جن گواہوں پر جرح ہو چکی انہیں دوبارہ نہیں بلائیں گے،جوڈیشل کمیشن، کمیشن اپنی حدود وقیود کے مطابق ہی گواہوں کوطلب کرے گاغیر متعلقہ گواہوں کوطلب کرنے پر اصرارنہ کیاجائے،چیف جسٹس،ق لیگ سے گواہوں کی فہرست طلب،منظم دھاندلی کے حوالے سے مسلم لیگ ق کے پاس کوئی ثبوت موجود ہے،چیف جسٹس کا استفسار،5 سرکاری گواہوں پر جرح مکمل،3پر آج کی جائیگی

بدھ 3 جون 2015 08:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3 جون۔2015ء)عام انتخابات 2013میں مبینہ دھاندلی کے بارے میں تحقیقات کرنے والے تین رکنی جوڈیشل کمیشن نے مسلم لیگ ق سے گواہوں کی حتمی فہرست 48گھنٹوں میں طلب کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ جن گواہاں سے جرح کی جاچکی ہے ان کودوبارہ نہیں بلایاجائیگا، کمیشن میں آج (بدھ)کوخلیق الرحمان ،نوید خواجہ اورڈاکٹر شیرافگن ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن سے جرح کی جائیگی ،کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس ناصرالملک نے کہاہے کہ کمیشن اپنی حدود وقیود کے مطابق ہی گواہوں کوطلب کرے گاغیر متعلقہ گواہوں کوطلب کرنے پر اصرارنہ کیاجائے کل کواگر کوئی فریق کہ دے کہ صدر مملکت کوبھی بلایاجائے توکیاہم ان کوبھی بلالیں ،آراوزنے اگر منظم دھاندلی کرائی ہے توکیااس حوالے سے مسلم لیگ ق کے پاس کوئی ثبوت بھی موجود ہے یاپھروہ صرف چاہتے ہیں کہ آراوزسے صرف یہی پوچھناہے کہ انھوں نے نتیجہ مرتب کرتے ہوئے مسلم لیگ ق کے امیدوارون کوکیوں طلب نہیں کیاتھاانھوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دیے ہیں چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اورجسٹس اعجازافضل خان پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کارروائی کی سماعت کی جبکہ عام انتخابات دو ہزار تیرہ میں منظم دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات پر مامورجوڈیشل انکوئری کمیشن میں پانچ سرکاری گواہان پر جوح مکمل کر لی گئی ہے جبکہ مزید تین سرکاری گواہوں پر جرح آج کی جائے گی ،الیکشن کمیشن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے صوبائی الیکشن کمشنر لاہور آفس میں تعینات ڈپٹی ڈائیریکٹر عبدالوحید پر جرح کی تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بیس اکیس اور چھبیس اپریل دو ہزار تیرہ کو پاکستان سیکورٹی کارپوریشن کراچی کو چار مختلف خطوط لکھے تھے جن میں بیلٹ پیپر چھاپنے کے حوالے سے فہرست بھی پیش کی گئی تھی،پی ٹی آئی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ گواہ کا بیان الیکشن کمیشن کی جانب سے داخل کیے گئے بیان سے متصادم ہے الیکشن کمیشن کے سابق ڈی جی بجٹ غیاث الدین نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان پوسٹ فاونڈیشن اسلام آباد کی سیکورٹی کلیرنس اور وہاں تعینات عملہ کی سیکورٹی کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکرٹری داخلہ کو آئی بی کا نمائندہ بجھوانے کی درخواست کی تھی جس پر دونوں اداروں کے نمائندوں نے معائنہ کیا اور سیکورٹی کلیرنس دی،دوران سماعت پرنٹنگ کارپوریشن اسلام آباد کے منیجر فضل الرحمن الیکشن کمیشن کے سابق ڈائیریکٹر بجٹ اشفاق احمد سرور اور الیکشن کمیشن ہی کہ ڈپٹی ڈائیریکٹر کوارڈینیشن شبیر احمد مغل پر بھی جرح کی گئی ،دوران سماعت پاکستان مسلم لیگ ق کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا کہ پاکستان کے ہر الیکشن میں دھاندلی کے لیے نیا طریقہ کار رہا ہے اس دفعہ ریٹرنگ آفیسر کے ذریعے دھاندلی کروائی گئی تھی،انہوں نے کہا کہ انہوں نے چھ ریٹرنگ آفیسر اور آٹھ انتخابی امیدواروں کے نام بطور گواہ دیئے ہیں انہیں طلب کیا جائے جس پر کمیشن نے کہا کہ آپ کی درخواست پر بدھ کو فیصلہ جاری کیا جائیگاڈاریکٹر بجٹ الیکشن کمیشن اشفاق احمد سے جرح کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ ان کو موصول ہوئی تھی جو پرنٹنگ پریس کے سیکرٹری نے بھیجی تھی جس میں الیکشن پلان اور دیگر چیزیں شامل تھیں اس پر اشفاق احمد نے کہا کہ ہاں ان کو یہ رپورٹ موصول ہوئی اور وہ رپورٹ انہوں نے جوڈیشل کمیشن کو دکھائی تھی ۔

(جاری ہے)

سلمان اکرم راجہ نے ان سے پوچھا کہ کیا جو ادائیگیاں ہوئی ان کا اشفاق خان کو علم ہے ؟ جس پر انہوں نے کہا کہ نہیں ان کو اس کا علم نہیں کیونکہ اس وقت وہ ملتان کے ریجنل آفس میں تھے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس لیٹر پر دسمبر 2014ء کی تاریخ درج ہے جو الیکشن کے بعد کی تاریخ ہے اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کی طرف سے تصدیق شدہ ہے اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے ؟ تو ان کو بتایا گیا کہ محبوب انور اور دیگر نے اس کو تصدیق کیا ہے کیونکہ اس وقت الیکشن کمیشن کا آڈٹ نہیں ہوا تھا الیکشن کمیشن کا آڈٹ انتخابات کے بعد کیا گیا ۔

سلمان اکرم راجہ نے پوچھا کہ جب لاہور میں پرنٹنگ ہوئی تھی تو اس کا آپ کو علم تھا اس پر اشفاق احمد نے کہا کہ ہاں میں نے یہ پرنٹنگ سپر وائز کی تھیں ۔ حفیظ پیرزادہ نے جرح کرتے ہوئے اشفاق احمد سے پوچھا کہ آپ نے ان کاغذات پر دسمبر 2014ء میں دستخط کئے آپ کو کیا ضرورت پیش آئی آپ نے ان کاغذات پر دستخط کئے اس پر اشفاق احمد نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہم سے رپورٹ طلب کی تھی جس پر ہمیں یہ رپورٹ تیار کرنا پڑی پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا آپ کو اصل لیٹر جاری کرنے والی تاریخ یاد ہے تو اشفاق احمد نے پوچھا کہ نہیں مجھے یاد نہیں اس کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر الیکشن کمیشن شبیر احمد مغل سے جرح کرتے ہوئے سلمان ا کرم راجہ نے پوچھا کہ الیکشن سے قبل کچھ پولنگ سٹیشنز میں کچھ تبدیلیاں لائی گئیں وہ تبدیلیاں کس نوعیت کی تھیں اس سوال پر چیف جسٹس نے وہ لیٹر طلب کئے جن میں ان تبدیلیوں کا ذکر تھا شبیر احمد مغل نے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ تبدیلیاں اس ٹیکنیکل نوعیت کی تھیں اس میں الیکشن کی عمارت کو تبدیل کیا گیا اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جو لیٹر چیف جسٹس کو دکھایا گیا یہ ان کا تیار کردہ ہے ۔

حفیظ پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا صوبائی الیکشن کمیشن کی معلومات پر فراہم کیا گیا ہے ؟ تو شبیر مغل نے بتایا کہ ہاں اس لیٹر کے لئے صوبائی الیکشن کمیشن سے ہی معلومات لی گئیں ۔ پیرزادہ نے ان سے پوچھا کہ آپ کے لیٹر میں ووٹرز کی تعداد نہیں دکھائی گئی تو شبیر مغل نے کہا کہ یہ کوری جینٹل میں موجود ہے ۔ اس کے بعد ڈائریکٹر جنرل بجٹ الیکشن کمیشن غیاث الدین سے جرح کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے ان کو کچھ لیٹر دکھائے اور پوچھا کہ کیا یہ آپ کے لکھے ہوئے خطوط ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یہ میرے لکھے ہوئے خطوط ہیں اس پر سلمان راجہ نے استفار کیا کہ آپ نے آئی بی اور آئی ایس آئی کے نمائندگان کو کیوں بلایا ہے اس پر غیاث الدین نے بتایا کہ آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمائندگان کو سکیورٹی کلیئرنس کیلئے بلایا گیا تھا تاکہ وہ پاکستان پوسٹ فاؤنڈیشن کو وزٹ کرسکیں اس پر سلمان راجہ نے پوچھا کہ آپ کو یہ کلیئرنس مل گئی تھی اس پر غیاث الدین نے بتایا کہ ہاں ہمیں یہ کلیئرنس مل گئی تھی ۔

پرنٹنگ کارپوریشن اسلام آباد کے منیجر فضل الرحمن سے جرح کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے پوچھا کہ پاکستان پوسٹ فاؤنڈیشن نے آپ کو بغیر نمبر کے اور بغیر بائنڈنگ کے بیلٹ پیپر مہیا کئے تو فضل الرحمن نے بتایا کہ ہاں ہمیں بغیر نمبر اور بغیر بائنڈنگ کے بیلٹ پیپر مہیا کئے گئے اس پر سلمان راجہ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو ان بیلٹ پیپر کی تعداد یاد ہے تو فضل الرحمن نے کہا کہ ہاں ہمیں اکتالیس لاکھ اکانوے ہزار آٹھ سو بیلٹ پیپر موصول ہوئے جن کی بائنڈنگ اور نمبرنگ کا کام ہم نے کیا تھا ۔

سلمان اکرم راجہ نے پوچھا کہ آپ تک یہ بیلٹ پیپر کس طرح پہنچائے جاتے تھے تو فضل الرحمن نے بتایا کہ یہ بیلٹ پیپر آرمی سکواڈ کی نگرانی میں ہمارے پاس پہنچائے جاتے تھے اور ہم کام کرتے تھے سلمان اکرم راجہ نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کو یہ بیلٹ پیپر کب ملے تو فضل الرحمن نے جواب دیا کہ یہ پانچ اور چھ مئی کو دیئے گئے تھے اس پر ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ کام کرنے کیلئے لیبر دستیاب ہوتی ہے تو فضل الرحمن نے جواب دیا کہ اس کے لئے ہم باقاعدہ ٹینڈر کرتے ہیں اور ٹھیکیدار یا فرم کے ساتھ ہمارا کنٹریکٹ ہوتا ہے اور ہم لوگ ہائر کرتے ہیں ۔

سلمان اکرم راجہ نے پوچھا کہ سات مئی کو الیکشن کمیشن نے آپ سے لیبر مہیا کرنے کی درخواست کی تھی اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ہمیں درخواست موصول ہوئی تھی اور ہم نے لیبر مہیا کی تھی سلمان اکرم راجہ نے ان سے پوچھا کہ جب آپ بیلٹ پیپر پرنٹ کرتے ہیں تو کیا آپ دی گئی تعداد کے مطابق پرنٹ کرتے ہیں اس پر چیف جسٹس نے یہ سوال کرنے سے منع کردیا اس پر سلمان اکرم راجہ نے فضل الرحمن سے پوچھا کہ کیا بیلٹ پیپر کی چھپائی کے وقت بیلٹ پیپر ضائع ہونے کا بھی خطرہ ہوتا ہے ؟ تو بتایا گیا کہ ہاں سیاہی کم ہونے یا مس پرنٹ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ان کو ہم الگ کرکے رکھ دیتے ہیں اور ان کو ایک کمیٹی کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جو یہ بیلٹ پیپر جلا دیتی ہے اسی طرح نمبرنگ میں بھی مسئلہ ہوتا ہے کہیں ڈبل نمبر لگ جاتا ہے تو وہ بیلٹ پیپر ضائع ہوجاتاہے اس کمیٹی میں فوج سے لیکر الیکشن کمیشن کے ممبران شامل ہوتے ہیں جہاں یہ ضائع شدہ بیلٹ پیپر جلائے جاتے ہیں سلمان راجہ نے فضل الرحمن کو ایک اور لیٹر دکھایا اور پوچھا کہ کیا یہ لیٹر آپ کی ہدایت پر لکھا گیا تو فضل الرحمن نے بتایا کہ ہاں یہ لیٹر میری ہدایت پر لکھا گیا تھا حفیظ پیرزادہ نے فضل الرحمن سے جرح کرتے ہوئے بتایا کہ آٹھ تاریخ کی شام کو کام شروع کیا تو کب مکمل کیا ؟ اس پر فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے دس مئی کو یہ کام مکمل کرلیا تھا اور یہ کام چونتیس آدمیوں نے کیا ۔

پیرزادہ نے پوچھا کیا یہ درست ہے کہ آپ کو بیلٹ پیپر پہنچانے کیلئے لاہور سے کوسٹر پر منگوائے گئے تھے ؟ تو فضل الرحمن نے بتایا کہ ہاں یہ بیلٹ پیپر کوسٹر پر منگوائے گئے تھے ۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا یہ بیلٹ پیپر واپس بھی کوسٹر پر بھیجے گئے؟ اس پر فضل الرحمن نے کہا کہ اس کا ہمیں کوئی علم نہیں پیرزادہ نے فضل الرحمن سے استفسار کیا کیا آپ کو اس سے پہلے بھی کوئی افراد پنڈی سے منگوانے کا کہا گیا تھا اس پر فضل الرحمن نے بتایا کہ ہاں ہمیں ایک سو چھتیس افراد کو لاہور اور پشاور بھیجا تھا۔

شاید حامد نے فضل الرحمن سے پوچھا کہ جو بیلٹ پیپر پوسٹ فاؤنڈیشن پریس میں چھاپے گئے وہ بائنڈنگ کئے ہوئے تھے یا نہیں اور کیا ان بیلٹ پیپر کی تقسیم آپ کی طرف سے ہوئی ؟ تو بتایا گیا کہ ہاں تمام بیلٹ پیپر کی ڈیلیوری ہمارے پرنٹنگ پریس سے ہوئی تھی ۔سلمان اکرم راجہ نے اگلے دن کیلئے دو مزید گواہان کو بلانے کی درخواست کی ۔ ڈاکٹر خالد رانجھا نے عدالت سے چھ آر اوز کو پیش کئے جانے کی درخواست کی عدالت نے کہا کہ کمیشن اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے گواہان طلب کرے گا اور کسی ایسے گواہ کو طلب نہیں کرے گا جو ان کے دائرہ کار میں نہ آتا ہو عدالت نے ڈاکٹر خالد رانجھا کو کہا کہ آر اوز کے علاوہ وہاں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران بھی ہوتے ہیں کیا انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی ؟ اس پر ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا کہ منظم دھاندلی میں آر اوز ملوث تھے اس لئے میں عدالت سے یہ درخواست کررہا ہوں ۔

عدالت نے ان سے کہا کہ آپ نے یہ کہا کہ ہر مرتبہ نئے طریقے سے دھاندلی کی گئی اور اس مرتبہ آر اوز کے ذریعے دھاندلی کی گئی آپ ثبوت کے بغیر بات کررہے ہوتے ہیں کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت ہیں ؟ عدالت نے یہ بھی کہا کہ آپ کا کہنا ہے کہ آر اوز نے گنتی کرتے وقت آپ کے امیدواروں کو نہیں بلایا اس لئے دھاندلی ہوئی ہے کیا اس کے علاوہ آپ کے پاس کوئی اور ثبوت ہیں ؟ تو ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا کہ نہیں اس کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں لیکن آر اوز مظم دھاندلی میں ملوث تھے انہوں نے ہمارے چھ اسمبلی امیدواران اور دس صوبائی کے امیدواران کو گنتی کرتے وقت نہیں بلایا تھا ۔

عدالت نے پوچھا کہ کیا ان کا کیس الیکشن ٹربیونل میں ہے ؟ تو ڈاکٹر خالد رانجھا نے بتایا کہ ہاں ہمارا کیس الیکشن ٹربیونل میں ہے ۔ عدالت نے کہا کہ آپ کو پرسوں بتایا جائے گا کہ آپ کون سے پرائیویٹ گواہ کو پیش کریں اور سماعت آج ایک بجے تک ملتوی کردی ۔

متعلقہ عنوان :