جوڈیشل کمیشن نے انتخابی تھیلوں سے ملنے والے فارم 15کاریکارڈطلب کر لیا،سیاسی جماعتیں فارم15کاجائزہ لے لیں ضرورت پڑی توکمیشن خود بھی کسی گواہ کوجرح کیلیے طلب کرے گا،ایڈیشل سیکرٹری الیکشن کمیشن کوبھی دوبارہ بلاسکتے ہیں،چیف جسٹس، 60سے 80فیصد حلقوں سے فارم 15وصول کرلیے ، باقی بھی جلد پیش کردیں گے،وکیل الیکشن کمیشن، زیادہ ترحلقوں کے فارم پندرہ غائب ہیں ،حفیظ پیرزادہ

جمعرات 11 جون 2015 08:40

اسلام آباد(اُردوپوائنٹ اخبارآن لائن۔11 جون۔2015ء)عام انتخابات 2013میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن نے الیکشن کمیشن سے پیرتک انتخابی تھیلوں سے حاصل کیے گئے فارم 15کاریکارڈطلب کیاہے جبکہ کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس ناصرالملک نے کہاہے کہ تمام سیاسی جماعتیں فارم پندرہ کاتمام ریکارڈکاجائزہ لے لیں ضرورت پڑی توکمیشن خود بھی کسی گواہ کوجرح کے لیے طلب کرے گا،ایڈیشل سیکرٹری الیکشن کمیشن کوبھی دوبارہ بلاسکتے ہیں ،کمیشن اپنے دائرہ کارسے باہرنہیں جاسکتاآرڈیننس میں دیے گئے تین نکات کے مطابق ہی سفارشات دی جائیں گی جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل سلمان اکرم راجانے بتایاہے کہ 60سے 80فیصد حلقوں سے فارم 15وصول کرلیے گئے ہیں باقی بھی جلد پیش کردیں گے ،فارم پندرہ کے لیے سیکرٹری الیکشن کمیشن کوبلایاجائے ،تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہاہے کہ انھوں نے تمام تردھاندلی کاریکارڈ کمیشن کے روبروپیش کردیاہے اورفارم پندرہ کاریکارڈبھی حاصل کرلیاہے زیادہ ترحلقوں کے فارم پندرہ غائب ہیں انھوں نے یہ معروضات چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اورجسٹس اعجازافضل خان پر مشتمل تین رکنی انکوائری کمیشن کے روبروپیش کیے ہیں ۔

(جاری ہے)

بدھ کے روز انکوائری کمیشن کی کارروائی شروع ہوئی تو ڈاکٹر خالد رانجھا نے این اے 142کے ریٹرننگ آفیسر اعجاز حسین سے پوچھا کہ کیا آپ کو تعیناتی سے قبل ٹریننگ دی گئی تھی تو انہوں نے بتایا کہ ہاں ہمیں اس کیلئے باقاعدہ ٹریننگ دی گئی تھی ۔ قواعد وضوابط بتائے گئے تھے اور رہنمائی کیلئے ایک کتابچہ بھی دیا گیا تھا ۔ خالد رانجھا نے پوچھا کہ آپ نے رزلٹ کہاں سے مرتب کیا ؟ تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے رزلٹ فارم 14کی معلومات سے مرتب کیا ۔

ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے رزلٹ مرتب کرتے وقت تمام امیدواروں کو بلایا تھا تو بتایا کہ ہاں ہم نے تمام امیدواروں کو نوٹس جاری کئے تھے لیکن کچھ امیدواروں نے اپنی جگہ اپنے پولنگ ایجنٹس کو بھیجا خالد رانجھا نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس وہ نوٹس موجود ہے جس پر پولنگ ایجنٹس کے دستخط ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہمارے پاس نوٹس موجود ہے اس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو نوٹس فوٹو کاپی کروا کے عدالت میں جمع کروادیں ۔

خالد رانجھا نے پوچھا کہ کیا آپ نے مسترد کردہ ووٹوں کی گنتی کی تھی ؟ تو انہوں نے بتایا کہ نہیں ہم نے فارم 14کی روشنی میں رزلٹ مرتب کیا تھا ۔ خالد رانجھا نے پوچھا کہ کیا آپ نے (ق) لیگ کے امیدوار سردار طالب حسین کو بھی رزلٹ کیلئے بلایا تھا جس پر انہوں نے کہا کہ ہاں تمام امیدواروں کو نوٹس بھیجے تھے اور ہمیں موصول شدہ نوٹس پر سردار طالب حسین کے دستخط بھی موجود ہیں اس پر خالد رانجھا نے کہا کہ یہ دستخط جعلی ہیں تو اعجاز حسین نے کہا کہ یہ پراسیس سرور کی طرف سے پہنچایا گیا تھا دستخط پر جعلی ہونا یا نہ ہونا پراسیس سرور والے ہی بتا سکتے ہیں ۔

رانجھا نے پوچھا کہ کیا آپ نے رزلٹ مرتب کرنے کے بعد بیگز دوبارہ سیل کئے تھے ؟ تو بتایا کہ ہاں ہم نے بیگز سیل کئے تھے ۔ خالد رانجھا نے کہا کہ طالب حسین نے آپ کو ملنے کی کوشش کی تھی لیکن آپ نے انہیں ملنے نہیں دیا اس پر اعجاز حسین نے عدالت کو بتایا کہ طالب حسین کا وکیل شاہ بہرام رزلٹ مرتب کرتے وقت ہمارے ساتھ تھا ۔ارشد حسین این اے 146کے ریٹرننگ افسر سے جرح کرتے ہوئے خالد رانجھا نے پوچھا کہ کیا الیکشن سے متعلق آپ کو تمام قواعد سے آگاہی دی گئی تھی تو انہوں نے بتایا کہ ہاں ہمیں آگاہی دی گئی تھی اور مجھے سب معلوم ہے اس پر انہوں نے کہا کہ آپ کے مرتب کردہ رزلٹ پر (ق) لیگ کے امیدوار کے دستخط موجود نہیں تو اس پر انہوں نے بتایا کہ ہم نے تمام امیدواروں کو بیٹھا کر رزلٹ مرتب کیا اب یہ ضروری نہیں کہ تمام امیدوار دستخط کریں اس کے بغیر بھی ہم رزلٹ جمع کرواسکتے ہیں ۔

ارشد حسین سے پوچھا گیا کہ آپ نے رزلٹ کس طرح مرتب کئے تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے فارم 14کی مدد سے فارم مرتب کئے اس پر پوچھا کہ کیا آپ کو مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد موجود ہے ؟ ہے تو انہوں نے بتایا نہیں مجھے مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد معلوم نہیں کیونکہ میں نے فارم 14کی معلومات پر رزلٹ مرتب کیا ہے اور بیگز کھول کر ووٹ گنتی نہیں کئے انہوں نے بتایا کہ ہمیں درخواست دی جاتی تو تب ہم بیگز کھول کر ووٹوں کی گنتی کرتے اس حوالے سے ہمیں کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ارشد حسین سے خالد رانجھا نے پوچھا کہ کیا آپ نے تمام امیدواروں کو نوٹس بھجوایا تھا تو انہوں نے بتایا کہ ہاں میں نے تمام امیدواروں کو نوٹس بھجوایا تھا اور تمام امیدواروں نے اسے موصول کیا تھا عدالت نے نوٹس کی کاپی جمع کروانے کی ہدایت کی ۔

خالد رانجھا نے پوچھا کہ آپ نے (ق) لیگ کے امیدوار کواس لئے نہیں بلایا کہ آپ اپنی مرضی کا رزلٹ مرتب کرسکیں تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے تمام امیدواروں کو نوٹس بھیجا تھا جو نہ آئے تو اس کو ہم زبردستی نہیں لاسکتے تھے خالد رانجھا نے حلقہ این اے 140کے ریٹرننگ آفسر رفاقت علی قمر سے جرح کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ نے رزلٹ کس طرح مرتب کیا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے فارم 14کی مدد سے رزلٹ مرتب کیا میرے پاس بیلٹ پیپر موجود نہیں تھے مجھے تمام ڈیٹا فارم 14کی صورت میں مہیا کیا گیا تھا ۔

خالد رانجھا نے پوچھا کہ کیا آپ نے تمام امیدواروں کو رزلٹ مرتب کرنے کیلئے نوٹس بھیجا تھا تو بتایا کہ ہاں میں نے تمام امیدواروں کو کمپوزٹ نوٹس بھیجا تھا میں نے یہ نوٹس اٹھارہ لوگوں کو جاری کیا تھا ۔ خالد رانجھا نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس اس کی رسید موجود ہے تو بتایا کہ نہیں میرے پاس اس کی رسید موجود نہیں یہ پراسیس سروس والوں کے پاس ہوگی خالد رانجھا نے کہا کہ درحقیقت آپ نے امیدواروں کو نوٹس جاری ہی نہیں کیا تھا اور ان کی غیر موجودگی میں رزلٹ مرتب کیا این اے 134کے ریٹرننگ آفیسر سے جرح کرتے ہوئے کیا آپ نے خرم منور منج کو نوٹس بھیجا تھا تو انہوں نے بتایا کہ ہاں میں نے تمام امیدواروں کو نوٹس بھیجا اور فون کرکے بھی ان کو اطلاع دی اور اپنے دفتر کے باہر نوٹس آویزاں کیا خالد رانجھا نے کہا کہ کیا آپ کو آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آپ فون کرکے اطلاع کریں تو بتایا کہ ہاں ہمیں آرٹیکلز کا سیکشن 39 اس بات کی اجازت دیتا ہے ۔

محمد قاسم سے جرح کرتے ہوئے خالد رانجھا نے پوچھا کہ کیا شفاعت حسین بھی این اے 104میں امیدوار تھے تو انہوں نے بتایا کہ ہاں یہ بھی امیدوار تھے اور میں نے رزلٹ مرتب کرنے سے قبل تمام امیدواروں کو نوٹس جاری کیا تھا خالد رانجھا نے کہا کہ اس نوٹس میں جگہ اور وقت کا تعین نہیں تھا تو محمد قاسم نے بتایا کہ میں نے اپنی کورٹ میں رزلٹ مرتب کیا تھا اور چوہدری شفاعت کے پولنگ ایجنٹ فیض احمد وہاں موجود تھے چوہدری شفاعت اس بات پر اٹھ کر عدالت کے سامنے آئے اور کہا کہ مجھ سے یا محمد قاسم سے قرآن پر ہاتھ رکھوا کریہ بات پوچھی جائے کہ انہوں نے میرے امیدوار کو بلایا یا مجھے اطلاع دی اس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو عدالت نے نہیں بلایا آپ خاموشی سے بیٹھ جائیں اس پر خالد رانجھا نے کہا کہ نوٹس پر چوہدری شفاعت کے دستخط موجود نہیں ہیں یہ آپ دیکھ لیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ آپ فارم کی کاپی عدالت میں جمع کروادیں ہم اسے دیکھ لیں گے محمد قاسم نے بتایا کہ چودہ مئی کو میں نے ایک حکم جاری کیا تھا جس کے مطابق کئی امیدواروں کی دوبارہ گنتی کرنے کی درخواست پر گنتی کی جانی تھی اور پندرہ مئی کو یہ گنتی دوبارہ کی گئی اور اس میں تمام امیدوار شامل تھے ۔

امتیاز حسین سے جرح کرتے ہوئے رانجھا نے پوچھا کہ آپ نے رزلٹ کس طرح مرتب کیا تو امتیاز حسین نے بتایا کہ میں نے فارم 14کی مدد سے رزلٹ مرتب کیا رزلٹ مرتب کرتے وقت کوئی امیدوار موجود نہیں تھا اور نہ ہی میں نے ووٹ ایگزامن کئے کیا آپ نے نوٹس جاری کیا تھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے نوٹس جاری کیا تھا لیکن یہ معلوم نہیں کہ یہ نوٹس امیدواروں کو ملا یا نہیں کیونکہ میں فیصل آباد کے حلقے میں تعینات تھا اور میری ڈیوٹی بھکر میں تھی ۔

عمر اعجاز سے خالد رانجھا نے پوچھا کہ کیا آپ نے رزلٹ مرتب کرتے وقت تمام امیدواروں کو نوٹس جاری کیا تھا جس پر انہوں نے بتایا کہ ہاں میں نے نوٹس جاری کیا تھا اس پر خالد رانجھا نے کہا کہ آپ جو نوٹس دکھا رہے ہیں یہ رزلٹ وصول کرنے کی کاپی ہے تو عمر اعجاز نے بتایا کہ اس کاپی پر تمام امیدواروں نے رزلٹ وصول کرنے کے بعد دستخط کئے تھے ۔(ق) لیگ کے گواہان کی جرح مکمل ہونے کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل عبدالرحمان صدیقی نے گواہان کی جرح شروع کرتے ہوئے عارف سلطان سے پوچھا کہ پولنگ والے دن الیکشن سے متعلق آپ کی کیا ذمہ داریاں تھیں اور آپ کو کس قسم کی شکایات موصول ہوئیں تو انہوں نے بتایا کہ میں جماعت اسلامی کے الیکشن سیل کا انچارج تھا اور الیکشن والے دن ہمیں یہ شکایات موصول ہوئیں کہ کراچی میں کسی بھی جگہ وقت پر پولنگ نہیں شروع ہوسکی جماعت اسلامی کے پولنگ ایجنٹس کو پولنگ سٹیشن میں نہیں جانے دیا گیا متحدہ کے کارکنان اسلحہ سمیت پولنگ سٹیشن پر موجود رہے یہاں تک کہ رینجرز اور پولیس نے بھی ان کی سرزنش تک نہیں کی جن پولنگ سٹیشنز پر ہمارے پولنگ ایجنٹس موجود تھے ان کو گن پوائنٹ پر واپس نکال دیا گیا کوئی سکریسی باقی نہ رہی متحدہ کے لوگ بیلٹ پیپرز پولنگ سٹیشنز سے باہر لا کر ٹھپے لگاتے رہے ربڑ کے بنائے گئے مختلف انگوٹھوں سے وہ ٹھپے لگاتے رہے ہم نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور صوبائی الیکشن کمیشن سندھ اور رینجرز کو بھی بتایا اور چھبیس ایف آئی آر کٹوائی جس کے بعد رینجرز کی طرف سے کچھ ریسپانس ملا ایک ایف آئی آر میں نے خود کٹوائی جس میں میری یہ شکایت تھی کہ ریٹننگ افسران کی جگہ متحدہ کے لوگ تھے اور جب پولیس نے اس شکایت پر ریٹرننگ افسران سے لیٹر طلب کئے تو تمام لیٹر جعلی نکلے جس کے بعد ہم نے الیکشن بائیکاٹ کردیا محمد حسین محنتی سے جرح کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے وکیل نے پوچھا کہ آپ کو کس قسم کی شکایات موصول ہوئیں تو انہوں نے بتایا کہ الیکشن سے قبل انتخابی فہرستیں تیار کرنے میں ایم کیو ایم کے لوگ شامل رہے بیس سے پچیس فیصد لوگ جو کراچی کے مستقل رہائشی ہیں لیکن وہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں رہائش پذیر ہیں ان کے ووٹ ان کے مستقل پتے پر ڈال دیئے گئے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ فہرستیں درست کی جائیں جس پر سپریم کورٹ نے فہرستیں درست کرنے کا حکم دیا لیکن اس کے باوجود کراچی میں الیکشن کی فہرستیں درست نہ ہوسکیں سپریم کورٹ کے حکم کے بعد کراچی میں کچھ جگہوں پر فوج کا فلیگ مارچ ہوا اس کے بعد کوئی پیش رفت نہ ہوسکی الیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد جب ہم نے الیکشن کمپین شروع کی تو متحدہ نے ہمارے دفاتر جلائے ہمارے کارکنان کو اغواء کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا متحدہ اور اے این پی نے کراچی میں فوج کی نگرانی میں الیکشن کروائے جانے کی مخالفت کی جبکہ دوسری طرف اٹھارہ جماعتوں نے تحریری طور پر الیکشن کمیشن سے فوج کی نگرانی میں الیکشن کروانے کی درخواست کی تھی جس پر الیکشن کمیشن اور نگران حکومت نے بھی وفاق سے فوج کی نگرانی میں الیکشن کیلئے درخواست بھیجی لیکن اس کے باوجود فوج کو نہیں بلایا گیا ۔

کے ایم سی اور کراچی واٹر پول کے تعینات کردہ پولنگ سٹاف کی لسٹ ہمیں نہیں دی گئی جہاں کچھ غیر لوگ تعینات کئے گئے تو متحدہ کے کارکنان نے ان سے کہا کہ آپ کوپولنگ سٹیشن آنے کی ضرورت نہیں آپ کے پیسے آپ کے گھر پہنچا دیئے جائیں گے کئی پولنگ سٹیشن ایسے تھے جہاں بیلٹ پیپر نہیں پہنچائے گئے کہیں پولنگ سٹیشنز پر بیلٹ بکس نہیں تھے اور کہیں جگہ پر سٹاف تک موجود نہیں تھا انتہا درجے کی بدنظمی رہی حلقہ این اے 250میں فوج کی نگرانی میں پولنگ ہوئی تو ایم کیو ایم نے اس کا بائیکاٹ کردیا اس حلقے سے تحریک انصاف کا امیدوار جیتا حالانکہ اس سے قبل کہیں الیکشن میں متحدہ کا امیدوار یہاں سے جیتا آرہا تھا یہاں سے قومی اور صوبائی اسمبلی دونوں کی نشستیں پی ٹی آئی کے امیدوار نے جیتی اس پر سلمان اکرم راجہ نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ یہ غلط ہے کہ الیکشن کمیشن کی ووٹنگ لسٹ مرتب کرتے وقت کسی سیاسی جماعت نے کردار ادا کیا ہو یا کہیں ریٹرننگ افسران کسی سیاسی جماعت سے ہوں ۔

جماعت اسلامی کے گواہ ہارون الرشید سے جرح کرتے ہوئے وکیل عبدالرحمان صدیقی نے پوچھا کہ کیا آپ فاٹا سے پہلے بھی ممبر رہ چکے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ہاں میں فاٹا سے ممبر اسمبلی رہ چکا ہوں اور اس مرتب بھی این اے 43 سے ممبر اسمبلی کیلئے امیدوا ر تھا انہوں نے بتایا کہ پورے ملک میں نگران حکومت کی نگرانی میں الیکشن کروائے جاتے ہیں جبکہ فاٹا میں گورنر کی نگرانی میں الیکشن کروائے گئے اور اس وقت کے گورنر انجینئر شوکت اللہ کے والد میرے مدمقابل امیدوار تھے اس وقت کا گورنر اپنے باپ کی کمپین کرتا رہا اس کے لئے ہم نے الیکشن کمیشن کو بارہا مطلع کیا لیکن کوئی جواب نہیں دیا گیا فاٹا میں گورنر کے ماتحت پولیٹیکل ایجنٹس کو ریٹرننگ آفیسر بنایا گیا اور پولنگ سٹیشن کی نگرانی امن لشکر کرتا رہا جو گورنر کا ذاتی سٹاف تھا الیکشن کے دن گورنر انجینئر شوکت اللہ سرکاری ہیلی کاپٹر میں پشاور سے باجوڑ آئے اور پورا دن وہاں رہے ۔