فوجی عدالت سے مجرموں کو سزا،سپریم کورٹ نے تفصیلات طلب کر لیں،فوجی عدالتیں ردعمل کے نتیجے میں بنائی گئیں،حامد خان، پشاور سکول سانحہ کو بنیاد بنا کر متوازی عدالتی نظام قائم کردیا گیا، جسٹس آصف سعید کھوسہ، کیا اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے،چیف جسٹس،سماعت کل تک ملتوی، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل دلائل دینگے

بدھ 17 جون 2015 08:29

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17 جون۔2015ء) سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کو ہدایت کی ہے کہ فوجی عدالتوں کی طرف سے جن پانچ افراد کو موت کی سزا سنائی گئی ہے اس کی تفصیلات عدالت میں پیش کی جائیں تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جاسکے کہ مقدمے کی سماعت شفاف ہوئی ہے یا نہیں یہ بات چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے اکیسویں آئینی ترمیم کیخلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہی سماعت کے دوران حامد خان نے کہا کہ فوجی عدالتیں ایک ردعمل کے نتیجے کے طور پر بنائی گئی ہیں جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پشاور سکول میں ہونے والے سانحہ کو بنیاد بنا کر متوازی عدالتی نظام قائم کردیا گیا حامد خان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتیں عارضی ہیں یہ مستقل عدالتی نظام نہیں ہے عدالت نے کہا کہ عدالتیں آئین کی آرٹیکل 175 کے تحت بنتی ہیں بتایا جائے کہ آئین میں ملٹری کورٹس کی گنجائش کہاں ہے حامد خان نے بتایا کہ یہ عدالتیں نیشنل ایکشن پلان کے تحت بنائی گئی ہیں جن کی معیاد دو سال ہے اور ان کو سپیشل ٹرائس کورٹ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور انٹرنیشنل کورٹ آف جوڈیشل نے اپنی رپورٹ بنائی ہے اس پر ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آئی سی جے کا کردار اور ساتھ یہ نہیں کہ وہ ہماری عدالتی نظام پر رپورٹ مرتب کرسکیں آپ یہ بتائیں کہ ملٹری کورٹس میں کم ازکم شفافیت کا معیار کیا ہوگا،شاہد حامد کے دلائل مکمل ہوگئے آج سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل عابد زبیری دلائل دینگے ۔

(جاری ہے)

منگل کے روز آئینی ترامیم کی سماعت کے دوران ان دلائل دیتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ 1953ء سے 1999ء تک کے فیصلوں کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ملٹری کورٹس عارضی ہیں اور آئین کے تابع ہیں اس پر عدالت نے پوچھا کہ کورٹس تو آرٹیکل 175کے تحت پیش ہیں ان کورٹس کو کس آرٹیکل کے تحت بنایا گیا آئین میں ملٹری کورٹس کا ذکر کہاں ہے ؟ اس پر حامد خان نے کہا کہ ملٹری کورٹس عارضی ہیں اور آئین کے تابع ہیں اس پر چیف جسٹس ناصر الملک نے سوال کیا کہ کیا اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے عدالت نے کہا کہ ابھی تک عارضی عدالتوں کے بارے میں یہ نہیں بتایا جاتا پردے کے پیچھے کون جج بیٹھا ہے اور کون گواہ ہے صرف فیصلہ سامنے آجاتا ہے تو حامد خان نے کہا کہ پردے کے پیچھے جج نہیں ہوتا اس پر عدالت نے کہا کہ کسی ایسے مقدمے کی کارروائی ہے آپ کے پاس جس کا فیصلہ ہوچکا ہو ۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس بند کرکے یہ کام کسی اور ادارے کو دے دیئے جائیں ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں کم سے کم شفافیت کا معیار ہوگا اگر ہمارا فوجداری نظام خراب ہے تو نظام کو درست کرنے کیلئے آئین کو بالائے طاق نہیں رکھ سکتے اگر کوئی ملزم چھترول کے بغیر اپنی غلطی نہیں مانتا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ چھترول کیا جائے اس پر حامد خان نے کہا کہ آرٹیکل 175عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کرتا ہے ملٹری کورٹس ہمارے عدالتی نظام کا حصہ نہیں یہ محض انتظامی بنیادوں پر ہوتا ہے اور آئین کا بنیادی ڈھانچہ اجازت دیتا ہے اس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگر ہم نے بنیادی ڈھانچے پر انحصار کرنا ہے تو پھر میدان بہت بڑا ہے ہم مزے سے جو بھی آئے کریں اور بنیادی ڈھانچے کو بنیاد بنا کر جو مرضی کریں اس پر عدالت نے سماعت کوآج تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آج سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل عابد زبیری اپنے دلائل دینگے ۔