جوڈیشل کمیشن کا اجلاس،عمران خان کو بطورگواہ بلانے کا فیصلہ واپس،جماعت اسلامی ،ایم کیوایم،ق لیگ کے گواہ طلب، جوڈیشل کمیشن کی طرف سے رواں ہفتے تحقیقات مکمل کرکے سفارشات بھجوائے جانے کاامکان ہے ،الیکشن کمیشن 65فیصدحلقوں کے فارم نمبر15کاریکارڈمرتب کر سکا، کمیشن نے بدھ کوجماعت اسلامی کے پانچ ،ایم کیوایم کے دو، مسلم لیگ ق کی درخواست پرسات ریٹرننگ افسران کوجرح کے لیے طلب کر لیا،سماعت آج پھر ہو گی

بدھ 10 جون 2015 08:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔10 جون۔2015ء)ا 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والیجوڈیشل کمیشن کی طرف سے رواں ہفتے اپنی تحقیقات مکمل کرکے تین سوالات کے حوالے سے سفارشات بھجوائے جانے کاامکان ہے ،الیکشن کمیشن اب تک صرف 65فیصدحلقوں کے فارم نمبر15کاریکارڈمرتب کر سکاہے جبکہ دیگر حلقوں کے ریکارڈمکمل کرنے میں مزید وقت لگ سکتاہے۔

تحریک انصاف نے عمران خان کوبطورگواہ طلب کرنے کافیصلہ واپس لے لیا،جبکہ کمیشن نے آج بدھ کوجماعت اسلامی کے پانچ ،ایم کیوایم کے دوجبکہ مسلم لیگ ق کی درخواست پرسات ریٹرننگ افسران کوجرح کے لیے طلب کیاہے،کمیشن نے مسلم لیگ ق کی جانب سے 17ریٹرننگ افسران کوبلانے کی استدعا مستردکردی اورکہاہے کہ کمیشن کے پاس اتناوقت نہیں ہے کہ فضول معاملات پر ضائع کیاجاسکے ،جبکہ سابق صوبائی الیکشن کمشنرسیدطارق کوبھی کمیشن نے آج طلب کیاہے ،متحدہ دینی محاذ کے وکیل کی جانب سے سندھ صوبائی اسمبلی کے حلقہ 128 کے آر او کو بلانے کی درخواست مستردکرتے ہوئے کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس ناصرالملک نے کہاہے کہ کہ آپ کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے اس کو جوڈیشل کمیشن میں لانا مناسب نہیں اس لئے آپ کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جسٹس امیرہانی مسلم اورجسٹس اعجازافضل پر مشتمل تین رکنی انکوائری کمیشن نے منگل کے روزکارروائی شروع کی تو حفیظ پیرزادہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ عمران خان کو بطور گواہ پیش نہیں کرینگے۔ ڈاکٹر خالد رانجھا نے 17 آر اوز کو بلانے کی استدعا کی تھی جس پر عدالت نے کہا کہ اتنا وقت نہیں کہ آر اوز کو بلایا جائے۔

جوڈیشل کمیشن نے ق لیگ کے گواہان کی جرح کی گئی ق لیگ کے گواہ محمد شاکر سے جرح کرتے ہوئے خالد رانجھا نے پوچھا کہ کیا آر اوز نے نتائج مرتب کرتے وقت آپ کو بلایا تھا تو انہوں نے بتایا کہ نہیں مجھے کوئی نوٹس نہیں ملا اور رزلٹ مرتب کرتے وقت میرے پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا اور مجھے ریٹرننگ آفیسر کی عدالت میں نہ جانے دیا گیا۔ شاہد حامد نے محمد شاکر سے پوچھا کہ کیا آپ نے الیکشن ٹربیونل میں پٹیشن دائر کی تھی جس پر انہوں نے کہا کہ ہاں لیکن وہ خارج ہو گئی اس پر شاہد حامد نے پوچھا کہ کیا آپ اس کے خلاف سپریم کورٹ گئے تھے تو انہوں نے کہا کہ نہیں میں ہائیکورٹ گیا تھا۔

ڈاکٹر خالد رانجھا نے قومی اسمبلی کے حلقہ 134 میں ق لیگ کے امیدوار خرم منظور سے جرح کرتے ہوئے پوچھا کیا رزلٹ مرتب کرتے وقت آپ کو بلایا گیا تھا تو انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں بلایا گیا مجھے کہا گیا تھا کہ آپ کو آنے کی ضرورت نہیں آپ کو اطلاع دے دی جائے گی میں ریٹرننگ آفیسر کی عدالت گیا لیکن مجھے عدالت میں جانے سے روک دیا گیا۔ اس پر شاہد حامد نے پوچھا کہ کیا آپ نے پٹیشن دائر کی تھی تو انہوں نے کہا کہ ہاں دائر کی تھی لیکن اسے منظور نہیں کیا گیا تھا انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ نے نتائج کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ نہیں میں سپریم کورٹ نہیں گیا۔

ڈاکٹر رانجھا نے ق لیگ کے صوبائی امیدوار احمد یار سے پوچھا کہ کیا آپ کو ریٹرننگ آفیسر کی طرف سے کوئی نوٹس بھیجا گیا تھا تو انہوں نے کہا کہ نہیں مجھے نوٹس نہیں بھیجا گیا اور نہ ہی مجھے عدالت جانے دیا گیا یہاں تک کے ہمارے حلقے سے فارم 14 کی کاپیاں بھی پولنگ ایجنٹس کو نہیں دکھائی گئیں۔ شاہد حامد نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے پٹیشن دائر کی تھی تو اس پر انہوں نے کہا کہ میں نے پٹیشن دائر نہیں کی تھی۔

سردار طالب حسین سے جرح شروع کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد رانجھا نے پوچھا کہ آپ نے کس حلقے سے الیکشن لڑے تو انہوں نے بتایا کہ میں نے قومی اسمبلی کے حلقہ 142 سے الیکشن لڑا اور میں ہار گیا تھا۔ رزلٹ مرتب کرتے وقت نہ مجھے بلایا گیا اور نہ ہی میرے لئے کوئی نوٹس بھیجا گیا اور نہ ہی میرے پولنگ ایجنٹس کو اندر جانے دیا گیا۔ شاہد حامد نے ان سے پوچھا کہ آپ 20 ہزار ووٹ ہارے تھے تو انہوں نے بتایا کہ مجھے تاحال رزلٹ مہیا نہیں کئے گئے اس پر شاہد حامد نے پوچھا کہ کیا اپ نے الیکشن ٹریبونل میں پٹیشن کی تو انہوں نے بتایا کہ نہیں میں نے پٹیشن دائر نہیں کی۔

خالد پرویز سے جرح کرتے ہوئے شاہد حامد نے پوچھا کہ آپ کتنے ووٹوں سے ہارے تو انہوں نے بتایا کہ میں 1940 ووٹوں سے ہارا اور رزلٹ مرتب کرتے وقت مجھے نہیں بلایا گیا اور نہ ہی میرے کسی پولنگ ایجنٹ کو اندر جانے دیا گیا شاہد حامد نے پوچھا کہ کیا آپ نے الیکشن ٹربیونل میں پٹیشن دائر کی تھی تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے دائر کی تھی لیکن خارج کر دی گئی۔

انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ نے نتائج کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو خالد پرویز گل نے بتایا کہ نہیں میرے پاس اتنے پیسے نہیں صوبائی اسمبلی پنجاب حلقہ 102 کے امیدوار شفاعت حسین سے جرح کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد رانجھا نے پوچھا کہ آپ نے کہاں سے الیکشن لڑا اور نتیجہ کیا تھا تو شفاعت حسین نے بتایا کہ میں نے پی پی 102 سے الیکشن لڑا اور میں ہار گیا تھا میرا مقابلہ کسی امیدوار سے نہیں بلکہ ریٹرننگ آفیسر سے تھا مجھے 2911 ووٹوں سے ہرایا گیا۔

شاہد حامد نے شفاعت حسین سے پوچھا کہ آپ کہتے ہیں کہ آر اوز نے ہرایا تو آپ کی آر اوز سے کیا دشمنی تھی کہ انہوں نے آپ کو ہرایا اس پر شفاعت حسین نے بتایا کہ مجھے تین دن بعد رزلٹ دیئے گئے اور یہ رزلٹ ہمارے خلاف مرتب کئے گئے تھے اور رزلٹ مرتب کرتے وقت ہمیں اندر نہیں جانے دیا گیا شاہد حامد نے پوچھا کہ کیا آپ نے الیکشن ٹربیونل میں پٹیشن دائر کی تھی تو انہوں نے بتایا کہ ہاں ہم نے دائر کی تھی لیکن خارج کر دی گئی اس کے بعد ہم نے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر حکم امتناعی جاری کر دیا گیا۔

ڈاکٹر عظیم الدین نقوی سے خالد رانجھا نے پوچھا کہ آپ نے کہاں سے الیکشن لڑا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے قومی اسمبلی کے حلقہ 140 سے الیکشن لڑا اور مجھے ن لیگ کے امیدوار سے ہرایا گیا رزلٹ مرتب کرتے وقت ہمیں عدالت کے قریب بھی نہیں جانے دیا گیا ۔ شاہد حامد نے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ کو 19000 ووٹوں سے ہرایا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہاں یہ درست ہے اس پر شاہد حامد نے پوچھا کہ کیا آپ نے ٹربیونل میں پٹیشن دائر کی تھی تو ڈاکٹر عظیم الدین نقوی نے جواب دیا کہ نہیں میں نے پٹیشن دائر نہیں کروائی ڈاکٹر خالد رانجھا نے عدالت سے ان حلقوں کے آر اوز کو بلانے کی استدعا کی تو عدالت نے کہا کہ فہرست چیک کر کے ہمیں نام بتائے جائیں۔

اس کے بعد ایم کیو ایم کے وکیل حشمت حبیب نے پانچ گواہوں کے نام پیش کئے اور ان کو بلانے کی درخواست دی جس پر عدالت نے دو گواہوں کو طلب کرنے کا حکم دیا جن کے نام ایس ایم طارق قادری اور آفتاب احمد ہیں۔ ایم کیو ایم کے گواہان کو کل طلب کر لیا گیا۔ جماعت اسلامی کے وکیل نے گواہان کی فہرست عدالت میں پیش کی جس پر عدالت نے جماعت اسلامی کے پانچ گواہان کو کل (بدھ) کو عدالت طلب کر لیا۔

متحدہ دینی محاذ کے وکیل نے سندھ صوبائی اسمبلی کے حلقہ 128 کے آر او کو بلانے کی درخواست کی تو عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ ٹریبونل گئے تھے تو انہوں نے بتایا کہ ہاں وہاں سے کیس خارج ہو گیا اور اس وقت سپریم کورٹ میں ہمارا کیس چل رہا ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے اس کو جوڈیشل کمیشن میں لانا مناسب نہیں اس لئے آپ کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔