انتخابی دھاندلی ،جوڈیشل کمیشن نے سابق اورموجودہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کوپیرکے روزطلب کر لیا،پرنٹنگ کارپوریشن کے سابق سیکرٹری پرجرح 26مئی کوکی جائیگی ،تحریک انصاف نے مزید گواہوں کی فہرست کمیشن کے روبروجمع کروادی ،نئی ترمیم شدہ فہرست میں 12گواہوں کے نام شامل،فافن کے ہیڈ آف پروگرامز مدثر رضوی پر جرح مکمل، الیکشن کسی بھی حکومتی اہلکار یا سیاسی شخصیت کی کوئی فون کال یا دھمکی نہیں ملی، سردار ایا ز صاد ق کی این اے122 کی رپورٹ سے متعلق فون کال آئی جس میں پر اظہار برہمی کیا گیا ، مدثر رضوی

ہفتہ 23 مئی 2015 06:59

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23 مئی۔2015ء)جوڈیشل کمیشن نے انتخابات 2013میں مبینہ انتخابی دھاندلی سے متعلق مزیدجرح کے لیے سابق اورموجودہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کوپیرکے روزطلبکر لیا جبکہ سابق الیکشن کمشنر بلوچستان اورپرنٹنگ کارپوریشن کے سابق سیکرٹری پرجرح منگل 26مئی کوکی جائیگی تحریک انصاف نے اپنے گواہوں کی فہرست مزید طویل کرتے ہوئے کچھ اورگواہوں کی فہرست کمیشن کے روبروجمع کروادی ہے نئی ترمیم شدہ فہرست میں 12گواہوں کے نام شامل کیے گئے ہیں ان میں نادراڈائریکٹر سید مظفرعلی ،مقصود علی ،غزالی زاہد،نعمان احمد،احمدوقار،فہیم احمد،عبدالواحدقریشی ،محمدمقتدر،سابق سیکرٹری پرنٹنگ کارپوریشن نعیم اختر،سابق الیکشن کمشنربلوچستان ،سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمدخان اورموجودہ سیکرٹری الیکشن کمیشن شامل ہیں سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے فافن کے ہیڈ آف پروگرامز مدثر رضوی پر جرح مکمل کرلی۔

(جاری ہے)

جمعہ کو جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کی سماعت کے دوران فافن کے ہیڈ آف پروگرامز مدثر رضوی کا کہنا تھا کہ فافن کا مقصد انتخابات کے عمل کو شفاف بنانا ہوتا ہے اور اس مقصد کے لئے ہمارے 40 ہزار مبصرین نے انتخابات میں کام کیا اور الیکشن کمیشن کی اجازت سے 38 ہزار 274 پولنگ اسٹیشنز کا دورہ کیا اور انتخابات سے متعلق 47 سے زائد رپورٹس شائع کیں۔

اس موقع پر تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے سوال کیا کہ کیا انتخابات کے بعد کسی حکومتی اہلکار یا سیاسی شخص سے کوئی دھمکی ملی جس پر مدثر رضوی کا کہنا تھا کہ کسی بھی حکومتی اہلکار یا سیاسی شخصیت کی کوئی فون کال یا دھمکی نہیں ملی تاہم اسپیکرقومی اسمبلی کی این اے122 کی رپورٹ سے متعلق فون کال آئی جس میں انہوں نے فافن کی رپورٹ پر اظہار برہمی کیا تھا۔

تحریک انصاف کے وکیل نے سوال کیا کہ آپ کو یاد ہے کہ آپ نے کتنے پولنگ اسٹیشنز کا مشاہدہ کیا جس پر مدثر رضوی نے جواب دیا کہ انتخابات سے قبل، انتخاب کے دن اور انتخاب کے بعد مشاہدہ کیا، عبدالحفیظ پیرزادہ نے سوال کیا کہ کیا انتخابی عمل کے دوران کوئی رپورٹ مرتب کی جس پر مدثر رضوی نے کہا کہ 6 ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹ فافن نے انکوائری کمیشن میں جمع کرائی جو رپورٹس مرتب کیں وہ انکوائری کمیشن کے پاس ہیں۔

فافن کے مدثر رضوی پیش ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ انتخابات سے متعلق غیر سرکاری تنظیم کے ہینڈ آف پروگرام میں اس عہدے پر 9 سال سے کام کر رہا ہوں میں نے فافن کی طرف سے 2008 اور 2013ء کے انتخابات کے دوران مبصر کے طور پر کام کیا 2008ء میں ہمارے 18 ہزار افراد نے انتخابات کو مانیٹر کیا۔ انتخابات کے بعد 29 جلدوں پر مشتمل رپورٹ کمیشن میں پیش کی 2008ء کی رپورٹ 6 ہزار صفحات پر مشتمل تھی چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے 6 ہزار صفحات خود پڑھے تھے۔

مدثر نے کہا کہ میں نے انتخابات سے متعلق رپورٹ کی سمری پڑھی تھی۔ف افن 42 پاکستانی این جی اوز پر مشتمل ہے فافن کو ایک ٹرسٹ کے ذریعے چلایا جاتا ہے فافن کا ایک مقصد انتخابات کے عمل کی کوالٹی کو بہتر بنانا ہے۔ ہم ووٹر کو ووٹ سے متعلق تعلیم دینے اور ووٹ سے متعلق آگاہی بھی کرتے ہیں۔ فافن نے 2013ء کے انتخابات کو بھی ریزرو کیا سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے میرے بیانات پر ٹیلی فون کر کے غصے اور دکھ کا اظہار کیا وہ اس بارے این اے 122 سے متعلق فافن کی رپورٹ پر خوش نہیں تھے۔

فافن نے انتخابات کے عمل کی نگرانی انتخابی عمل سے شروع ہو کر اختتام تک کی‘ 2013ء میں فافن کے 40 ہزار ریزرو تھے۔ 38 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن پر تعینات تھے ان کو الیکشن کمیشن نے کارڈ جاری کیا تھا۔ پولنگ اور نتائج کے عمل کی نگرانی کی۔ 42 رپورٹس پری پول الیکشن سے متعلق تھی۔ فافن نے 1 رپورٹ انتخابی پولنگ دن کے حوالے سے تیار کی فافن اپنی رپورٹ انکوائری کمیشن کو دے چکا ہے۔

انتخابی اصلاحات سے متعلق سفارشات بھی الیکشن کمیشن کو ارسال کیں فافن نے اپنی سفارشات اکتوبر 2014ء کو بھجوائی پیرزادہ نے کہا کیا آپ نے انتخابی گنتی سے متعلق فارم 14 کا جائزہ لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فارم 14 کا جائزہ مدثر رضوی از خود کیسے لے سکتے ہیں مدثر نے کہا کہ میں نے ذاتی طور پر فارم 14 کا جائزہ نہیں لیا۔ ہمارے ریزرورز نے 39 ہزار سے زائد فارم 14 کا جائزہ لیا اور ہمیں رپورٹ بھجوائی۔

پیرزادہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اعلامیہ کے ذریعے ایف جی اور میڈیا کو فارم 14 اور 15 تک رسائی دی۔ مدثر نے کہا کہ فارم 14 کی مصدقہ کاپی ریٹرننگ افسران کے ذریعے حاصل کیں۔ فافن نے 161 حلقوں کے فارم 14 کی مصدقہ کاپی حاصل کی بعض حلقوں کے فارم 14 ریٹرننگ افسران نے دینے سے انکار کیا ریٹرننگ افسران کے انکار کے بعد الیکشن کمیشن اور محتسب کو درخواست دی محتسب نے ہمارے حق میں فیصلہ دے کر 15 دن میں فارم 14 الیکشن کمیشن کو فراہم کرنے کا حکم دیا۔

میرے خلاف 16 مقدمات لاہور 2 مقدمات رحیم یار خان میں درج ہوئے یہ مقدمات مئی 16 2013ء کے بعد درج کرائے گئے۔ یہ مقدمات راہ چلتے بندوں کے ذریعے کرائے گئے‘ تمام مقدمات میں تقریباً الزامات ایک جیسے ہیں پیرزادہ نے کہا کہ یہ مقدمات اس وقت درج ہوئے جب مدثر رضوی انتخابی فارمز کی نقول حاصل کر رہے تھے۔ مدثر نے کہا کہ مجھے ہکومتی کوارٹر سے کوئی کال نہیں آئی ایاز صادق نے جو پہلے سپیکر قومیا سمبلی نہیں تھے این اے 122 سے متعلق ہماری رپورٹ پر تحفظات کا اظہار کیا اور غصہ بھی کیا۔

شاہد حامد نے پوچھا کہ ایاز صادق نے جب کال کی تھی کیا وہ اس وقت سپیکر قومی اسمبلی تھے اس پر مدثر نے بتایا کہ وہ سپیکر قومی اسمبلی نہیں تھے۔ میں پہلے ادارے کا سربراہ تھا بعد ازاں قانونی پیچیدگیوں کی بنیاد پر میری تنزلی کر دی گئی فافن بذات خود رجسٹرڈ ادارہ نہیں ہے۔ فافن ایک قانونی ادارہ نہیں فافن کے پاس این ٹی این نمبر بھی نہیں ہے فافن کو فنڈنگ امریکہ‘ برطانیہ یورپ کی امدادی ایجنسیوں سے آتی ہیں۔

فافن ٹی ڈی ای اے کا پروگرام ہے۔ فافن بطور ادارہ ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ یہ ٹرسٹ جمہوریت‘ تعلیم اور احتساب کے لئے بنایا گیا ہے۔ حلقہ این اے 122 کی رپورٹ ہم نے تیار کی فارم نمبر 14‘ 15 ‘ 16 کے حوالے سے پریس ریلیز جاری کی۔ 161 حلقوں کی 96 ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کی این اے 119 کے حوالے سے ریٹرننگ افسران سے رابطہ کیا مگر رپورٹ نہ مل سکی۔کمیشن نے مزید کارروائی پیرتک کے لیے ملتوی کردی ۔