آمروں کے لگائے گئے مارشل لاؤں کی کوئی وضاحت قابل قبول نہیں،سپریم کورٹ، اگر دہشت گردی اگلے 200 سال تک ختم نہ ہوئی تو کیا فوجی عدالتیں بھی اتنے سال تک قائم رہیں گی ۔ فوجی عدالتوں کے قیام کا کیا جواز ہے،جسٹس شیخ عظمت سعید،پہلے فوجی عدالتیں انتظامی اختیارات کے تحت تھی ۔ 21 ویں آئینی ترمیم سے تحفظ دیا گیا،جسٹس آصف سعید کھوسہ، نظریہ پاکستان تبدیل نہیں ہو گاملک کو لا دین نہیں بنایا جا سکتا ، حا مد خا ن ، رواں ہفتے اس مقدمے کو مکمل کرنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس ناصر الملک کے فوجی عدالتوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران ریما رکس

جمعہ 5 جون 2015 08:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5 جون۔2015ء) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر دہشت گردی اگلے 200 سال تک ختم نہ ہوئی تو کیا یہ فوجی عدالتیں 200 سال تک قائم رہیں گی ۔ فوجی عدالتوں کے قیام کا کیا جواز ہے ۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا ہے کہ فوجی آمروں کے لگائے گئے مارشل لاؤں کی کوئی وضاحت قابل قبول نہیں ہے ۔

چاہے وہ مارشل لاء مکمل طور پر لگایا گیا ہو یا ادھورا ۔ رواں ماہ مقدمے کی سماعت مکمل کریں گے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ اچھا یا برا مارشل لاء نہیں ہوتا ، مارشل لاء تو مارشل لاء ہے ۔ پہلے مارشل لاؤں میں عدلیہ کو شامل نہیں کیا گیا مگر 21 ویں ترمیم میں عدلیہ کو ساتھ شامل کر کے خالی جگہ ( گیپ ) پر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

اگر شروع دن سے ہی فوجی عدالتیں قائم کرنے کی آئین میں گنجائش پیدا کر دی جاتی تو تب بھی عدلیہ نے اپنا کردار ادا کرنا تھا ۔

پہلے فوجی عدالتیں انتظامی اختیارات کے تحت تھی ۔ 21 ویں آئینی ترمیم سے تحفظ دیا گیا ہے ۔ انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دیئے ہیں جبکہ عدالت نے کہا ہے کہ 16 جون کو مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز ہو گا ۔ 17 جون کو دیگر وکلاء دلائل مکمل کرنے کی کوشش کریں یہ ہدایت چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17 رکنی فل کورٹ بینچ نے جاری کی ہے ۔ اس دوران لاہور ہائی کورٹ بار ، لاہور بار کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل جاری رکھے اور کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کا کسی طور کوئی جواز نہیں ہے ۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 21 ویں ترمیم سے قبل فوجی عدالتیں انتظامی اختیارات کے تحت بنائی گئیں ۔ اس طرح فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کے ذریعے بنائی گئیں ۔ فوجی عدالتوں کو قانونی تحفظ دینے کے لئے 175 اے میں ترمیم کی گئی ۔ حامد خان نے کہا کہ 1953 میں عبدالستار نیازی کو فوجی عدالتوں نے سزائے موت سنائی ۔ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا ، عدلیہ نے فوجی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ مارشل لاء جنرل اعظم نے خود لگایا ۔ حامد خان نے کہا کہ سول حکومت نے انتظامیہ کے ذریعے فوج سے مدد کی درخواست کی تھی ۔ چیف جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ مارشل لاء بھی مشاورت سے لگایا گیا ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ 1953 میں فوجی عدالتیں نظریہ ضرورت کے تحت بنائی گئیں ۔ 1953 میں ایک غلطی کی درستگی کے لئے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں اگر دہشت گردی 200 سال جاری رہے تو کیا فوجی عدالتیں بھی اتنے عرصے تک قائم کرتی رہیں گی اور اس کا کیا جواز ہے ؟ حامد خان نے دنیا بھر میں مارشل لاء لگانے اور اس بارے تاریخ بیان کی ۔

بعض مارشل لاؤں کو تحفظ دینے کی بھی کوشش کی گئی ۔ بھارتی سپریم کورٹ فیصلے کا بھی حوالہ دیا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مارشل لاء اچھا ہے یا برا ۔ مارشل لاء تو مارشل لاء ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مارشل لاء کی کوئی ( وضاحت ) نہیں ہے چاہے وہ مکمل ہو یا ادھورا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پہلے مارشل لاؤں میں عدلیہ کو شامل نہیں رکھا گیا مگر 21 ویں ترمیم میں عدلیہ کو ساتھ رکھ کر گیپ پر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

حامد خان نے کہا کہ کوشش کی گئی کہ موجودہ آئین کے تحت مارشل لاء نہ لگایا جا سکے ۔ مارشل لاء کی وضاحت نظریہ ضرورت کے تحت بھی نہیں کی جا سکتی ۔ ہر مقدمے کے اپنے حالات ہوتے ہیں ۔ انہوں نے جسٹس کرم الہیٰ چوہان کے فیصلے بھی پڑھ کر سنایا ۔ جس میں کہا گیا کہ تمام تر معاملات کا فیصلے آئین و قانون کے مطابق ہو گا اور کوئی بھی معاملہ عدالت کے دائر کار سے باہر نہیں ہو گا ۔

سول کورٹس کی طرح سے سپیشل ٹریبونلز قائم کئے جا سکتے ہیں ۔ صرف آرٹیکل 245 کے تحت ہی سول اداروں کی مدد کے لئے فوج کو وفاقی حکومت طلب کر سکتی ہے اور جہاں مسئلہ ہے وہیں پر فوج کام کرے گی ۔ ایکٹ آف پارلیمنٹ فوج کو عدالتوں کا کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ انہیں اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کی اجازت ہے ۔ فوج کو عدالتوں کے اختیار نہیں دیئے جا سکتے کیونکہ اس سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی ۔

آئین کے بنیادی خدوخال میں آزاد عدلیہ شامل ہے ۔ قانون ساز اسمبلی نے قانون بنانے میں حکمت سے کام لیا ہے ۔ اداروں کو ان کے دائرہ کار کے مطابق اختیارات دیئے گئے ہیں۔ آرٹیکل 5 کے تحت شہریوں کا اپنے ملک کا فرمانبردار ہونا ضروری ہے ۔ تمام تر قوانین قرآن و سنت کی روشنی میں بنائے جائیں گے ۔ نظریہ پاکستان کا نظریہ تبدیل نہیں ہو گا اور ملک کو لا دین نہیں بنایا جا سکتا ۔

ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس وقت کے اٹارنی جنرل سے پوچھا تھا کہ کیا پاکستان بھارت کے ساتھ کنفڈریشن بنا سکتا ہے اور اس حوالے سے اس کے کیا اختیارات ہیں ؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ کو اس کا تمام تر اختیار ہے مگر وہ اس سلسلے میں اپنا اختیار استعمال نہیں کرے گی کیونکہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان جو نظریاتی اختلاف ہے اور جس کی وجہ سے مسلمانوں نے علیحدہ ملک حاصل کیا تھا وہ ختم ہو جائے گا اور یہ نظریہ سے متصادم ہو گا ۔

اعلی عدلیہ کے اختیارات کو ترمیم کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ بعض بنیادی خدوخال کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔ اعلی عدلیہ کو تمام تر غیر آئینی اقدامات کو ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔ آئین میں سپریم کورٹ کا الگ سے ذکر ہے ۔ جس سے اس کے اختیارات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے آرٹیکل 184(3) کے تحت تمام تر اختیارات موجود ہیں جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ نے جو فیصلہ پڑھا ہے اس کو سپریم کورٹ نے اوور رول کر دیا تھا ۔

پاکستان لائرز فورم کا فیصلہ دیکھا جا سکتا ہے جتنی بھی باتیں ہوتی رہی ہیں اور اس وقت کے آئینی پرویژنز کے تحت ہی ہوتی رہی ہیں اگر آئین میں یہ گنجائش ہوتی تو کیا وہ فوجی عدالتیں قائم کی جا سکتی تھیں اور اپنے کام کر سکتی تھیں ۔ حامد خان نے کہا کہ اس پہلو کو بھی اس کیس میں زیر بحث لایا گیا ہے ۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ عدالت نے آئینی ترمیم کوکالعدم قرار نہیں دیا بلکہ اس کے لئے بھی ایک راستہ نکالا تھا ۔

حامد خان نے کہا کہ فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 16 جون جو دوبارہ اس کی سماعت شروع کریں گے آپ کب تک دلائل مکمل کریں گے ۔ حامد خان نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر بھی دلائل دیں گی ۔ وہ ایک روز میں دلائل مکمل کر لیں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی اور نے دلائل دینا ہیں تو وہ 17 جون کو دے سکتا ہے ہم رواں ہفتے اس مقدمے کو مکمل کرنا چاہتے ہیں ۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم تو قانونی وضاحت دیکھنی ہے اگر اس معاملے کی شروع دن سے اجازت ہوتی تو کیا فوجی عدالتیں قائم ہو سکتی تھی اور کام کر سکتی تھیں کیا عدالت یہ کہہسکتی تھی کہ یہ آئین کے خلاف ہے ۔