جوڈیشل کمیشن نے ق لیگ کے گواہ آج طلب کر لئے،انکوائری رواں ہفتے مکمل کرلیں گے،چیف جسٹس، عمران خان کوبطورگواہ بلانا ہے تو وجہ بھی بتاناہوگی ،جوڈیشل کمیشن ، مسلم لیگ ق کی جانب سے گواہوں کی طلبی کے لیے مزید وقت دینے کی درخواست مسترد،جماعت اسلامی بھی گواہوں کی فہرست پیش کرے ،جوڈیشل کمیشن، الیکشن کمیشن تمام حلقوں کے فارم نمبر15 پیش نہیں کرسکا، آج پیش کیے جانے کاامکان،الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری سے جرح مکمل ، سوسے زیادہ حلقوں میں ووٹوں کی شرح سوفیصدسے بھی زیادہ ہونے کی فافن کی رپورٹ غلط نکلی ،شیرافگن

منگل 9 جون 2015 08:19

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9جون۔2015ء) عام انتخابات 2013میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والیجوڈیشل کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس ناصرالملک نے کہاہے کہ ہم تحریک انصاف کاکیس مکمل کرنے جارہے ہیں رواں ہفتے تمام تر انکوائری مکمل کرلیں گے عمران خان کوبطورگواہ طلب کرنامقصود ہے توپھر اس کی وجہ بھی بتاناہوگی جبکہ کمیشن نے مسلم لیگ ق کی جانب سے گواہوں کی طلبی کے لیے مزید وقت دینے کی درخواست مستردکرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ وہ ہرصورت آج منگل کواپنے گواہ پیش کریں اورجماعت اسلامی بھی اپنے گواہوں کی فہرست پیش کرے ،جوڈیشل کمیشن کی واضح ہدایت کے باجود الیکشن کمیشن آف پاکستان تمام حلقوں کے فارم نمبر15کمیشن میں پیش نہیں کرسکاہے فارم 15 آج منگل کوپیش کیے جانے کاامکان ہے ،الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری ڈاکٹر شیر افگن سے جرح مکمل کرلی گئی اورانھوں نے جرح کے دوران کہاہے کہ فافن نے سوسے زیادہ حلقوں میں ووٹوں کی شرح سوفیصدسے بھی زیادہ ہونے کی جورپورٹ دی تھی وہ غلط نکلی کیونکہ جب ہم نے فارم نمبر14منگوایاتویہ شرح 45سے اڑتالیس فیصدکے درمیان تھی 6لاکھ 50ہزار افراد کو19ہزار سیشنز میں تربیت دی گئی انھوں نے یہ انکشاف چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اورجسٹس اعجازافضل پرمشتمل تین رکنی جوڈیشل کمیشن میں کیا پیر کے روز جوڈیشل کمیشن کی کارروائی شروع ہوئی تو سلمان اکرم راجہ نے ڈاکٹر شیر افگن سے جرح کرتے ہوئے پوچھا کہ فافن کے ہیڈ کے مطابق بہت سے پولنگ سٹیشن ایسے تھے جہاں 100 فیصد سے زیادہ پولنگ ہوئی تھی جس پر ڈاکٹر شیر افگن نے کہا کہ فافن کے مطابق 49 پولنگ سٹیشن ایسے تھے لیکن اس پر الیکشن کمیشن نے تحقیق کی اور تمام پولنگ سٹیشنز سے فارم 14 منگوائے گئے ۔

(جاری ہے)

جن کے مطابق فافن کے تمام دعوے غلط ثابت ہوئے ان پولنگ سٹیشنز تک 45 فیصد سے 48 فیصد تک پولنگ ہوئی تھی ۔ اس کے بعد فافن کے ساتھ میٹنگ کر کے ہم نے ان کو تمام رپورٹ بتائی تھی ۔ اس کے بعد سلمان اکرم راجہ نے ڈاکٹر شیر افگن کو رپورٹ دکھاتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ رپورٹ آپ نے مرتب کی ہے اور آپ کی معلومات کا ماخذ کیا ہے اس پر ڈاکٹر شیر افگن نے بتایا کہ ہاں یہ رپورٹ میری تیار کردہ ہے اور یہ رپورٹ الیکشن کمیشن کو موصول ہونے والی تمام رپورٹس کو سامنے رکھ کر مرتب کی ہیں ۔

ن لیگ کے وکیل شاہد حامد نے جرح شروع کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی توجہ کچھ لیٹرز پر دلانا چاہتا ہوں جس پر حفیظ پیزادہ نے عدالت سے کہا کہ یہ ایسا نہیں کر سکتے ۔ عدالت نے کہا کہ انہیں جرح کرنے دیں آپ کو بھی موقع دیا جائے گا ۔ شاہد حامد نے ڈاکٹر شیر افگن سے پوچھا کہ کیا الیکشن ٹریبونل میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے متنازعہ حلقوں کی پٹیشن التوا کا شکار ہیں جس پر ڈاکٹر شیر افگن نے کہا کہ ہاں ۔

شاہد حامد نے ایک لسٹ دکھاتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ کو یہ لسٹ نادرا کی طرف سے دی گئی تھی جس پر انہوں نے کہا کہ ہاں یہ لسٹ نادرا کی طرف سے مہیا کی گئی تھی اور تمام پولنگ سکیم اس لسٹ کے مطابق بنائی تھی ۔ ایک اور لسٹ دکھاتے ہوئے پوچھا کہ کیا پولنگ سکیم میں پولنگ سٹیشن اور پولنگ بوتھ کی تفصیلات موجود ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ہاں اس میں تمام صوبوں سمیت فاٹا اور وفاق کی تفصیلات بھی موجود ہیں ۔

اس پر شاہد حامد نے پوچھا کہ جب آپ نے یہ ریسرچ رپورٹ ویب سائیٹ پر اپ لوڈ کی تو آپ کو اس کا فیڈ بیک ملا تو انہوں نے کہاکہ اس کا کوئی فیڈ بیک نہیں ملا ۔ یہ رپورٹ کب ویب سائیٹ پر اپ لوڈ کی گئی تھی تو ڈاکٹر شیر افگن نے بتایا کہ یہ اگست 2014 میں اپ لوڈ کی گئی تھی ۔ شاہد حامد نے ڈاکٹر شیر افگن سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے آر اوز اور تمام پولنگ عملے کے لئے کسی ٹریننگ کا بندوبست کیا تھا تو کہا گیا کہ ہاں ہم نے عمدہ ٹریننگ کا بندوست کیا تھا ۔

6 لاکھ 50 ہزار افراد کو یہ ٹریننگ دی گئی اور اس کے لئے 19 ہزار سیشنز کا انعقاد کیا گیا ۔ 45 لاکھ ہدایتی کتابیں سٹاف کو مہیا کی گئی تھیں جن پر انتخابات سے متعلق ہر قسم کی ہدایت تھی ۔ شاہد حامد نے پوچھا کہ کیا آپ کو ان انتخابات کے غیر سرکاری نتائج رات 12 تک موصول ہوئے ۔تو اس پر شیر افگن نے بتایا کہ نہیں ہمیں رات ساڑھے بارہ بجے کے بعد لوئر دھیر سے پہلا غیر سرکاری نتیجہ موصول ہوا ۔

شاہد حامد نے پوچھا کہ نادرا کی طرف سے جاری کی گئی ہیلپ لائن 8300 پر کتنے افراد نے اپنے ووٹ کی تصدیق کروائی ۔ اس پر بتایا گیا کہ نادرا رپورٹ کے مطابق تقریباً 55 ملین افراد نے اس سروس کے ذریعے تصدیق کروائی ۔ پیرزادہ نے جرح شروع کرتے ہوئے ڈاکٹر شیر افگن سے پوچھا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ میں کوئی ملازمت کی ہے تو شیر افگن نے بتایا کہ ہاں میں نے 1994 سے 2004 تک سپریم کورٹ میں اپنی خدمات سرانجام دیتا رہا ہوں میں نے یہ خدمات بطور پرائیویٹ سیکرٹری برائے ججز سرانجام دی ہیں اس کے بعد میں سیکرٹری چیف الیکشن کمیشنر تعینات ہوا اور اس وقت الیکشن کمیشن کا سینئر افسر ہوں ۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ انتخابات 2013 میں آپ کی کیا ذمہ داریاں تھیں تو شیر افگن نے کہا کہ بطور ڈی جی الیکشن میری ذمہ داریاں الیکشن کے لئے کورٹ آف کنڈکٹ کی تیاری ، انتخابی نشانات کی الاٹ منٹ ، آر اوز کی تعیناتی اور حلقہ بندیاں کروانا میری ذمہ داری میں شامل تھا اس پر پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس ان اختیارات کے حوالے سے کوئی تحریر ہے تو انہوں نے بتایا کہ نہیں ۔

جب میں جوائنٹ سیکرٹری بنا تو میری ذمہ داریاں خود بخود بڑھ گئیں کیونکہ یہ اس پوسٹ کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے ۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ صوبائی الیکشن کمشنر کو آپ احکامات جاری کرتے تھے تو انہوں نے بتایا کہ نہیں ان کو صرف چیف الیکشن کمیشن احکامات جاری کرنے کا مجاز ہے اور وہی تمام احکامات جاری کرتے تھے ۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ ستمبر 2012 میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لئے بلائے گئے اجلاس کے بعد بیلٹ پیپرز کے حوالے سے کتنے اجلاس بلائے گئے ۔

تو اس پر ڈاکٹر شیر افگن نے بتایا کہ اس کا مجھے علم نہیں کیونکہ یہ میرے دائرکار میں نہیں ہے ۔پیرزادہ نے ایک لیٹر دکھایا اور پو چھا کہ یہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لئے جاری کردہ لیٹر ہے اس پر محمد سعید نامی شخص کے دستخط ہیں تو بتایا کہ یہ ڈائریکٹر جنرل بجٹ کے زیر انتظام کام کرتے ہیں اور وحید صاحب بطور ڈپٹی الیکشن کمشنر صوبائی الیکشن کمیشن پنجاب میں کام کرتے ہیں ۔

پیرزادہ نے ڈاکٹر شیر افگن کو ایک لیٹر دکھایا اور پوچھا کہ کیا یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے جاری ہوا ہے تو ڈاکٹر شیر افگن نے بتایا کہ ہاں یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے جاری ہوا ہے لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ کس اجلاس کے بعد یہ لیٹر جاری کیا گیا ۔پیرزادہ نے پوچھا کہ مختلف حلقوں میں زیادہ بیلٹ پیپر جاری ہوئے یہ کس کے احکامات کے تحت کیا گیا تو ڈاکٹر شیر افگن نے کہا کہ آر اوز کی طرف سے الیکشن کمیشن کو موصول شدہ تعداد کے مطابق بیلٹ پیپر کی چھپائی ہوئی ۔

پیرزادہ نے استفسار کیا کہ امیدواروں کی حتمی فہرست کب جاری کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ امیدواران کی چھان بین کے بعد اٹھارہ تاریخ کو فائنل کئے گئے اور انیس اپریل کو تاریخ کو حتمی فہرست جاری کی گئی ۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ الیکشن کے دن یا اس کے ایک دن بعد آر اوز کی طرف سے الیکشن کمیشن کو سب سے پہلے کیا موصول ہوا تو ڈاکٹر شیر افگن نے بتایا کہ الیکشن کے ایک دن بعد آر اوز کی طرف سے فارم سولہ اور فارم سترہ وصول ہوئے اس کے علاوہ غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج بھی موصول ہوتے رہے پیرزادہ نے پوچھا کہ الیکشن پلان کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں کس اجلاس میں اسے طے کیا گیا تو ڈاکٹر شیر افگن نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں ۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا بیلٹ پیپرز کی تعداد کا آپ کو علم ہے اور ان سے متعلق احکامات آپ کو کس نے جاری کئے تھے تو ڈاکٹر شیر افگن نے بتایا کہ بیلٹ پیپر کی تعداد براہ راست صوبائی الیکشن کمیشن پرنٹنگ پریس کو پہنچاتا تھا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اطلاع کردی جاتی تھی پیرزادہ نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بیلٹ پیپر کی موصول شدہ تعداد کی تصدیق کرتا تھا کہ تو ڈاکٹر شیر افگن نے بتایا کہ میرے علم میں نہیں کہ ایسا ہوا ہو کیونکہ یہ میری ذمہ داریوں میں شامل نہیں تھا ۔

ڈاکٹر شیر افگن نے بتایا کہ بیلٹ پیپرز کی ترسیل اور دیگر لیٹرز کے پہنچ جانے کا علم مجھے الیکشن کمیشن سے موصول شدہ رپورٹس پر ہوتا تھا الیکشن کمیشن کو بتانے سے پہلے مجھے کوئی علم نہیں ہوتا تھا پیرزادہ نے پوچھا کہ پولنگ کے نتائج کے اعتبار سے کیا آپ کو کوئی فیڈ بیک آتا تھا یا الیکشن کمیشن میں کوئی ایسا ادارہ ہے جہاں فیڈ بیک آیا ہو تو ڈاکٹر شیر افگن نے بتایا کہ نہیں الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ نے ایک رزلٹ رسیونگ سنٹر بنایا گیا تھا جہاں آر اوز کی طرف سے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج موصول ہوتے تھے ۔کمیشن نے مزید کارروائی آج منگل تک کے لیے ملتوی کردی