سانحہ صفورا میں ملوث 4ملزمان 14روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے،ملزمان کو سخت حفاظتی انتظامات میں عدالت میں پیش کیا گیا،سبین محمود کو مولانا عبدالعزیز کے خلاف مہم چلانے پر قتل کیا ،سانحہ صفورہ کے ملز ما ن کا دوران تفتیش انکشاف ، گرفتار ہونے والے دہشت گرد کراچی اور حیدرآباد میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی شامل ہیں،راجا عمر خطاب

ہفتہ 23 مئی 2015 07:12

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23 مئی۔2015ء)کراچی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ صفورا میں ملوث 4ملزمان کو 14روزہ جسمانی ریمانڈ پر تفتیش کے لیے پولیس کے حوالے کردیاملزمان پر دھماکہ خیز مواد اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام ہے۔ سانحہ صفورا کے الزام میں گرفتار چار ملزمان کو سخت حفاظتی انتظامات میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔

جہاں مقدمہ کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ چاروں ملزمان طاہر حسین عرف زاہد بھائی، سعد عزیز عرف ٹن ٹن، ناصر احمد عرف یاسراور محمد اظہر عشرت عرف ماجد کوپولیس مقابلے کے بعد گلشن معمار کے علاقے سے گرفتار کیا گیا ہے، ملزمان کے قبضے سے دھماکہ خیز مواد اورغیر قانونی اسلحہ بر آمد ہوا ہے، ملزمان سے تفتیش کرنی ہے لہٰذا ایک ماہ کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے، جس پر عدالت نے چاروں ملزمان کو چودہ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

(جاری ہے)

پولیس نے چاروں ملزمان کو سانحہ صفورا کے الزام میں عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا۔واضح رہے کہ ملزمان کو پولیس نے گزشتہ دنوں کراچی کے مختلف علاقوں سے گرفتار کرکے دعوی کیا تھا کہ ملزمان سانحہ صفورا گوٹھ جس میں ایک مذہبی فرقے سے تعلق رکھنے والے 46افراد جاں بحق ہوگئے تھے،میں ملوث ہیں اور ملزمان سے بھاری تعداد میں اسلحہ وگولہ بارود برآمد کرنے کا دعوی کیا گیاتھا۔

ادھرسانحہ صفورہ گوٹھ بس حملے کے ملزمان نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ انسانی حقوق کی کارکن سبین محمود کو لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے خلاف مہم چلانے پر قتل کیا گیا ہے۔پولیس کے کاوٴنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ راجا عمر خطاب نے کہا ہے کہ اسماعیلی برادری کی بس پر حملے کے پیچھے فرقہ وارانہ دہشت گردی تھی تاہم دہشت گرد اس واقعے سے بین الاقوامی سطح پربھی توجہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونے والے دہشت گرد کراچی اور حیدرآباد میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی شامل ہیں۔انھوں نے کہا کہ بس پر حملے میں رہ جانے والے ایک اہم ثبوت کے باعث ان دہشت گردوں کی گرفتاری ممکن ہوسکی ہے۔عمر خطاب نے کہا کہ وہ اس دہشت گرد گروپ کی گرفتاری کے لئے گذشتہ سال اپریل سے کام کررہے ہیں۔پولیس افسر کا کہنا ہے کہ آخری ثبوت نے ان دہشت گردوں تک پہنچنے میں مدد فراہم کی ہے جسے وہ اس وقت میڈیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کررہے۔

گرفتار ہونے والے 4 دہشت گردوں میں سے صفورہ بس حملے کے ماسٹر مائنڈ طاہر عرف سائیں کو گلشن معمار سے گرفتار کیا گیا ہے، یہ علاقہ حملے کے مقام سے کچھ ہی فاصلے موجود ہے۔سی ٹی ڈی حکام نے کہا ہے کہ ابتدائی طور پر ملزم تفتیش میں مدد نہیں کررہا تھا تاہم پولیس افسران کی جانب سے اس کے گھر والوں کی تفصیلات بتائے جانے کے بعد ملزم نے صفورہ بس حملے اور دیگر کارروائیوں کے حقائق بتانے شروع کردیئے۔

عمر خطاب نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ طاہر 2007 ء میں حیدرآباد پولیس کے ہاتھوں ہندو برادری کے فرد کو ہلاک کرنے اور اغوا برائے تاوان کی الزامات کے تحت گرفتار ہو چکا ہے تاہم بعد میں اس کو رہا کردیا گیا تھا۔ایس ایس پی ملیر راوٴ انوار نے گذشتہ دنوں طاہر کے بھائی شاہد کو جو کہ مبینہ طور پر دہشت گرد بتایا جاتا ہے، کو کراچی کے مضافات میں ایک مقابلے کے دوران ہلاک کردیا تھا۔

پولیس حکام کے مطابق صفورہ گوٹھ بس حملے کے گرفتار مرکزی ملزم سعد عزیز ٹرینگ حاصل کرنے کے لئے دو بار وزیرستان گیا تھا۔سعد اردو سے انگریزی میں پمفلٹ کا ترجمہ کرتا تھا اور سبین محمود کے چلائے جانے والے سوشل میڈیا فورم ٹی ٹو ایف کے سیمینار میں دو بار شریک ہوچکا تھا۔تیسرے دہشت گرد کے حوالے سے پولیس حکام نے بتایا کہ محمد اظفر عشرت کا تعلق ایک امیر گھرانے سے ہے اور وہ دورا جی کالونی میں رہائش پذیر تھا۔

پولیس حکام کے مطابق اس کا مذکورہ گھر دیگر دہشت گرد وں کوچھپانے کے لئے بھی استعمال ہوتا تھا جبکہ ملزم امریکی شہری ڈاکٹر لوبو پر حملے میں ملوث ہے۔سی ٹی ڈی کے حکام کے مطابق گرفتار ہونے والا چوتھا دہشت گرد حافظ ناصر، عمر حفیظ نامی شخص کا بھائی ہے جو کہ اس دہشت گرد گروپ میں نمبر ٹو پر ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم دہشت گردوں کو انتظامی مدد فراہم کرتا تھا اور دہشت گردوں کے ان کے خاندانوں سے رابطے کا ذمہ دار بھی تھا۔

عمر خطاب نے کہا کہ مذکورہ دہشت گرد گروپ 35 افراد پر مشتمل ہے اور ان میں سے بیشتر حیدرآباد میں دہشت گردی اور فرقہ وارانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ گروپ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچنے کے لئے موبائل فون کا استعمال نہیں کرتا اور نہ ہی دیگر جدید رابطے کے آلات استعمال کرتا ہے۔عمر خطاب نے کہا کہ ان ملزمان سے مزید تفتیش اور اس گروپ کے دیگر تنظیموں سے رابطے کے حوالے سے تحقیقات کے لئے بہت جلد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے گی۔

صفورہ واقع کی تفصیلات بتاتے ہوئے عمر خطاب نے کہا کہ حملے میں 12 ملزمان شامل تھے اور مختلف راستوں سے واقعے کے مقام تک آئے تھے۔انھوں نے کہا کہ جب بس اسماعیلی برادری کو لے کر الاظہر گارڈن سے نکلی تو انھوں نے موٹر سائیکل پر بس کا پیچھاکیا اور بس کو عنارہ گارڈن کے قریب روک کر پانچ ملزمان نے بس میں داخل ہوکر کارروائی کا آغاز کیا۔ملزمان نے بس کے ڈرائیور کو نشست سے ہٹا کر بس میں سوار لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی اور بعد میں ایک ایک فرد کے سر پر قریب سے گولیاں چلائیں۔عمر خطاب نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کے دہشت گردوں نے ان کارروائیوں کے لئے رقم اغوا برائے تاوان کی وارداتوں سے حاصل کی ہے۔