سینیٹ کمیٹی خزانہ کا کسب بنک کو اسلامی بنک میں ضم کرنے پر تحفظات کا ااظہار،مارکیٹ میں بنک کو خریدنے کے لئے 100ملین ڈالر کی بھی آفر تھی ،بنک کو ایک ہزار روپے میں بیچ دیا گیا۔ اسٹیٹ بنک ریکارڈ کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت، کمیٹی نے پاک چین معاہدے میں اسٹیٹ بینک کے کردار ،کرنسی سویپ، منی چینجرز لائسنس اور ا مانٹرنگ معاملات کے معاملات کا تفصیلی جائزہ لیا

جمعرات 28 مئی 2015 06:23

اسلام آبا(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔28 مئی۔2015ء ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے کسب بنک کو اسلامی بنک میں ضم کرنے کے حوالے سے قواعد و ضوابط نہ اپنانے پرشدید تحفظات کا ااظہار کیا ہے اس طرح تو بادشاہت اور مغل اعظم کے دور میں بھی نہیں ہوا ہو گا جس طرح آپ نے بنک کو ۱ یک ہزار روپے میں بیچ دیا مارکیٹ میں بنک کو خریدنے کے حوالے سے 100ملین ڈالر کی بھی آفر تھی کمیٹی نے اسٹیٹ بنک حکام کو کسب بنک کو ضم کرنے سے متعلق تمام ریکارڈ کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی ہے اس وقت ملک میں منی چینجرز کی 26 بڑی اور 27 چھوٹی کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے گئے ہیں اور اب صرف یہ ی کمپنیاں کام کر رہی ہیں غیر قانونی منی چینجزز کے خلاف ایف آئی اے کارروائی کر تی ہے اور ہمیں ایف آئی اے کسی کمپنی کے بارے میں اطلاع دے کہ غیر قانونی کام کررہے ہیں تو ہم لائسنس منسوخ کر دیتے ہیں کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایک پاکستانی دس ہزار ڈالر بیرون ملک لے کے جا سکتا ہے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئر مین کمیٹی سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والاکی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا جس میں سینیٹرز الیاس احمد بلور، محمد علی خان سیف، محمد محسن خان لغاری،محمد طلحہ محمود، کامل علی آغا،مسز نزہت صادق ، اسلام الدین شیخ ، سردار فتح محمد محمد حسنی اور سعید غنی کے علاوہ گورنر سٹیٹ بنک اشرف محمود واتھرا، کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستا ن اور چین کے مابین اپریل 2015 میں ہونے والے معاہدے میں اسٹیٹ بینک کے کردار اور کرنسی سویپ، منی چینجرزکو لائسنس جاری کرنے اور ان کے مانٹرنگ کے معاملات کے علاوہ کسب بینک کی بینک الااسلامی میں ضم کرنے کے معاملات کا تفصیلی جائزہ لیا گیااس موقع پرگورنر اسٹیٹ بینک نے قائمہ کمیٹی کو کسب بنک کو بنک الااسلامی میں ضم کرنے کے حوالے سے بتایا کہ یہ کوئی غیر معمولی کیس نہیں ہے پوری دنیا میں بنک کی خراب صورتحال کو دیکھتے ہوئے بنک کو دوسرے بنکوں میں ضم کر دیا جاتا ہے پاکستان میں 10 سال پہلے الائیڈ بنک کی یہ صورتحال ہو چکی ہے اس کے علاوہ انڈس بنک اور مہران بنک وغیرہ بھی ایسے حالات کا شکا ر ہوئے تھے ۔

انہوں نے کہا کہ 2008-09 میں پاکستان میں قائم 6 بنکوں کی مالی حالت بہت خراب ہو چکی تھی جن میں کسب بنک بھی شامل تھا ۔حکومت نے اس وقت 75 ارب کے پیکج ان بنکوں کو دیئے تاکہ وہ اپنی حالت بہتر کر سکیں مگرا ن کی حالت بہتر نہ ہو سکی ان میں سبمٹ بنک ، سلک بنک اور پنجاب بنک نے محنت کر کے حالات بہتر کیے مگر کسب بنک نے جتنے وعدے کیے تھے ان پر عملدرآمد نہیں کیا ان کے ساتھ 14 معاہدے کیے گئے تھے اور ان کے بورڈ کے ساتھ میٹنگ بھی کی گئی تھی مگر ان کی حالت بہتر نہ ہوئی پھر کسب بنک کے مالکان نے عدالت سے رجوع کیا اور جب دیکھا کہ ان کا کیس مضبوط نہیں ہے تو کیس واپس لے لیا اور حکم امتناعی حاصل کر لیا ۔

اس بنک کی دوسرے بنک میں ضم کرنے کے حوالے سے چاراداروں نے ہم سے رابطہ کیا مگر ملک کے کسی بنک نے اس میں دلچسپی نہیں لی صرف عسکری بنک، سندھ بنک ،جے ایس بنک اور اسلامی بنک نے دلچسپی دیکھائی تھی اور معاملات اسلامی بنک کے ساتھ طے پاگئے جس پرسینیٹرسیف علی خان نے کہا کہ کورٹ کی ججمنٹ کمیٹی کو فراہم کی جائے اور پارٹی نے خود ہی کیس واپس کیوں لیا معاملات میں کچھ عجیب صورتحال محسوس ہوتی ہے ۔

سینیٹر اسلام الدین شیخ تحریری طورپر کچھ سوالات چیئرمین کمیٹی کو پیش کیے جس کے جوابات اسٹیٹ بنک سے آئندہ اجلاس میں طلب کر لیے۔سینیٹر طلحہ محمود کے سوال کے جواب میں اسٹیٹ بنک کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ دوبئی بنک اور سنگاپور بنک ، اسلامی بنک میں بڑے شیئرز رکھتے ہیں۔سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ جس قاعدے و قانون کے تحت اس بنک کو دوسرے بنک میں ضم کیا گیا ہے اس کو کمیٹی کے سامنے لایا جائے اسٹیٹ بنک نے کس اختیار کے تحت یہ تمام عمل اختیار کیا نہ کوئی اشتہار دیا گیا اپنی مرضی کی پارٹی کو نواز ا گیا ہے جس پر گورنر اسٹیٹ بنک نے کہا کہ پوری دنیا میں ایسا ہو رہا ہے ہم 60 مثالیں اپنے ساتھ لائیں ہیں اور جب بھی کسی بنک کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو اشتہار نہیں دیا جاتا ۔

ہم نے قانون کی شق 47 کے تحت یہ سارا کام کیا ہے جس پر سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ اس کام کے حوالے سے شق 47 کے بعد شق48 پر بھی عمل کرنا ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مغل اعظم کے دور میں ایسا کام نہیں کیا گیا ہوگا ملک کے قوانین کو مد نظررکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہوتے ہیں جنگل کا قانون بنایا گیا ہے اسٹیٹ بنک کو پالیسی بنا کر اس کی تشہیر کرنی چاہیے تھی۔

سینیٹر طلحہ محمود نے اثاثوں کی پوری تفصیل کمیٹی کو فراہم کرنے کی سفارش کر دی ۔سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ ضم کرنے کے حوالے سے کیا بنکوں کو خطوط لکھے گے تھے اس کیلئے این بی پی بھی بہتر اپشن ہو سکتا تھا ۔اس وقت بنک میں کتنا پیسہ تھا کیا اس کا سالانہ آڈٹ بھی ہوتا ہے پچھلے پانچ سالوں کی آڈٹ رپورٹ کمیٹی کو پیش کی جائے ۔جس پر اسٹیٹ بنک کے حکام نے کہا کہ تمام بنکوں کا آڈٹ کرایا جاتا ہے اور بتایا گیا تھا کہ یہ بنک مسلسل نقصان میں جارہا ہے 12.5 ارب کا نقصا ن ہو چکا تھا اور کیپٹل منفی 4 پر پہنچ چکا تھا۔

ہم نے اس حوالے سے پریس ریلیز بھی جاری کی تھی اور اس کی رپورٹ وزارت خزانہ کو بھیجی گی جس نے وزارت قانون سے معاملات پر رائے تھی اور تمام قانونی تقاضوں کے بعد یہ عمل کیا گیا تھا۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی کے ہر ممبر کی اس مسئلے پر خاصی دلچسپی ہے اور اس معاملے کی تمام تفصیلات پہلے دن سے لے کر آج تک کی کمیٹی کو فراہم کی جائیں اس مسئلے کو آئندہ اجلاس میں تمام متعلقہ اداروں کو بلا کر حل کیا جائے گاپاک چین اپریل2015 کے معاہدے میں اسٹیٹ بنک کے کردار کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ معاہدہ 2011 میں ہوا تھا جو 2014 میں ختم ہو چکا ہے اور پھر دوبارہ اس کو ریوائز کیا گیا ہے تاکہ باہمی تجارت کو فروغ دیا جاسکے ۔

کسی بھی ملک کے سنٹرل بنک کو فارن ایکسچنج کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ دوسرے ملک کے سنٹرل بنک سے مد د حاصل کر سکتا ہے ہم نے دو دفعہ بنکوں کو دعوت دی تھی کہ رقم کے حصول کیلئے ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں مگر کوئی ہمارے پاس نہیں آیا جس پر سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ صرف وہی لوگ دلچسپی لیں گے جو چین کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں ۔کرنسی سویپ کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ چین نے بہت سے ممالک کے ساتھ کرنسی سویپ کے معاہدے کر رکھے ہیں وہ کرنسی کی ویلیو کو اسٹیبل رکھتے ہوئے اپنی تجارت کو بڑھنا چاہتے ہیں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ چین میں ایکسپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ وہ 11 ارب روپے کی ہے جبکہ ہماری حکومت 7 ارب روپے بتاتی ہے اتنا بڑا فرق کیوں آرہا ہے جس پر گورنر اسٹیٹ بنک نے کہا کہ ایسے اعدادوشمار پچھلے تین چار سالوں سے سامنے آرہے ہیں جس پر سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ اسٹیٹ بنک کو فارن کرنسی اکاؤنٹ کے حوالے سے ایک نئی پالیسی لانی چاہیے لوگ حوالے کے ذریعے ایکسپورٹ نہیں کرنا چاہتے رکاوٹوں کو حکومت ریگولیٹ کرے اس سے ٹیکس دہندگان میں اضافہ ہوگا ۔

سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ بیرون ممالک میں کتنے ڈالر ایک آدمی لے جاسکتا ہے تو کمیٹی کو بتایا گیا کہ دس ہزار ڈالر لے جاسکتے ہیں جبکہ بیرون ملک سے پیسے لانے کی کوئی حد مقر ر نہیں صرف اس کا ڈکلریشن فام پر کیا جاتا ہے اس کے علاوہ منی چینجرز کے لائسنس کے اجراء کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ 1991 میں 370 منی چینجزز کو اجازت دی گئی تھی جو 2004 میں 26 بڑی اور 27 چھوٹی کیٹگری کی کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے گئے ہیں اور اب صرف یہ ہی کام کر رہی ہیں غیر قانونی منی چینجزز کے خلاف ایف آئی اے کارروائی کر تی ہے اور ہمیں ایف آئی اے کسی کمپنی کے بارے میں اطلاع دے کہ غیر قانونی کام کررہے ہیں تو ہم لائسنس منسوخ کر دیتے ہیں اور ان کی مانٹرنگ بھی کی جاتی ہے چیئرمین کمیٹی سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ کراچی میں ایک کمپنی عوام سے بہت ساری رقم لوٹ کر فرار ہو چکی ہے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے ۔

سینیٹر سعید غنی نے چیئرمین کمیٹی سے ایم سی جی کے مسئلے کو آئندہ ایجنڈے میں شامل کرنے کی سفارش کی

متعلقہ عنوان :