہنما فوجی عدالتوں کے خلاف تھے ، آئی ایس پی آر کی ایک ٹویٹ پر سرتسلیم خم کرلئے،سماعت پیر تک ملتوی،اٹارنی جنرل دلائل دینگے

جمعہ 19 جون 2015 07:16

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔19 جون۔2015ء)سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر فوجی عدالتوں کے قیام کی پارلیمنٹ میں منظوری سے قبل صدر نے دستخط کئے ہیں تو اس کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں ہوگی کیونکہ یہ قانون کے خلاف ہے،صدر پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد دستخط کرتا ہے،اگر ایسا ہے تو پھر بازی پلٹ چکی ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر پارلیمانی جمہوریت پارٹی سربراہ کی جمہوریت میں تبدیل ہوگئی ہے،اصل اقتدار اعلیٰ اب پارٹی قیادت کے پاس ہے جو پارلیمنٹ اور ملک سے باہر بیٹھ کر پارٹی کا انتظام چلاتے ہیں جبکہ عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 21ویں ترمیم سے قبل تمام سیاسی رہنما فوجی عدالتوں کے خلاف تھے لیکن آئی ایس پی آر کی ایک ٹویٹ آئی اور تمام سیاسی جماعتوں نے سرتسلیم خم کرلئے اور کہا کہ کیا عدالت عظمیٰ فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر نظرثانی کا اختیار رکھتی ہے،اگر مجھے دہشتگرد قرار دے دیا جائے توکیا میں انصاف کیلئے سپریم کورٹ آسکتی ہوں۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ دلائل جمعرات کے روز اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترمیموں کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنیوالے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17رکنی فل کورٹ بنچ کی کے روبرو دئیے،عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ بل چھ جنوری کو پاس ہوا،سات جنوری کو صدر مملکت نے دستخط کئے،ترمیم میں کہا گیا ہے کہ وفاق کیس ٹرانسفر کرے گا اور انتظامیہ فیصلہ کرے گی کہ کون سا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلے گا،ایک ایکٹ میں26فروری کو ترمیم ہوئی،یہ ایکٹ اور آرڈیننس ملٹری کورٹ کو اختیارات دیتا ہے،ملٹری کورٹس ان کیمرا ٹرائل کرتی ہیں،کسی بھی شخص کو گرفتار کر سکتی ہیں،اس قرارداد کی اب پھر توثیق کر دی گئی ہے،پارلیمنٹ کے ممبران پہلے ایسے بنیادی حقوق پر قدغن قرار دیتے تھے،لیکن آئی ایس پی آر کے ایک ٹویٹ کے بعد پارلیمنٹ نے اسے منظور کرلیا، جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ کل ایک پوائنٹ اٹھایا گیا تھا کہ یہ پارٹی قیادت کی وجہ سے ہوا،کیا ایسا ہی ہے تو عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ فورسز کے بالواسطہ اور بلاواسطہ پریشر کی وجہ سے ترمیم منظور کی گئی،ایسا تو ملٹری کورٹس کو آئین میں جگہ دے دی گئی ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کے تمام بار ایسوسی ایشنز نے یہ کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل فےئر نہیں ہوتا اور ہم اسکے خلاف آواز اٹھائیں گے،چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ آپ کے کہنے کا مطلب ہے تمام بار ایسوسی ایشن اس کے خلاف ہیں تو عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے،جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یحییٰ کے دور میں کوئی قانون نہیں تھا اور اب یہاں ویکیوم نہیںDeodwoodہے،قراداد مقاصد نے پاکستان کے عوام کو تقسیم کیا ہے،اگر کوئی تاریخ انفرادی طور پر لکھے تو تبدیل ہوسکتی ہے لیکن اجتماعی طور پر ایسا ممکن نہیں،محمود اچکزئی اور وکلاء محاذ نے بھی عدالت میں بنیادی ڈھانچے پر بحث کی ہے لیکن ابھی تک طے نہیں ہوسکا۔

عدالت نے کہا کہ جب آئین بنایا گیا تھا تو آئین بنانے والے پوری طرح آزاد تھے،1973ء میں پہلی مرتبہ اسلام کو سرکاری مذہب قرار دیاگیا اس سے قبل کے آئین میں اسلام سرکاری مذہب نہیں تھا۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ مشرقی پاکستان کے عوام کو بھی ایک قراردادنے تقسیم کیا تھا،کیا ایسی دستاویز پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے جن پر اس وقت اتفاق نہیں تھا،تو ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نہ صرف ڈھانچے کو بنیاد بنا رہی ہے بلکہ اس پر تنقید کر رہی ہیں،اگر بنیادی ڈھانچہ ہٹا دیا جائے تو اسکا اختتام کہاں کرینگے،جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اس صورت میں وہ وقت جلد آرہا ہے کہ جب ترامیم پارلیمنٹ کی بجائے عدلیہ کرے گی،عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی سے زیادہ عوام کی آزادی ضروری ہے،اگر بنیادی ڈھانچہ ہی اصل بنیاد بن جائے تو1973ء کے آئین کی تمام ترامیم چیلنج ہونگی اور عدالت کے پنڈورہ باکس کھولنا ہوگا،کے یہ ڈھانچہ اجازت دیتا ہے کہ غاصب ترمیم کرکے تمام کو محکوم بنائے،جسٹس کھوسہ نے کہا کہ 184آرٹیکل کو بنیاد بنا کرعتیقہ اوڈھو جسے مقدمات پر سوموٹو لیتے رہے ہیں تو ان ترامیم پر بھی سوموٹو کیوں نہیں لے سکتے،عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اگر عدلیہ نے پارلیمنٹ کو تابع کرلیا تو خطرناک ہوگا۔

انڈیا کا آئین بننے کا طریقہ ہمارے طریقے سے مختلف ہے،وہاں پر جج نے ایک الگ چیز کو بنیادی ڈھانچہ قرار دیا،لیکن ہمارے ہاں بنیادی ڈھانچہ ہی موجود نہیں ہے،ہم چل رہے ہیں اور اس میں خوش ہیں کہ آئین بنا لیا اور ملک چل رہا ہے،انڈیا میں پارلیمنٹ کے تابع ججز ہیں،یہاں عدالت عالیہ ججز کی تعیناتی کرتی ہے اور پارلیمنٹ پر بھی بھاری ہے،جواد ایس خواجہ نے کہا کہ انڈیا کا آئین غیر متعلقہ چیز ہے اس کو کیوں ڈسکس کیا جارہا ہے۔

جسٹس ثاقت نثار کہا کہ آپ اکیسویں ترمیم کو چیلنج نہیں کریں ،عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ میں نے یہ نہیں کہاکہ اس آئینی ترمیم کو ختم کیا جائے،لیکن اس کو ختم کیا جائے جو فوجی عدالتوں کو تحفظ دیتی ہیں اور آرڈیننس کے تحت اسکو تحفظ دیا جائے۔اس ترمیم کو دوتہائی اکثریت نے نہیں منظور کیا،اس ترمیم کو آرڈیننس کے تحت پاس کیا گیا۔ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کہہ رہی ہیں کہ آرٹیکل 8کے تحت اس ترمیم کو تحفظ دیا جو اس دن پیش ہوئی،عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ دوتہائی اکثریت ضروری ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ایک ہی مقدمہ میں کچھ لوگوں کو سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے اور کچھ کو نہیں،میرے بچے کی داڑھی ہے مجھے اس کا خطرہ ہے ایک ماں نے مجھ سے کہا میں عدالت سے سوال کرتی ہوں کہ اگر فوجی عدالتیں مجھے دہشتگرد قرار دیتی ہیں تو کیا مجھے یہاں نظرثانی کیلئے موقع دیا جائے گا،اس عدالت سے عوام کی امیدیں ہیں کہ وہ لوگوں کو بنیادی حقوق دلائے گی،جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کون فیصلہ کرے گا کہ یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور کون فیصلہ کرے گا کہ اس نوعیت کی خلاف ورزی ہے کہ سپریم کورٹ ایکشن لے۔

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ فوجی عدالتیں منظم طریقے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کریگی اور کوئی قانون بنا تو اس کے بعد آپ آئیں گے،تو ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے کہ آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اس قانون سے بڑے پیمانے پر تحفظات ہیں اس لئے اسے کالعدم قرار دیدیا جائے،کیا ہم پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کالعدم قرار دیں،ہم نے انسانی حقوق کے خلاف بات کرنے والوں کی سرزنش کرتے بھی ہیں۔

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ملٹری کورٹس سے خیر کی توقع نہیں ہے،آئینی ہو چکی ہیں تو آرمی کورٹس کو بھی فےئر ٹرائل دینا ہوگا،دو سال کیلئے بنائی گئی ہیں۔آصف کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری ایکٹ کے تحت بنائی گئی ہیں،آئین میں انکو بنیادی آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے،اب آپ کیا چاہتی ہیں۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ عدالت عظمی ہمیں تحفظ دے وگرنہ ہم پارلیمنٹ کے سامنے جائیں گے،عدالت یر کو اٹارنی جنرل کو دلائل دینے کا حکم دیتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔