میڈیا کمیشن کیس،وزارت اطلاعات نے رپورٹ جمع کرادی،سپریم کورٹ نے پی بی اے عہدیداروں کو طلب کر لیا، پیمرا پر کروڑوں خرچ ہو رہے ہیں، تفصیلات نہیں بتائی جا رہی ہیں ، آرٹیکل 19 کے تحت آزادی اظہار رائے ہے ، عدلیہ اور مسلح افواج پر تنقید نہیں کی جا سکتی،جسٹس جواد، صحافی ضابطہ اخلاق سینٹ نے منظور کیا اس وقت کمیٹی کے پاس ہے ، پاکستان براڈ ایسوسی ایشن کو سننا ضروری ہے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل،سماعت 2جون تک ملتوی

جمعہ 29 مئی 2015 08:17

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔29 مئی۔2015ء) وفاقی وزارت اطلاعات نے میڈیا کمیشن کیس میں اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے عدالت نے پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کے صدر اور دیگر عہدیداروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے جبکہ وزیر اعظم کی بنائی گئی کمیٹی کے بارے میں تفصیلات معلوم کرنے کے لئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی عرفان صدیقی بھی طلب کر لئے گئے ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پیمرا پر کروڑوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں مگر اس کی تفصیلات عدالت کو نہیں بتائی جا رہی ہیں ۔ آرٹیکل 19 کے تحت آزادی اظہار رائے ہے مگر عدلیہ اور مسلح افواج پر تنقید نہیں کی جا سکتی ۔ تمام تر تفصیلات پیمرا کی ویب سائٹ پر ڈالی جائیں ۔ یکم جولائی 2012 سے اب تک کی تفصیلات سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے ۔

(جاری ہے)

صحافی ضابطہ اخلاق بنانے کے لئے 4 سال سے گفت و شنید ہو رہی ہے ۔ ریاست کے 4 ستونوں میں میڈیا بھی ایک ستون ہے انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دیئے ہیں جبکہ مقدمے کی سماعت جسٹس جواد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی اس دوران چیئرمین پیمرا اور دیگر فریقین پیش ہوئے ۔ پیمرا نے بتایا ہے کہ 17500 شکایات موصول ہوئیں جبکہ 17208 پر کارروائی جبکہ 248 شکایات پر کارروائی باقی ہے ۔

وفاقی وزارت اطلاعات کی جانب سے میڈیا کمیشن کیس میں رپورٹ جمع کرادی گئی ۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا ہے کہ صحافی ضابطہ اخلاق سینٹ نے منظور کیا اس وقت کمیٹی کے پاس ہے ۔ پاکستان براڈ ایسوسی ایشن کو سننا ضروری ہے ۔ پیمرا کے وکیل بھی پیش ہوئے ۔ سیکرٹری اطلاعات نے پیش ہو کر پی بی اے پہلی میٹنگ میں شریک ہوئی پھر کہا کہ وہ کمیٹی کی جانب سے مرتب کردہ صحافی ضابطہ اخلاق کو نہیں مانتے ۔

اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ اگر کوئی نہیں آتا تو کیا دعوت نامے بھیجے جائیں ۔ وارنٹ نکالنا غلط بات ہے ۔ سابقہ آرڈر دیکھیں پی بی اے کی نمائندگی کون کرتا تھا ۔ سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ اس وقت شکیل مسعود پی بی اے کے چیئرمین تھے ۔ ان کا اپنا ضابطہ اخلاق ہے جسٹس جواد نے کہا کہ پی بی اے نے صحافتی ضابطہ اخلاق پر تحفظات کا اظہار کیا ؟ سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ پیمرا کا ضابطہ اخلاق ہے مگر وہ اس کی اصل روح کے مطابق عمل نہیں کر رہے ہیں جس پر جسٹس جواد نے کہا کہ صحافتی ضابطہ اخلاق بنانے میں 4 سال سے گفت و شنید ہو رہی ہے ۔

اس دوران عدالت نے پمرا کی طرف سے معاونت کے طریقہ کار پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ۔ پیمرا کے وکیل حسنین کاظمی نے بتایا کہ مجموعی طور پر 248 شکایات پر کارروائی باقی ہے جبکہ 17500 شکایات موصول ہوئی جبکہ 17208 پر کارروائی کی گئی ہے ۔ کچھ شکایات پر جرمانہ بھی کیا گیا ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا ک پیمرا نے کتنے ٹی وی چینل پر جرمانے عائد کئے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ ریاست کے 4 ستون ہیں آرٹیکل 19 میں اظہار آزادی رائے دیتا ہے ۔اعلی عدلیہ مسلح افواج بارے تنقید پر پابندی ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے ۔ اسی وجہ سے پیمرا ایکٹ پر عملدرآمد نہیں ہے ۔ عدالت نے کہا کہ مزید سماعت 2 جون تک ملتوی کر دی ۔