ایران خاموشی سے طالبان کے ساتھ مراسم بڑھاتا رہا ہے، امریکی اخبار، ایران نہ صرف طالبان کے لیے نئے جنگجو بھرتی کر رہا ہے بلکہ ان کی تربیت میں مدد فراہم کر رہا ہے، وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ

اتوار 14 جون 2015 05:22

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔14 جون۔2015ء)ایک امریکی روزنامے کے مطابق ایران گذشتہ عرصے میں خاموشی سے طالبان کے ساتھ مراسم بڑھاتا رہا ہے اور اب ایران نہ صرف طالبان کے لیے نئے جنگجو بھرتی کر رہا ہے بلکہ ان کی تربیت میں مدد فراہم کر رہا ہے۔وال سٹریٹ جرنل کے مطابق مغربی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے طالبان کو اسلحے، گولہ بارود اور مالی مدد میں اضافے کے بعد افغانستان میں امن عامہ کی نازک صورتحال کو مزید خطرات کا سامنا ہے۔

سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کے بارے میں ایران کی حکمت عملی کے دو پہلو ہیں، ایک جانب ایران خطے میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو روکنا چاہتا ہے جبکہ دوسری جانب وہ افغانستان میں دولتِ اسلامیہ کے پھیلاوٴ کے خلاف طالبان کو تیار کرنا چاہتا ہے۔

(جاری ہے)

سفارتکاروں کا مزید کہنا ہے کہ حالیہ عرصے میں افغانستان میں طالبان کی جارحانہ کارروائیوں میں تیزی اور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے حوالے سے سرگرمیوں میں اضافے سے اس امکان میں اضافہ ہو گیا ہے کہ طالبان کے کچھ رہنما افغان حکومت میں شامل ہو سکتے ہیں۔

ایک مغربی سفارتکار کے بقول ’ایران طالبان کے دوبارہ ظہور کے حوالے سے جْوا کھیل رہا ہے۔ ایران کو یقین نہیں کہ آنے والے دنوں میں افغانسنان کی سمت کیا ہوگی، اس لیے وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے خیال سے طالبان پر داوٴ لگا رہا ہے۔‘وال سٹریٹ جرنل کیمطابق اخبار نے اس حوالے سے ایران کا موٴقف جاننے کی کوشش کی لیکن ایران نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم گذشتہ عرصے میں ایران مغربی سفارتکاروں سے ساتھ بات چیت میں بارہا اس الزام سے انکار کرتا آیا ہے کہ وہ طالبان کو کسی قسم کی مالی یا فوجی مدد فراہم کر رہا ہے۔

امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین ایڈ روئس کا کہنا ہے کہ اگر مغربی طاقتوں اور ایران کے درمیان جوہری سمجھوتے پر دستخط ہو جاتے ہیں اور ایران پر عائد پابندیوں میں نرمی ہو جاتی ہے تو ایران طالبان کی مدد میں اضافہ کر سکتا ہے۔ریپبلکن سینیٹر کے بقول ’ایران پورے خطے میں عسکریت پسندوں اور باغی گروہوں کی مدد میں اضافہ کر رہا ہے اور ایران کو اقتصادی پابندیوں پر نرمی سے اربوں ڈالر کا جو فائدہ ہونے جا رہا ہے، اس کے بعد عسکریت پسندوں کی مدد میں بڑا اضافہ ہونے جا رہا ہے۔

‘سینٹ میں مسلح افواج کی کمیٹی کے چیئرمین جان مکین نے بھی اسی قسم کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔جان مکین کے مطابق ایران کی جانب سے طالبان کی مدد میں اضافہ دراصل یمن، شام، عراق اور لبنان میں ایران کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویے کی ایک کڑی ہے۔ ’یہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ اوباما انتظامیہ زمینی حالات سے جان بوجھ کر نظریں چرا رہی ہے اور زمینی حالات بتاتے ہیں کہ خطے میں ایرانی جارحیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

‘وال سٹریٹ جرنل کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکی انتظامیہ کے سینیئر اہلکاروں نے ایران اور طالبان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کی اطلاعات پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے لیکن ان اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ امریکہ کی سفارتکاری میں بہتری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اوباما انتظامیہ کو اس بات کی فکر نہیں کہ ایران خطے کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔

دوسری جانب ایران اور طالبان کے درمیان تعاون کے حوالے سے افغانستان کے حکومتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایرانی حکمتِ عملی کاحصہ ہے۔ ان اہلکاروں کے بقول ایران پہلے ہی شام اور عراق میں داعش یا دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑائی لڑ رہا ہے اور ایران کو خدشہ ہے کہ کہیں اسے دولتِ اسلامیہ کے خلاف اپنی سرحد کے قریب ایک نیا محاذ نہ کھولنا پڑ جائے۔

اس لیے ’ایران دولتِ اسلامیہ کا مقابلہ طالبان کے ذریعے کرنا چاہتا ہے۔‘طالبان امور اور افغانستان میں ایران کی مداخلت پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار انتونیو گستوزی کہتے ہیں کہ ’اگر ایران کی مدد نہ ہوتی تو میرا خیال نہیں کہ طالبان دولتِ اسلامیہ کے خلاف اس قسم کی کامیاب کارروائیاں کر سکتے۔‘پچھلے سال کے مقابلے میں گذشتہ چند ماہ سے افغانستان کے مغربی اور شمالی علاقوں میں سکیورٹی کی صورت حال تیزی سے خراب ہوئی ہے اور اس دوران ان علاقوں میں طالبان کی کارروائیوں کی وجہ سے افغان فوجیوں کو اپنے پاوٴں جمائے رکھنے میں مشکل کا سامنا ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ ایران کس حد تک طالبان کی مدد جاری رکھے گا۔ایک افغان حکومتی اہلکار کے بقول ایرانی یہ نہیں چاہیں گے کہ ’ طالبان بہت مضبوط ہو جائیں۔ ایرانی صرف یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ لین دین کے لیے ان کے ہاتھ میں بھی کچھ ہونا چاہیے۔ اگر خدانخواستہ افغانستان میں طالبان کی مکمل جیت ہو جاتی ہے تو ایران کے ہاتھ میں یہ طاقت نہیں رہے گی۔‘

متعلقہ عنوان :