سپریم کورٹ، 18 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست گزاروں کے دلائل مکمل،فوجی عدالتوں کے خلاف دلائل آج شروع ہو ں گے ،ملکی سلامتی کے نام پر عدلیہ کا اختیار استعمال کرنا نظریہ ضرورت ہے،سپریم کورٹ ، اگر ہم پر ریاست کے تحفظ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو کیا پارلیمنٹ کے اختیار کا تحفظ ہماری ذمہ دار ی نہیں ،جسٹس آصف سعید کھوسہ ،ہم آئین ترامیم کو کالعدم قرار نہیں دے سکتے ۔ کیا دوسرے لفظوں میں اس ریات میں نظریہ ضرورت زندہ ہے، جسٹس ثاقب نثار ،ملک میں کرائے گئے ریفرنڈم مشکوک ہیں ۔ کور کمانڈر نے بھٹو سے کہا کہ حالات خراب ہیں آپ فوج کے لئے قابل قبول ہیں مگر آپ کی پارٹی قبول نہیں ہے،حفیظ پیرزادہ کے دلائل

جمعرات 4 جون 2015 08:44

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4 جون۔2015ء) سپریم کورٹ میں 18 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست گزاروں کے دلائل مکمل کر لئے گئے ہیں ۔ فوجی عدالتوں کے خلاف دلائل آج جمعرات کو 11 بجے جاری رہیں گے ۔ 2 ججز کی رخصت کی وجہ سے مقدمے کی مزید سماعت کا آغاز 16 جون سے کیا جائے گا ۔ دوران سماعت جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں کے خلاف عدلیہ کا بالکل اختیار نہ ہونا خطرناک ہو گا ۔

ملکی سلامتی کے نام پر عدلیہ کا اختیار استعمال کرنا نظریہ ضرورت ہے ۔ آئین کا دفاع سپریم کورٹ اس صورت میں کرنے میں بااختیار ہے جب اس پر حملہ کیا جائے گا ۔ آئین کے تحفظ کے لئے ہم کس حد تک جا سکتے ہیں اس بارے معاملات واضح نہیں ہیں ۔ اگر ہم پر ریاست کے تحفظ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو کیا پارلیمنٹ کے اختیار کا تحفظ ہماری ذمہ دار نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

بھارت نے بھی حال ہی میں ہماری طرز پر ججز کی تقرری کا جوڈیشل کمیشن بنانے کی ترمیم کی ہے جو چیلنج کی گئی ہے ۔ آئین عوام کا بنایا ہوا ہے اوراب ہم ان سے کہیں کہ آپ نے آئین بناتے ہوئے بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ آئین نے اختیارات میں توازن رکھا ہے ہم مکمل اختیارات رکھنے کے باوجود کسی کو جوابدہ ہیں ۔ اگر ریاستی آئین کو کوئی خطرہ ہے یا ریاست خطرے میں ہے تو کیا عدالت اس خطرے کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے آئین ترامیم کالعدم یا اس کی توثیق کر سکتی ہے ۔

ہم آئین ترامیم کو کالعدم قرار نہیں دے سکتے ۔ کیا دوسرے لفظوں میں اس ریات میں نظریہ ضرورت زندہ ہے ۔ جبکہ حفیظ پیرزادہ نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو اختیارات کے حوالے سے شتر بے مہار نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے اور آئین کے مطابق اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہے جبکہ حامد خان نے فوجی عدالتوں کے خلاف دلائل میں کہا ہے کہ ملک میں فوجی عدالتیں بنانا کوئی نئی بات نہیں ہے مگر سپریم کورٹ ان کو پہلے بھی غیر آئینی و غیر قانونی قرار دے چکی ہے یہ آرٹیکل 2 اے ، 8 ،25 ، 19 ، 175 ، 10 اے سمیت دیگر آرٹیکلز سے متصادم ہے ۔

انہوں نے یہ دلائل چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17 رکنی فل کورٹ بینچ کے روبرو دیئے ہیں ۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے بدھ کے روز دلائل کا آغاز کیا ۔ اور کہا کہ حامد خان دلائل دیں گے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ آپ کے دلائل کے بعد ہی دلائل کا آغاز کریں گے ۔ پیرزادہ نے کہا کہ انہوں نے آئین کی تاریخ بیان کی ہے ۔ سپریم کورٹ کی لائبریری میں ایک کتاب موجود ہے جس میں اسمبلی کی کارروائی بارے تذکرہ کیا گیا ہے ۔

اور اس میں واقعات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے ۔ قائد اعظم کے ذہن میں پاکستان کا آئین کیا تھا ؟ اور 1949 میں قرار داد مقاصد آئی ۔ رضا ربانی نے کہا تھا کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے اگر آپ یہ کہیں کہ یہ 19 ویں ترمیم سے ختم ہو چکا ہے تو یہ آپ دیکھ سکتے ہیں آپ پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم کے خلاف نہیں جا سکتے لیکن وہ اس بات کو نہیں مانتے ۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ( آپ ہماری معاونت کریں کہ کس طرح کے معاملات ہیں ہم مداخلت کر سکتے ہیں ۔

ہمیں بالکل ہی اختیار نہیں اگر ہے تو کتنا ۔ اگر بالکل اختیار نہیں ہے تو یہ خطرناک بات ہے ۔ پیرزادہ نے کہاکہ ہمارے ملک میں کبھی شفاف اور منصفانہ انتخابات نہیں ہو سکے ۔ (یہی ہماری روایت اور تاریخ ہے جب بھی اس ملک کو سلامتی خطرات لاحق ہوئے عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑی ۔ جسٹس آصف نے کہا کہ کیا یہ نظریہ ضرورت ہے اس پر حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ نہں یہ آئینی اختیار ہے جو آپ نے استعمال کیا ۔

جسٹس ثاقب نے کہا کہ یہ کوئی دوسری فورس بھی استعمال کر سکتی ہے پیرزادہ نے کہا کہ آمروں کے اقدامات کو کسی نے بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا ۔ آپ نے آئین کے دفاع کا حلف اٹھایا ہوا ہے اگر سٹیٹ کو خطرات لاحق ہوتے ہیں تو عدلیہ اس میں مداخلت کر سکتی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ یہی ہمارا اختیار ہے یا کچھ اور بھی ہے ۔ پیرزادہ نے کہا کہ آپ براہ راست حکومت فارغ نہیں کر سکتے (مگر آپ کو دیگر کئی اختیارات حاصل ہیں ۔

اس ملک میں کرائے گئے ریفرنڈم مشکوک ہیں ۔ کور کمانڈر نے بھٹو سے کہا کہ حالات خراب ہیں آپ فوج کے لئے قابل قبول ہیں مگر آپ کی پارٹی قبول نہیں ہے ۔ 16 مئی 1977 کو ہمیں اور مولوی محمود الحسن کو جیل میں جانا پڑا ۔ جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ کیا عدالت کیس بھی معاملے پر براہ راست ریفرنڈم کرا سکتی ہے یا نہیں) پیرزادہ نے کہا کہ عدلیہ فیصلوں میں تو اس کی اجازت دی گئی ہے مگر آپ کو ایڈوائزری اختیار حاصل ہے ۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ (ہم آئینی ترمیم کو کالعدم نہیں قرار دے سکتے مگر آپ کے مطابق حالات کے مطابق فیصلے ہو سکتا ہے ۔ )۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ ایڈوائزری اختیار استعمال نہیں کر سکتے ۔ پیرزاد ہ نے کہاکہ اخلاقی طور پر یہ اختیار حاصل ہے۔( چیف جسٹس نے کہا کہ جب ریفرنس آئے گا تو تب ہی ایڈوائزری اختیار استعمال ہو سکتا ہے ۔ کیا اس سے ہٹ کر بھی رائے دے سکتی ہے ۔

) ۔ پیرزادہ نے کہا کہ جی ہاں ایسا ہو سکتا ہے ۔ ایڈوائزری اختیار ہے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ آرٹیکل 186 آپ کے پاس موجود ہے ۔( اگر اپ ملک کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے تو یہ آپ کی آئینی ناکامی ہے ۔ جسٹس میں ثاقب نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ریاست کو بچانا نظریہ ضرورت ہے ۔ ) پیرزادہ نے کہ اکہ یہ ذمہ داری صرف عدلیہ نہیں شہریوں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کا تحفظ کریں ۔

(چیف جسٹس نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں جو آڑدر جاری کیا گیا تھسا اس کے حوالے سے عدالت نے اپنا ایڈوائزری اختیار ازخود استعمال کیا تھا )۔ پیرزادہ نے کہا کہ آپ نے کراچی کے حالات پر ویک اپ کال دی تھی یہ آپ کا عدالتی اختیار ہے ۔ (سابق چیف جسٹس محمود الرحمان نے کہا کہ عدالت کو ناقابل اصلاح اور فیصلے کے لئے مداخلت کا اختیار حاصل ہے ۔ جسٹس آصف نے کہا کہ آرٹیکل 199 اور 184 کے اختیار مساوی ہیں کیا ۔

۔ ایسی کوئی آئین پرویژن موجود ہے کہ جس کے تحت غیر آئینی اقدام کے خلاف کارروائی کی جا سکے ۔سوائے آرٹیکل 199 کے ۔ حالانکہ ہمارے پاس اس طرح کی کوئی آئینی پرویژن موجود نہیں ہے ۔) کیا ہم کسی معامیل کو غیر آئینی قرار دے سکتے ہیں کیا ہم آئین کا دفاع کر سکتے ہیں ۔(آئین کے دفاع کو کس طرح سے کر سکتے ہیں اگر کوئی حملہ کرے گا تو تب ہی ہم اس کا دفاع کریں گے )۔

اگر کوئی نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے یہ اختیار ہمارے پاس مخصوص ہے اگر کوئی تبدیلی لانا چاہتا ہے تو ہم اس کو روکیں گے ۔ ( آئین کو محفوظ کرنے کے لئے ہم کس حد تک جا سکتے ہیں ۔ پانچ سال قبل آپ نے اس کا جواب کچھ اور دیا تھا ) ۔ پیرزادہ نے کہا کہ آپ نے حلف میں کہہ رکھا ہے کہ آپ آئین کا دفاع اور اس کو محفوظ رکھیں گے ۔ جسٹس آصف نے کہا کہ( اگر ایسی بات ہے تو پھر ہمیں اس ملک کے ہر اہم ستون کو محفوظ رکھنا ہو گا ) یہ بھی ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم آئینی ترمیم کے پارلیمنٹ کے اختیار کا بھی تحفظ کریں ۔

پیزادہ نے کہا کہ محمود خان اچکزئی کیس میں کہا تھا کہ بنیادی آئینی ڈھانچے کے خلاف کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی مگر بعد کے فیصلے میں کچھ اور کر دیا گیا تھا ۔ امریکی معاشرہ اب نیا نہیں رہا اب انہیں سیکیورٹی کے معاملات کے لئے کئی اقدامات کرنا پڑے ہیں ۔ جسٹس ( میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ریاست کو لاحق خطرہ کیا آئینی ترمیم کو ختم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے ) کیا اس نظریئے کے تحت آئینی ترمیم کی توثیق کی جا سکتی ہے ۔

( جسٹس آصف نے کہا کہ ہمیں کہا گیا کہ آپ کا کوئی اختیار نہیں اور کہا کہ آپ عدلیہ کی آزادی کی وجہ آئینی ترمیم ختم نہیں کر سکتے ) ۔ پیرزادہ نے کہا کہ یہ آئینی ذمہ داری آپ کو آئین نے دی ہے ۔ آپ کو استمعال کرنا ہے ۔( جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگر ریاست کو خطرہ ہے کیا اس خطرے کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے آئینی ترمیم ہو سکتی ہے یا اس خطرے کے پیش نظر ترمیم کالعدم قرار دی جا سکتی ہے۔

) پیرزادہ نے قرار داد مقاصد پڑھ کر سنائی کیا ریاست غیر منتخب نمائندوں کے ذریعے آئین سازی کر سکتی ہے ۔ کیا اس مکل پر غیر منتخب افراد کی حکومت آ سکتی ہے ۔ عوام کے منتخب نمائندے ہی حکومت کر سکتے ہیں اگر آپ اس کے خلاف جائیں گے تو یہ بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہو گی ۔ (جمہوریت مساوی حقوق ، سماجی انصاف اور تمام تر حقوق کا تحفظ کرنے کا نام ہے ۔

ملسمانوں نے قرآن و سنت کے مطابق جبکہ اقلیتوں نے اپنے مذہب کے مطابق ہی عبادت اور دیگر فرائض سرانکام دینا ہے ۔ )۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہی آپ نے اقلیتوں کا تحفظ کرنا ہے ۔ بنیادی حقوق کا تحفظ بھی آپ کی ذمہ داری ہے ۔ آرٹیکل 8 میں ہر بات واضح ہے ۔ ( جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وکلاء محاذ کیس میں قانون میں ترمیم آئین میں ترمیم سے مختلف ہے اور یہ پہلو پہلی بار 1969 میں اختیار کیا گیا ۔

اس وجہ سے بھارتی آئین میں ترمیم کی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ قانون میں ترمیم کو آئین میں ترمیم میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔ پیرزادہ نے کہا کہ میں اس سے اختلاف کرتا ہوں ۔ آرٹیکل 8 میں دیئے گئے حقوق یہ کہتے ہیں کہ دونوں ترامیم میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ عام قانون بھی اکثریتی رائے ہے یہ بھی قانون سازی ہی ہے ۔ اس لئے ان میں کیا فرق ہو سکتا ہے ۔

بنیادی آئینی ڈھانچے کی تشریح کرتے ہوئے کہوں گا کہ یہ بنیادی فیچر ہے ہمارے پاس بنیادی ڈھانچہ موجود ہے ۔ بھارت ایک مختلف ملک ہے اس کی آبادی زیادہ ہے ان کے اپنے معاملات ہیں ہمارے اپنے مسائل ہیں ۔ (جسٹس آصف نے کہا کہ بھارت نے بھی حال ہی میں ججز کے تقرر کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لئے ایک ترمیم کی ہے ۔ وہاں بھی یہ استعمال ہو گیا ہے اور اس کو چیلنج بھی کر دیا گیا ہے ۔

حکومت آئینی بنیادی ڈھانچہ کے ازسر نو تشریح کے لئے سامنے آئی ہے ۔ ) پیرزادہ نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی رپورٹ جو لیاقت علی خان کے دور میں دی گئی تھی جس کو بنگالی اور پنجاب دونوں نے بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔ آئین میں اصولوں کی بنیاد پر قائم ہو گا یہ رپورٹ اس بارے تھی ۔ 3 کمیٹیاں قائم کی گئیں جنہوں نے اس پر رائے دینا تھی ۔ اختیارات کی تقسیم اور عدلیہ کی آزادی بارے بات کی گئی ۔

لیاقت علی خان نے کہا کہ آئین ساز اسمبلی آئین بنانے میں تاخیر کر رہی ہے کئی کمیٹیاں بنائی گئیں ۔ تاخیر کی خیر ہے مگر آئین صحیح ہونا چاہئے ۔ا سی وجہ سے مشرقی پاکستان کا سانحہ ہوا ۔ حالانکہ دونوں اطراف برابر اختیارات ہونا چاہئے تھے ۔ بنگالی رہنماؤں نے اس پر بیانات دیئے اور کہا کہ صوبائی حکومت کے اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جواب میں کہا گیا کہ آپ کی اکثریت کو اقلیت میں نہیں بدلا جائے گا اور آبادی کے مطابق مرکزی حکومت کے قیام پر ور دیا گیا تھا اور اس حوالے سے قرار داد لاہور لائی گئی ۔

آئین کے بنیادی خدوخال کا جائزہ لیتے ہوئے ان چیزوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ محب وطن قوتیں بھی بھی آپ کے اختیارات کی قائل ہیں اور یہ چاہتی ہیں کہ یہ اختیار آپ کے پاس ہے اور رہے گا ۔ آپ ابتدائی دنوں سے کہہ چکے ہیں کہ عدلیہ آئین کو بچانے کے لئے ہے اور یہ اس کا اختیار ہے کہ وہ آئژین کے بچائے ۔ مسلم لیگ کونسل نے اکثریت حاصل کی جبکہ دوسری جانب مولانا بھاشانی نے اکثریت حاصل کی ایک تو مشرقی پاکستان میں سانحہ ہوا اور ہزاروں افراد مر گئے ۔

7 دسمبر 1977 کو انتخابات روک دیئے گئے ۔ محمد علی قصوری نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی اور انتخابات میں حصہ لیا ۔ 38 سے 40 نشستیں حاصل کیں اس تاخیر نے لوگوں کو بھی سوچنے پر مجبور کیا ۔ عوامی لیگ نے 171 نشستیں 173 میں سے حاصل کر لیں اس کے بعد سے انتخابات بنگلہ دیش کی پراپرٹی بن گئے اور مجیب الرحمان نے تقریر بھی کی تھی ۔صرف دو افراد الگ سے مختب ہوئے ۔

15 سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں شرکت کی ۔ 88 نشستیں پیپلزپارٹی ، 10 سیٹیں نیشنل عوامی پارٹی کو ملیں ۔ پیپلزپارٹی کا حکومت کا حق تھا مگر ولی خان نے اس کو متنازعہ کیا ۔ پیپلزپارٹی نے سندھ سے 22 سیٹیں لیں ۔ بلوچستان سے کوئی سیٹ حاصل نہ کرسکی جس پر معاملات خراب ہوئے جبکہ نیشنل عوامی پارٹی نے جے یو آئی سے اتحاد کیا ۔ جنوری 1971 میں پیپلزپارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ نے ڈھاکہ جانا کا فیصلہ کیا اور مل کر فیصلہ کرنے کے لئے منظوری دی ۔

جی ایم سید کی ضمانت ضبط ہوئی ۔ (پنجاب کو بھٹو کی پاور قرار دیا گیا ۔ پنجاب کے پاس سوائے اس کے کوئی اور چارہ نہ تھا کہ وہ مجیب الرحمان کے 6 نکات کو تسلیم کر لیا جائے) ۔ یہ مجیب الرحمان کا مینڈیٹ نہیں تھا ۔ عوامی لیگ سے 7 افراد نے مذاکرات کئے ان میں میں بھی شامل تھا ۔ (مجیب الرحمان کے گھر پہلی میٹنگ ہوئی جس میں انہوں نے پیچھے ہٹنے سے انکار کیا ۔

اس نے ہمیں سندھ اور پنجاب ، بلوچستان کے رہنما کے طور پر قرار دیا ۔ بھٹو اور مجیب الرحمان نے آپس میں ملاقات نہ کی ۔ یہ ہمین اچھا موقع ملا تھا اور ہم فیصلہ کرتے مرزا ابراہیم نے ڈاکٹر مبشر کو 85 ہزار ووٹ حاصل کئے ۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کو بھٹو نے لاہور میں شکست دی ہے ۔ اے رحیم سے کہا گیا کہ آپ بنگالی نہیں بول سکتے جس سے ڈیڈ لاک پیدا ہوا۔ بھٹو نے دو شرائط پیش کیں کہ تمام آئین ختم کر دیا جائے اور 120 دنوں میں دوبارہ سے تیار کیا جائے ۔

مجیب الرحمان نے اس کو قبول نہ کیا ۔ اجلاس طلب کیا گیا مشرقی فورس نے دفاع کرنے سے انکار کر دیا اور مسلح افواج کو مداخلت کرنا پڑی ۔ بنگلہ دیش کا پرچم بنایا گیا ۔ عوامی لیگ کی آخری پوزیشن بتائی گئی ہے مشرقی پاکستان کی اپنی روایات ہیں اور آپ کی اپنی آپ اپنی مرضی کریں ہم اپنی کرینگے ۔26 مارچ 1971ء کو قوم نے ڈھاکہ میں ذمہ داریاں سنبھالیں اور ڈھاکہ سقوط پیش آیا ۔

جنرل یحییٰ خان نے خود کو صدر قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین دے دیا جنرل حمید اس وقت آرمی چیف تھے بھٹو کو سمن جاری کئے گئے اور جنرل یحییٰ خان سے اختیار لے کر بھٹو کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا گیا ہم نے راولپنڈی میں بھٹو سے ملاقات کی جنرل یحییٰ خان نے نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ سے پابندی اٹھالی اور پہلا سیاسی فیصلہ کیا ۔

خان ولی خان کو بلایا گیا یہ سب ہوا مارچ 1971ء میں مذاکرات کئے گئے پی پی نیب اور جے یو آئی (ف) سے ملاقات ہوئی 1971ء میں مارشل لاء جاری رکھنے کی بات کی گئی خان ولی خان ، مولوی محمود الحسن اور دیگر اس اجلاس میں شریک ہوئے ریاست پاکستان کو انٹرم آئین نے محفوظ کیا قومی اسمبلی نے اجتماعی قرارداد پاس کی کہ مارشل لاء جاری رہے گا 1935ء کا آئین متعدد ضروریات پوری نہیں کرتا تھا آئینی کمیٹی بنائی گئی عوامی لیگ سے کہا گیا کہ ہم آپ کوجغرافیائی بنیادوں پر ڈیل کررہے ہیں ہم نے سخت محنت کی اور مشترکہ مفادات کونسل قائم کی اقلیتی صوبوں نے زیادہ اختیارات مانگے یہ کونسل موثر طور پر کام نہ کرسکی ہاؤس نے آئینی کمیٹی 1971ء میں منتخب کی گئی میاں محمود علی قصوری اس کے چیئرمین تھے میں بھی اس کا ممبر تھا کمیٹی میں ڈیڈ لاک کی وجہ سے مسائل حل نہ ہوئے قصوری نے استعفیٰ دیا اور مجھے وزیر قانون بنایا گیا بعد میں کمیٹی کا چیئرمین بھی بنایا گیا ڈرافٹ بل 23دسمبر 1971ء کو بنایا گیا بھارتی دباؤ بھی ساتھ ساتھ تھا 80ہزار قیدی تھے تین ہزار افسران ہم سے ہزارں میل دور بیٹھے تھے اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ بنگلہ دیش بنانے کی اجازت دی جائے ۔

بڑی کوششیں کی گئیں 20ستمبر 1972ء میں لیاقت باغ میں فیصلے کئے گئے بھٹو پر فائر کیا گیا وہ روس گئے کہ بھارت کو روکا جاسکے اور بتایا کہ پاکستان کی یہ صورتحال ہے آئین کہہ رہا تھا کہ بنگلہ دیش الگ سے ملک ہوگا رپورٹ میں 2000 ترامیم کیں اور اس پر باہمی اتفاق کیا گیا اس دوران اپوزیشن نے اہم کردار ادا کیا آپ والیم دیکھ سکتے ہیں ۔23مارچ 1973ء کو عوامی پارٹی نے لیاقت باغ میں اجلاس منعقد کیا وہاں بدقسمت واقع پیش آیا اور کئی لوگ مارے گئے ہاؤس ڈیڈ ہوکر رہ گیا ہر کلاز اور آرٹیکل کی تبدیلی کے لئے ہاتھ اٹھا کر قراردادیں پیش کی گئیں 71 ممبران باقی رہ گئے تھے الگ سے 200ترامیم کی گئیں اور اپوزیشن کا انتظار کیا گیا بدقسمتی سے ہم سات افراد نے کام کیا اصل میں اکیس اپریل 1973ء کو آئین بن چکا تھا ٹکا خان نے کہا کہ جلد سے جلد آئین منظور کیا جائے اپوزیشن تو موجود ہی نہ تھی ہمارے پاس بلوچستان سے کوئی نمائندہ تک نہ تھا ۔

مولانا عبدالعزیز کو لورا لائی سے بلایا گیا مفتی محمود کو بلایا گیا مولانا عبدالعزیز نہیں پئے میں نے کہا کہ اگر یہ ترامیم منظور کریں تو کیا آپ ووٹنگ میں حصہ لیں گے تو حاصل بزنجو ، پروفیسر غفور احمد سمیت چار افراد نے 13 ویں ترمیم منظور کی سپیکر کے لیے تالیاں بجائی گئیں تمام اپوزیشن نے بھی ووٹ دیا دو کلاس رولز آئین کو ختم نہ کراسکے یہ کمپرومائز ڈاکومنٹ کیخلاف رہا بھٹو بھی اس میں تبدیلیاں لائے آپ لوگوں کی خواہشات کا جائزہ لے سکتے ہیں تمام تر اختیارات پارلیمنٹ کو دیئے گئے آرٹیکل 63 جمہوریت کے لئے لازم قرار دیا گیا پارلیمنٹ کو مکمل اختیار نہ دیں یہ عوامی خواہش ہے کہ آپ اپنا اختیار استعمال کریں ۔

وکلاء مجاز کیس میں ترمیم سامنے لائیں ۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت تمام تر اختیارات پارٹی ہیڈز کو دے دی گئی اور وہ پارلیمنٹ کا ممبر نہ ہونے کے باوجود بھی بااختیار تھے اور باہر بیٹھ کر اسمبلی چلا رہے تھے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ایسے رہنما نہ صرف منتخب کردہ نہ تھے بلکہ قابل بھی نہ تھے پیرزادہ نے کہا کہ ایک بچہ بھی پارٹی کا سربراہ بن سکتا تھا جسٹس آصف نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا ایک بھی ایک بیک گراؤنڈ ہے ایک ملٹری ڈاکٹیٹر نے جب اقتدار سنبھالا تو نواز شریف کو سعودی عرب بھجوا دیا گیا الطاف حسین یوکے میں تھے اور بے نظیر کو بھی ملک میں نہ آنے دیا گیا یہ بھی ایک تاریخ ہے ۔

انہوں نے جان بوجھ کر کوشش کی کہ سیاسی جماعت ختم کی جائے پارٹی کے اندر گروپس بنائے گئے اور کنگ پارٹی بنائی گی جس نے انتخاب بھی جیتا پارٹی ہیڈز نہ تھے مگر ان کے لوگ پارلیمنٹ میں تھے شاید اسی وجہ سے 63 اے لایا گیا اور پارٹی سے باہر رہ کر پارٹی کو کنٹرول کررہے تھے پیرزادہ نے کہا کہ مجھے بھی کہا گیا مگر میں نے انکار کیا اگر آپ پارلیمانی کمیٹی رکھتے ہیں تو اس پارٹی کو لیڈر کیوں لیڈ نہیں کرتے ہم نے 1973ء میں کوشش کی تھی کہ ترمیم کی جائے ملک جعفر نے بلایا ہم نے کہا کہ آپ نہیں بلا سکتے جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ کیا ہم نے لوگوں کو بتایا ہے کہ یہ جو ترمیم کی گئی ہے وہ صحیح ہے ۔

حامد خان نے کہا تھا کہ میں ایک قانون کے ساتھ سیاسی رہنما بھی ہوں ممکن ہے کہ سیاسی بیداری بڑھے آپ سب کچھ پارلیمنٹ کو نہ دیں کچھ اپنے پاس بھی رکھیں ۔ آپ بھی یہی کچھ کہہ رہے ہیں ۔ پیرزادہ نے کہا کہ لیڈر شپ کو میچور نہیں ہونے دیا گیا حکومتیں ختم کی جاتی رہیں ہم اندھے نہیں ہیں آپ کا یہ ادارہ مستقل ادارہ ہے وہ میچور ہیں آپ کا ایک تجربہ ہے تبھی آپ سپریم کورٹ تک پہنچتے ہیں آپ کا ادارہ ایک بہترین ادارہ ہے مسلم افواج ایک منظم ادارہ ہے وہ بھی بہترین ادارہ ہے مگر آپ نے آئین کا تحفظ کرنا ہے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ ان لوگوں نے ہمیں آئین دیا اور اب ہم ان لوگوں کو کہہ دیں کہ آپ بالغ نظر نہیں ہیں اس لئے فیصلہ ہم نے کرنا ہے ۔ پیرزادہ نے کہا کہ آپ اپنے اختیارات سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے آپ نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ آپ نے کہاں مداخلت کرنا ہے اور کہاں نہیں ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس مکمل اختیارات ہیں تو پھر ہمیں کردار ادا کرنا ہوگا ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ بھی مکمل اختیارات کا حامل ادارہ ہے ؟ برطانیہ میں اب ڈانس کا پرانا کلچر بلیو آئیز والا ختم ہوچکا ہے پارلیمنٹ کو مکمل اختیارات کا حامل نہیں قرار دیا ۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ ان اختیارات میں توازن ہونا چاہیے پیرزادہ نے کہا کہ آپ مکمل اختیارات کے باوجود کسی کو جوابد ہیں ۔حامد خان نے لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے 21 ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر دلائل دیں گے ۔

سابق صدر بار شفقت چوہان نے پہلے بات کرنا ہے تو عدالت نے کہا کہ وہ بعد میں بات کریں گے ۔ حامد خان لاہور بار ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی پیش ہوئے ۔ انہوں نے اپنی فارمولیشن بارے کہا کہ جو انہوں نے 18 ویں ترمیم بارے دیں تھی صرف وہ اس میں اضافہ کرنا چاہیں گے ۔ بنیادی آئینی ڈھانچہ کو 18 ویں اور 21 ویں ترمیم دونوں نے متاثر کیا ہے اور برابر کا نقصان پہنچایا ہے دو ترامیم کی گئی ہیں ایک نہ صرف آرمی ایکٹ میں ترمیم کی گئی ہے اور دوسری طرف یہ ترمیم بھی کی گئی ہے کہ کوئی اور عدالت اس کے خلاف نہیں جا سکتی ۔

16 دسمبر 2014 آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد قومی ایکشن پلان بنایا گیا جو 20 نکات پر مشتمل تھا جس کا پوائنٹ نمبر 2 متعلقہ ہے ۔ خصوصی ٹرائل کورٹش کا قیام جس کی سربراہی فوجی افسران کریں گے اور یہ دو سال کے لئے ہوں گی ۔ آئین میں خصوصی ترمیم کی گئی اور خصوصی عدالت قائم کی گئیں پارلیمنٹ نے دو ایکٹس پاس کئے ۔ 7 جنوری 2015 کو کانسٹی ٹیوشن ایکٹ 2015 ، پاک آرمی ایکٹ 2015قرار دیا گیا جس کو بعد میں 21 ویں ترمیم کا نام دیا گیا اور یہ ایکشن آف پارلیمنٹ بن گئے ۔

بہت زیادہ خصوصی حالات ، پاکستان کے خلاف کارروائیوں ، دہشت گردانہ کارروائی ، مسلم جھتے جو کہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی ان کے جلد ٹرائل کے لئے یہ ترمیم کر کے فوجی عدالتیں بنائیں گئیں ۔ کہا گیا کہ خصوصی حالات خصوصی اقدامات کے متقاضی ہوتے ہیں ۔ اس لئے ملکی سلامتی کے لئے یہ اقدامات کئے گئے اور فوجی عدالتیں بنائیں گئیں ۔ وفاقی حکومت کسی بھی ملزم کا جرم جو درج ذیل ترمیم کے تحت آتا ہے اسے فوجی عدالتوں میں بجھوا سکتی ہے ۔

اس طرح سے صوبائی حکومت بھی اپنے مقدمات فوجی عدالتوں میں بجھوا سکتی ہیں ۔ اس ترمیم کے حوالے سے کہا گیا کہ اس ترمیم کا باقی آئین پر کوئی اثر نہیں ہو گا ۔ صرف یہ ہو گا کہ فوجی عدالتوں میں چلائے جانے والے مقدمات کو تحفظ حاصل ہو گا اور کسی عدالت میں اس کو چیلنج نہیں کی جا سکے گا ۔میں اب واضح کروں گا کہ ان دو ایکٹس کا پورے آئین پر کیا اثر پڑا ہے اس بارے آرٹیکلز کا حوالہ دیں گے ۔

آرٹیکل 2 اے براہ راست متاثرہے جس میں عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے آرٹیکل 8 کی کلاز I اور II غیر موثر ہو کر رہ گئی ہیں ۔ آرٹیکل 9 میں شہریوں کی زندگی اور آزادی کی ضمانت دی گئی ہے آرٹیکل 10 میں گرفتاری اور دیگر معاملات میں آرٹیکل 10 اے میں شفاف ٹرائل کی بات کی گئی ہے آرٹیکل 25 میں برابری کی سطح پر آئین و قانون کا سلوک ہے برابر کے حقوق دیئے گئے ہیں ۔

آرٹیکل 175 کی کلاز 3 میں عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کیا گیا ہے ۔ آرٹیکل 184(3) میں بنیادی حقوق کی بات کی گئی ہے ۔ یہ ترامیم اس سے بھی متصادم ہے آرٹیکل 185 کے تحت عدلیہ کے اپیلٹ فورم کو متاثر کیا گیا ہے ہائی کورٹس کے اختیارات پر قدغن لگائی گئی ہے ۔ آرٹیکل 199 میں انتظامی اختیارات کی بات کی گئی ہے اس کی نفی کی کوشش کی گئی ہے ۔ 199(3) کے تحت ہائی کورٹس کورٹ آرڈرز اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے احکامات جاری کرتا ہے اس کی بھی خلاف ورزی ہے آرٹیکل 245 ہے جس میں مسلح افواج کے کردار کی وضاحت کی گئی ہے کہ انہیں سول اداروں کی مدد کے لئے ضروری ہے ۔

پارلیمنٹ کے ان اختیارات پر بھی قدغن لگائی گئی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کو بھی جائزہ لینے کا اختیار دیا گیا ہے یہ تمام آرٹیکلز براہ راست متاثر ہوئے ہیں ا ور 21 ویں ترمیم ان سے براہ راست متصادم ہے ۔ اعلی عدلیہ کے اختیارات پر بھی قدغن لگانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ 21 ویں ترمیم سنجیدگی سے ڈسٹرب اور ختم کرنے کے لئے ہے جو ڈھانچہ اور سکیم 5 ایریاز کے لئے بنائی گئی تھی ۔

آئین کے مطابق اختیارات کی تقسیم ، 2 ۔ انتظامیہ سے عدلیہ کی علیحدگی ، 3۔ آزاد عدلیہ ریاست کا ستون ہے ۔4 ۔ انصاف تک رسائی شہریوں کی بنیادی حقوق کے واسطے ، اور پانچویں میں شفاف ٹرائل جس میں شہریوں کو ضمانت دی گئی ہے یہ آئینی ڈھانچہ کے حصہ ہیں جن کو 21 ویں ترمیم نے بے حد متاثڑ کی اہے ۔ فوجی عدالتوں کا قیام پاکستان کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے پاکستان میں فوجی عدالتوں کا قیام مسلسل ہوتا رہا ہے آمروں اور جمہوری قوتوں کے وقت بھی فوجی عدالتوں کو متعارف کرایا گیا ۔

1953 میں پہلی بار یہ عدالتیں متعارف کرائی گئیں جبکہ احمدیوں کے خلاف لاہور میں تحریک چلی تھی دوسرا موقع اکتوبر 1958 میں آیا جب مارشل لاء لگایا گیا اور یہ عدالتیں 4 سال تک رہیں جب مارشل لاء ختم ہوا اور یہ عدالتیں جون 1962 تک کام کرتی رہیں تیسرا موقع 25 مارچ 1969 ہے جب یحیی خان نے مارشل لاء لگایا اور یہ موثر طور پر 1971 دسمبرتک عدالتیں کام کرتی رہیں اور سویلین مارشل لاء 1972 تک جاری رہا ۔

مشرقی پاکستان میں اس کا کردار زیادہ رہا چوتھا موقع اپریل 1977 کو منی مارشل لاء لگایا گیا اور 3 شہر اس کی زد میں آئے جن میں لاہور ،کراچی اور اسلام آباد شامل تھے ۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ کیا یہ مارشل لاء تھا یا سویلین اداروں کی مدد کے لئے فوج کو بلایا گیا تھا ۔ حامد خان نے کہا کہ اس کو چیلنج کیا گیا تھا درویش مہد بنام فیڈریشن آف پاکستان کیس میں سابق چیف جسٹس اسلم ریاض نے یہ عدالتیں ختم کر دی تھیں ۔

5 جولائی 1977 کو مارشل لاء لگایا گیا یہ مارشل لاء لمبے عرصے تک جاری رہا اور 8 سال جاری رہا ۔ فوجی عدالتیں 5 جولائی 1977 سے 1985 تک جاری رہا اور بڑی تعداد میں سیاسی ورکروں ، میڈیا کے لوگوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ان فوجی عدالتوں کے ذریعے سزا دی گئی ۔ لمبے عرصے کے لئے جیل بھیجا گیا ۔ اس سے اگلی بار جب فوجی عدالتیں بنائی گئیں وہ 1998 میں فوجی عدالتیں بنائی گئیں پاکستان مسلح افواج نے سول اداروں کی مدد کا آرڈیننس جاری کیا گیا ۔

20 نومبر 1998 کو یہ آرڈیننس متعارف کرایا گیا ۔ یہ سندھ کے علاقوں میں استعمال کیا گیا ۔ آرٹیکل 245 کی بھی مدد لی گئی اس قانون کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ تین قوانین کا استعمال کیا گیا جس میں آرمی ایکٹ ، ایئرفورس ایکٹ اور نیوی آرڈینس شامل ہیں ایک اہم پہلو جس میں دو سیکشن میں اپیل کا فورم دیا گیا ہے جو کہ 21 ویں ترمیم میں نہیں ہے سیکشں تھری میں چیف آف آرمی سٹاف اور متعلقہ حکام کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا ۔

آرڈیننس کے ختم ہونے سے قبل مذکورہ عدالتوں کو لیات کیس میں سپریم کورٹ 1999 میں ختم کر دیا تھا ۔ 9 رکنی بینچ نے ان عدالتوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا تھا ۔ یہ بہت ہی متعلقہ فیصلہ ہے کہ جس میں سپریم کورٹ نے اپنا اختیار استعمال کیا ۔ یہ فیصلہ فوجی عدالتوں کے 4 ماہ کام کرنے کے بعد جاری کیا گیا تھا جسٹس سرمد نے کہا کہ کیا یہ سارا آرڈیننس ختم کیا گیا ۔

حامد خان نے کہا کہ جی ہاں ۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ یہ معاملہ عبدالستار خان نیازی کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست ہونے کے بعد ختم ہوا ۔ 1958 میں مقدمات کے زیادہ دیر سماعت رہنے کی وجہ سے نظریہ ضرورت کا استعمال کیا گیا ۔ اکتوبر 1958 میں کئی مقدمات سامنے آئے ۔ مارشل لاء لگایا گیا تھا اس فیصلے کو تسلیم کیا گیا اور عدالتوں نے فوجی عدالتوں کو درست قرار دیا اور اس کے اثرات بارے 1972 تک کوئی خاص فیصلہ نہ آ سکا جب عاصمہ جیلانی کیس آیا ۔

جنرل یحی خان کا فیصلہ بھی عدالتوں نے درست قرار دیا ۔ ایوب خان کا فیصلہ بھی اپ ہیلڈ رہا ۔ 1998 میں چار سال فوجی عدالتیں قائم رہیں ۔ 1975 میں بیگم نصرت بھٹو نے مارشل لاء کو چیلنج کیا مگر مارشل لاء کو برقرار رکھا گیا ۔ اعلی عدلیہ کو محدود اختیار دیا گیا کہ وہ فیصلوں پر نظرثانی کر سکتی تھی ۔ آزاد گواہ کی صورت میں سزا دی جاتی مگر اس سے ہٹ کر تمام فیصلوں پر نظرثانی کر دی جاتی تھی ۔

212 آرٹیکل کے تحت فوجی ٹریبونلز قائم کئے گئے جنہیں لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ۔ جو مئی 1980 میں سماعت کی گئی ۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے نظرثانی کرنے کا فیصلہ دیا ۔ 5 سے 6 ماہ تک دلائل جاری رہے اور کوئی فیصلہ نہ آیا ۔ اور پھر یہ مقدمات نہ کھل سکے ۔ مئی سے مارچ 1981 تک کوئی بات سامنے آ سکیں ۔ 1973 کا آئین چار سال تک قابل عمل نہ رہا ۔ مارچ 1981 سے مارچ 1985 کت کسی آرٹیکل کا تذکرہ نہ کیا جا سکا ۔

تمام تر آرٹیکلز معطل تھے ۔ اس کے بعد 1998 میں فوجی عدالتوں کو عدالت میں چیلنج کیا گیا اور پھر یہ قانون غیر آئینی قرار دیا گیا ۔ جسٹس آصف نے کہاکہ محرم علی کیس میں کہا گیا کہ جو عدالت ہائی کورٹس کے ماتحت نہیں ہیں وہ غیر آئینی ہیں ۔ حامد خان نے کہا کہ یہ کیس 1998 میں سنا گیا ۔ لیاقت علی اور محرم علی کیس دونوں مقدمات فوجی عدالتوں کے بارے بہت اہم ہیں جس میں خصوصی عدالتوں اور جلد سے جلد ٹرائل کی بات کی گئی تھی آج پھر وہی معاملات عدالت کے روبرو ہے کہ عدالت کچھ بھی ڈلیور کرنے میں ناکام رہی ہیں اس وجہ سے یہ فوجی عدالتیں قائم کی گئیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جمعرات کو 11 بجے تک سماعت کرے گی اور بعدازاں یہ فل کورٹ 16 جون کو دوبارہ سے سماعت کرے گی ۔