سینٹ، مہنگائی میں کمی صرف الفاظ کا گورکھ دھندہ ، عملاحکومت نے عوامی فلاحے کوئی اقدام نہیں اٹھایا، اپوزیشن،حکومت کا یہی رویہ رہا تو بجٹ منظوری کے خلاف شدید مزاحمت کی جائے گی،بجٹ میں چھوٹے صوبوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا وفاق کیخلاف چھوٹے صوبوں کی نفرت بڑھے گی،حکومت احساس محرومی کے خاتمے کیلئے فوری طور پر چھوٹے صوبوں کی ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کرے، ملکی نہیں امیروں کے گھر کا بجٹ ہے اس میں غریبوں کیلئے کچھ نہیں ، وزیرخزانہ کے اقدامات سے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے قرضوں میں اضافہ ہوا ، 15 ہزار میں گھر کا بجٹ نہیں بنتا ، ملک کا مسلہ آبادی نہیں کرپشن ہے،زرعی قرضوں کا سارا فائدہ غریب کسانوں کی بجائے بڑے بڑے زمینداروں کو پہنچتا ہے ، سودی نظام ختم کیے بغیر مسئلہ حل نہیں ہو گا، عثمان پیرزادہ میر کبیر، سعید غنی، کریم خواجہ محتار احمد دھامرہ، ہری رام ، سراج الحق ،گیان چند کلثوم پروین کا سینٹ میں بجٹ پر بحث کے دوران اظہار خیال

جمعہ 12 جون 2015 08:17

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔12 جون۔2015ء)سینیٹ میں بجٹ کے حوالے سے بحث میں اپوزیشن نے عوامی مفاد کے منافی اقدامات کو ختم کرنے اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کا مطالبہ کیا،مہنگائی میں کمی صرف الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے،عملی طور پر حکومت نے عوامی فلاح وبہبود کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا اگر حکومت کا یہی رویہ رہا تو بجٹ منظوری کے خلاف شدید مزاحمت کی جائے گی،سینیٹ کے اپوزیشن اراکین نے بجٹ میں چھوٹے صوبوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وفاق کی جانب سے چھوٹے صوبوں کے خلاف نفرت بڑھے گی،حکومت فوری طور پر چھوٹے صوبوں کے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کرے جس سے ان کا احساس محرومی ختم ہوسکے۔

جمعرات کو بجٹ بحث پر سینیٹر عثمان پیرزادہ نے کہا کہ 5لاکھ34ہزار افراد نے ٹیکس ریٹرن دئیے،علاوہ ازیں3 لاکھ افراد ایسے ہیں جنہوں نے کہا کہ ہمارا ٹیکس بنتا بھی نہیں ہے،اب موجودہ بجٹ میں بھی ٹیکس دینے والوں کے گرد گھیرا تنگ کیاگیا ہے مگر نئے ٹیکس حاصل کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے،حکومت نے ودہولڈنگ کے نام پر جگا ٹیکس متعارف کرا دیا ہے ایک ہزار روپے پر6روپے ٹیکس لینا ظلم ہے۔

(جاری ہے)

سینیٹر نسرین جلیل نے ایوان میں کہا کہ بجٹ صرف الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے،بے روزگاری،افلاس،بیماریوں نے ملک کے عوام کے گرد شکنجہ کسا ہوا ہے،تاہم حکومت خوبصورت لاہور پر کام کرنے میں گامزن ہے،عوام کیلئے کچھ نہیں کیا گیا،پی ایس ڈی پی کے مطابق کراچی کو15/0 بھی نہیں دیا گیا حالانکہ کراچی معیشت کا حب ہے،اسے نظر انداز نہ کیا جائے،زراعت ملکی حیثیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے، کاشتکاروں پر بھی ٹیکس لگا کر انکے حوصلے پست کر رہی ہے،فصلوں کی مناسب قیمت کسان کو ملنا چاہئے،تاکہ زراعت کے شعبہ میں ہم خودکفیل ہوں۔

سینیٹر میر کبیر نے بجٹ پر اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلئے ترقیاتی اخراجات میں کمی کرتے ہیں اگر ہماری آمدنی کم تو اخراجات کو بھی کم کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ غیر ترقیاتی اخراجات میں 28فیصد اضافہ جبکہ ترقیاتی اخراجات میں 10فیصد کمی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کی شاہراہوں کیلئے صرف19فیصد رکھا ہے،وزارت خرانہ کی تجویز کردہ14سکیم1ارب لاگت سے کم کی ہیں اس سے ترقی ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ وفاق بلوچستان میں پانی کی شدید کمی کو پورا کرنے کیلئے فوری اقدامات کرے،بلوچستان کے30ہزار ٹیوب ویلوں کو سولر شمسی توانائی پر منتقل کرے اس سے 800میگاواٹ بجلی اور12ارب روپے سبسڈی کی مد میں زمینداروں کو دینے سے بچ جائیں گے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان کی صنعتوں کو پانچ سال کیلئے ٹیکس فری قرار دیا جائے۔

سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ ہماری حکومت پر سات مصیبتیں مسلط تھیں مگر موجودہ حکومت کو یہ مسائل نہیں ہیں،انہوں نے کہا کہ جی ایس پی پلس سے فائدہ ہوا مگر برآمدات میں کمی ہوئی ہے،کے ای ایس سی کو بیچ کر36ارب روپے دئیے ہیں،انہوں نے کہا کہ بجٹ تضادات کا مجموعہ ہے۔سینیٹر کریم خواجہ نے کہا کہ چینی اور آٹے اور دالوں کی قیمتوں میں بے حد اضافہ ہوا،مہنگائی کی شرح میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت تمام ٹرانسپوٹیشن ریلوے کے ذریعے کرے ،پی ایس ڈی پی کی شرح مایوس کن ہے،صوبوں اور مرکز کی پی ایس ڈی پی ہے کو بپس ہونے سے بچانے کیلئے اقدامات کئے جائیں،انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کو کوریج کیلئے ایک چینل مختص کرنے کا مشورہ دیا۔سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) نے بہترین بجٹ پیش کیا ہے،انہوں نے کہا کہ الزامات لگانا بہت آسان ہے مگر حکومت چلانا بہت مشکل ہے۔

سینیٹرمختاراحمد دھامرہ نے کہا کہ نوجوان کو قرضے،گھروں کی تعمیر کے نام پر دھوکہ دیا گیا،یہ عوام دوست نہیں بلکہ صنعت کاروں کابجٹ ہے،انہوں نے وزیرخزانہ سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30فیصد اضافہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کو پانی کے منصوبے K4اور کراچی آپریشن کا کوئی معاوضہ نہیں دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے کو خصوصی ریلیف دئیے بغیر ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا ہے۔

سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل نے بجٹ پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملکی بجٹ نہیں بلکہ امیروں کے گھر کا بجٹ ہے اس میں غریبوں کیلئے کچھ نہیں رکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کو بنانے کا فیصلہ کیا گیا مگر مغربی روٹ کیلئے12فیصد جبکہ پنجاب کیلئے88فیصد بجٹ رکھا گیا ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ مغربی روٹ کیلئے88فیصد بجٹ رکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے منصوبوں کیلئے اے ڈی پی میں بہت کم فنڈز رکھے جاتے ہیں،انہوں نے کوئٹہ میٹروبس منصوبے کو اس بجٹ میں شامل کیا جائے بلوچستان میں تعلیم صحت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا بندوبست کیا جائے،بلوچستان میں چھوٹے ڈیم بنائے جائیں،سینیٹر ہری رام نے کہا کہ بجٹ میں ایک بار پھر غریبوں کو نظرانداز کیا گیا ہے،زرعی شعبے کو شدید مشکلات کا سامنا ہے،کاشتکاروں کو ان کی فصلوں کے مناسب دام نہیں ملتے ہیں،انہوں نے کہا کہ ملک میں زرعی ٹیکس لگانے کی باتیں کی جارہی ہیں کیا زمیندار ٹیکس نہیں دیتے ہیں آبیانہ سمیت مختلف قسم کے ٹیکس زمیندار اب بھی دے رہا ہے۔

سینیٹر سراج الحق نے بجٹ پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کے بجٹ میں کوئی نیا ویژن نہیں ہے اور ہماری توقعات کے بالکل برعکس ہے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ کے اعداد وشمار میں بہت زیادہ فرق ہے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں تعلیم اور صحت کا حصہ بہت کم رکھا گیا ہے،حکومت قرضوں کے بوجھ میں روزبروز اضافہ کر رہی ہے،وزیرخزانہ کے اقدامات سے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی جانب سے قرضوں میں اضافہ ہوا اس کا ایک حل ہے کہ محصولات اور وسائل میں اضافہ کیا جائے ملک میں38لاکھ افراد کی ماہانہ آمدن15لاکھ سے زائد ہے۔

انہوں نے کہا کہ زرعی قرضوں کا سارا فائدہ غریب کسانوں کی بجائے بڑے بڑے زمینداروں کو پہنچتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے سپیشل ترقیاتی فنڈز کی مد میں48ارب روپے مختص کئے ہیں یہ رقم کہاں پر خرچ کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ فاٹا کیلئے بجٹ میں کوئی فنڈز مختص نہیں کئے گئے ہیں،انہوں نے کہا کہ بجٹ کے بعد روز مرہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 8000روپے سے لیکر15ہزار روپے میں کسی بھی گھر کا بجٹ نہیں بن سکتا ہے،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کم اضافہ کرپشن کا سبب بن جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی نہیں بلکہ کرپشن ہے،سرکاری منصب پر براجمان افراد کو حکومت کی جانب سے بھی مراعات ملتی ہیں اور وہ ذاتی کاروبار میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا معاشی نظام سود پر مبنی ہے،اس کو ختم کئے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے ہیں۔

سینیٹر گیان چند نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کو ان کا جائز حق نہیں دیا جارہا ہے،سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی کوئی خاص بجٹ نہیں رکھا گیا ہے۔سینیٹر جنرل(ر)صلاح الدین نے بجٹ پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ بجٹ نہایت مشکل وقت میں بنایا گیا ہے ایک طرف ہماری افواج اندرونی اور بیرونی دہشتگردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں بجٹ پاکستان کے امنگوں کی ترجمانی ہے۔سینٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ایوان بالا کا کردار بجٹ سازی میں بڑھایا جائے۔انہوں نے کہا کہ آج ملک کی قیادت اندرونی اور بیرونی سطح پر کامیابیوں سے ہمکنار ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک متوازن بجٹ ہے،سینیٹ کا اجلاس جمعہ کے روز ساڑھے10بجے تک ملتوی کردیاگیا