این آ ر او کیس میں سپریم کورٹ کے قانونی نکات غیر متعلقہ تھے،جسٹس ثاقب نثار ،وفاقی حکومت کی جانب سے این آر او کو غلط تسلیم کر لینے کے باوجود عدا لت نے غیر ضروری طور پر 350 صفحات پر فیصلہ لکھ ڈالا،بھارتی آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق حقیقی ہیں ہمارے صرف قانون کی حد تک ہیں،جسٹس آصف سعید خان کھوسہ ،اسلامی تاریخمیں مشاورت کا ذکرہے پارلیمنٹ کا نہیں،ججزکے ئینی ترمیم کیس میں ریمارکس

بدھ 20 مئی 2015 06:23

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20 مئی۔2015ء) سپریم کورٹ میں 18 ویں اور 21 ویں آئینی ترمیم کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے این آر او کو غلط تسلیم کر لینے کے باوجود سپریم کورٹ نے غیر ضروری طور پر 350 صفحات پر مشتمل فیصلہ لکھ ڈالا اور ایسے ایسے قانونی نکات اٹھا دیئے جو سراسر غیر متعلقہ تھے۔

جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اپنے معاملات میں ہم بھارتی آئین کا سہارا لینے کی کیوں کوشش کر رہے ہیں جبکہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ بھارتی آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق حقیقی ہیں جبکہ ہمارے ہاں یہ حقوق صرف قانون کی حد تک ہیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے صرف آئین کے آرٹیکل 175 میں ترمیم کی گئی کسی اور آرٹیکل کو نہیں چھیڑا گیا۔

(جاری ہے)

حکومت کا یہ عام معمول ہے کہ وہ آرڈیننس کا اختیار غلط طور پر استعمال کرتی ہے۔ ججز کے تقرر میں اگر چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات پر جہاں قدغن لگائی گئی وہاں اب یہ اختیار وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ‘ گورنرز اور صدر مملکت کے پاس بھی نہیں رہا۔ جبکہ خالد انور نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں حکومت کے کہنے کے باوجود کہ سپریم کورٹ کو عدالتی نظرثانی کا اختیار ہے سپریم کورٹ نے پھر بھی بنیادی آئینی ڈھانچے سے تصادم ترمیم اڑا کر رکھ دی۔

پارلیمانی کمیٹی کا قیام سود مند ہے پہلے ججز کے تقرر کا اختیار فرد واحد کے پاس تھا انہوں نے دلائل چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17 رکنی فل کورٹ بنچ کے رو برو منگل کے روز دیئے ہیں عدالت نے دو روز میں خالد انور کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت بھی جاری کر دی ہے۔ بنیادی آئینی ڈھانچے کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے وکیل خالد انور نے دلائل کا آغاز کیا اور انہوں نے آرٹیکل 211 اور 212 کا تذکرہ کیا اگر دائرہ کار کے بارے میں کوئی پابندی آڑے آتی ہے تو سپریم کورٹ جانتی ہے کہ وہ فیصلے کر سکتی ہے۔

21 ویں ترمیم فوجی عدالتوں کے حوالے سے ہے 199 میں بھی ہائی کورٹ کے دائرہ کار میں فوجی عدالتیں نہیں دی گئیں۔ 212 آرٹیکل میں کوئی خاص ترمیم نہیں کی گئی۔ اس میں ایک سے زائد کورٹس اور ٹربیونلز بنانے کی اجازت دی گئی۔ تمام تر حکومتی ایکٹس کے حوالے سے اختیار دیا گیا ہے۔ اگر حکومتی ملازم قانون کی خلاف ورزی کرے تو اس دوران اگر ٹربیونل موجود ہو تو عدالت آنے کی ضرورت نہیں اس ٹربیونل سے رجوع کرنا پڑے گا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کورٹس اور ٹربیونل میں کیا فرق ہے؟ خالد انور نے کہا کہ کوئی خاص فرق نہیں ہے تاہم ٹربیونل مخصوص معاملات پر بنائے جاتے ہیں ان کا دائرہ کار بھی محدود ہوتا ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ آئین نے صرف کورٹس کا ہی تذکرہ کیا ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کیا یہ دونوں ایک دوسرے کی تبدیلی کا بھی مظہر ہیں دونوں کا کام انصاف کی بے لاگ فراہمی ہے۔

جسٹس آصف نے کہا کہ جن مقدمات میں حلف پر شہادت دی جاتی ہے وہ عدالت کہلاتی ہیں جبکہ باقی ٹربیونل کہلاتے ہیں۔ آئین نے فرق روا رکھا ہے تو اس کی کوئی وجہ بھی ہو گی۔ خالد انور نے انکم ٹیکس ٹربیونلز کا بھی تذکرہ کیا یہ کبھی بھی روایت نہیں رہی کہ ٹربیونل اور عدالت میں فرق روا رکھا گیا ہو۔ قانونی طریقہ کار ہے تمام تر ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے ہیں۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے صرف آئین کے آرٹیکل 175 میں ترمیم کی گئی۔ ملٹری کورٹس الگ معاملہ ہے باقی معاملات میں مداخلت نہیں کی گئی۔ خالد انور نے کہا کہ عدالت کے اضافی اختیارات پر قدغن نہیں لگائی گئی۔ جوڈیشل اختیارات کے معانی عدالت کے اختیارات ہیں جو وہ کبھی بھی استعمال کر سکتی ہیں۔ صرف اس وقت جوڈیشل اختیارات سے روکا جائے گا جب عدالتوں کو تباہ کرنا مقصود ہو۔

آرٹیکل 212 میں سپریم کورٹ کو خصوصی اختیار دیا گیا ہے جب کسی بھی ٹربیونل کے خلاف کوئی اپیل سپریم کورٹ آتی ہے تو وہ اس کی سماعت کا حق رکھتی ہے بنیادی حقوق کا معاملہ یا عوامی اہمیت کا معاملہ بھی عدالت کے اختیار کو بڑھاتا ہے۔ انصاف کی فراہمی میں عدالت اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ اس وقت مداخلت کر سکتی ہے جب عوامی اہمیت کا معاملہ ہو۔

حقائق پر کوئی اپیل دائر نہیں ہو سکتی آرٹیکل 213 بھی پڑھ کر سنایا۔ جمہوریت کے لئے انتخابات انتہائی اہم ہیں انتخابات جمہوریت کا دل ہیں اگر انتخابات نہیں ہوئے تو کوئی جمہوریت نہیں آئے گی۔ یہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ کہاں لکھا ہوا ہے اصل آئین میں بھی نہیں ہے۔ خالد انور نے آرٹیکل 2A کا بھی تذکرہ کیا۔ آرٹیکل 215 میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے حکومت کو 3 نام پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کرنا ہوتے ہیں جس میں ایک کا وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مشاورت سے فیصلہ کرتے ہیں۔

حقیقت میں صرف چیف الیکشن کمشنر ہوتا تھا مگر اب یہ عہدہ مستقل کر دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 224 بھی پڑھ کر سنایا۔ منصفانہ‘ شفاف الیکٹورل پراسس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ 1973ء کے آئین میں نگران کابینہ کا تذکرہ نہیں تھا مگر 224 (I) میں اب اس کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ خالد انور نے 1973ء کے آئین میں کئی آرٹیکلز میں کی گئی ترامیم بارے تفصیل سے دلائل دیئے اور موازنہ کیا۔

انہوں نے 89 کے تحت اختیارات کی تقسیم بارے بتایا گیا ہے امریکہ میں صدر کانگرس کے باوجود کام نہیں کر سکتا جبکہ پاکستان میں صدر مملکت آرڈیننس جاری کر سکتا ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر کے آرڈیننس کا اختیار استعمال کیا جاتا ہے۔ خالد انور نے 1962ء میں آرڈیننس میں اختیارات دیئے گئے جس کو 1973ء میں بھی شامل کیا گیا 1956ء اس میں قدرے محتاط تھا۔

اگر آرڈیننس کو 120 دن گزر چکے ہیں تو وہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ یہ عام پریکٹس ہے کہ حکومتیں آرڈیننس کے اختیار کا غلط استعمال کرتی ہے۔ خالد انور نے کہا کہ ہمارے ملک میں اختیارات کی تنسیخ کا استعمال بغیر کسی لالچ کے اور غیر ضروری اور بے قاعدگی سے کیا جاتا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بھارتی آئین میں اس بارے میں کیا کہا گیا ہے جسٹس جواد نے کہا کہ 1935ء کے ایکٹ میں آرڈیننس بارے کیا کہا گیا ہے۔

خالد انور نے کہا کہ اس کو دیکھنا پڑے گا۔ انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی بعض تقاریر کا بھی حوالہ دیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ 89 کہتا ہے کہ آرڈیننس صرف ایک بار دہرایا جاتا ہے اور اب اس بارے میں کہا جاتا ہے کیا فریش آردیننس جاری ہو سکتا ہے یا نہیں۔ خالد انور نے کہا کہ یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آرڈیننس کا استعمال بلاواسطہ یا بالواسطہ نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ بھارت میں قرار دیا گیا ہے کہ آردیننس کا دوبارہ اجراء قانون کے ساتھ فراڈ ہے۔ خالد انور نے کہا کہ آپ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اس سے ریاست کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستانی پرچم میں سبز رنگ مسلمانوں کے لئے جبکہ سفید اقلیتوں کے لئے رکھا گیا۔ جمہوریت کا تصور بھی اسلامی تعلیمات سے لیا گیا ہے جہاں مشاورت کی بات کی گئی ہے۔

قائد اعظم کا کہنا تھا کہ جمہوریت بارے ہمیں اسلام کی تعلیمات سے تصور لیا گیا ہے پاکستان کبھی بھی مولویوں کا ملک نہیں بنے گا۔ ایران مولویوں کا ملک ہے جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ان کو چھوڑ کر آپ آگے بات کریں سٹیٹ بنک کے افتتاح کی تقریر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ مگر آپ چھوڑیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کیا کہیں گے کہ آئین میں کی گئی تبدیلیاں کیا بنیادی آئینی ڈھانچے کو تقویت دیتا ہے یا اس سے نقصان ہوا ہے۔

آئین میں ہونے والی تبدیلیوں کو آپ آئینی ڈھانچے میں بھی تبدیلی قرار دیتے ہیں یا نہیں؟ خالد انور نے کہا کہ تبدیلی تو آئے گی مگر کوئی خاص نہیں ہو گی جمہوریت کی ماضی میں ناکامی بارے میں مطالعہ کیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ کیا آپ نے بنیادی تبدیلی محسوس کی ہے یا نہیں خالد انور نے کہا کہ اسلام ہر طرح کی رہنمائی فراہم کرتا ہے اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور عوام دیئے گئے اختیار کو استعمال کرتا ہے۔

اگر آئینی ڈھانچہ ایسا ہے کہ شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے تو پھر یہ تبدیلی نہیں ہے۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ آپ نے بنیادی آئینی ڈھانچے کے دو تصور دیئے ہیں کیا یہ تصورات مضبوط ہوتے ہیں یا ان کے خلاف ورزی ہوئی ہے کیا پارلیمنٹ کو اس طرح کا کوئی اختیار مل گیا ہے کہ وہ بنیادی آئینی ڈھانچے سے ہٹ کر کوئی اختیار استعمال کر سکے۔ خالد انور نے کہا کہ اگر بات صرف پڑھنے کی حد تک ہے تو کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے اگر بات فعال ہونے کی ہے تو تبدیلی آتی ہے۔

عدلیہ مقننہ انتظامیہ ہمارے آئینی بنیادی ڈھانچے کے تین ستون ہیں ان میں تبدیلی نہیں آئی مگر ان کو چلانے میں تبدیلی آئی ہے۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ کیا آپ ایک مثال دے سکتے ہیں کہ جس سے فرق آیا ہو۔ خالد انور نے کہا کہ جمہوریت کا حوالہ دوں گا۔ بھارتی پارلیمنٹ کی بات کروں گا وہاں آئین و قانون میں کسی طرح سے بھی ماورا کوئی اقدام کیا جا سکے۔

آئین میں بگاڑ صرف امر کرتے ہیں پارلیمنٹ صرف ختم کر سکتی ہے۔ 175 اے کے تحت جوڈیشل کمیشن کا قیام ججوں کی اکثریت پر مشتمل ہے سوال یہ اٹھتا ہے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے کیا فرق پڑا ہے تو اس میں بہت بڑا فرق آیا ہے۔ ججوں کا تقرر اصل آئین میں صرف انتظامیہ کا اختیار تھا جو وہ مرضی کرتی تھی کر لیتی تھی اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کا تقرر سوائے چیف جسٹس کے سب انتظامیہ کے پاس تھا چیف جسٹس کے اختیارات پر 18 ویں ترمیم نے کچھ قدغن لگائی ہے۔

اسلامی تاریخ دیکھیں تو مشاورت کا ذکر تو موجود ہے پارلیمنٹ کا کہیں ذکر نہیں جو خلیفہ ہو گا اس پر مشاورت ہو گی پاکستان میں 18 ویں ترمیم میں صرف ایک شخص کو تقرر کا اختیار نہیں دیا گیا وہ غلطی بھی کر سکتا تھا۔ جسٹس آصف نے کہا کہ اگر چیف جسٹس کے ہی اختیارات لئے گئے ہیں تو اب وزیراعظم‘ وزراء‘ گورنرز اور صدر تک کا اختیار نہیں رہا ہے اب صرف ان کا ایک محدود کردار ضرور رکھ دیا گیا ہے اور اب سب مل کر ہی یہ تقرری کرتے ہیں۔

خالد انور انتظامیہ اور عدالیہ کے درمیان تعلقات ہمیشہ پریشانی کا سبب رہے جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ 1996ء میں وزارت داخلہ اور عدلیہ کے درمیان معاملہ رہا عدلیہ نے داخلہ کا حکم ختم کر دیا۔ اب لگتا ہے کہ ان میں بھی دوستی ہو گئی ہے خالد انور نے کہا کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان اب تعلقات بہتر ہو گئے ہیں۔ پارلیمنٹ کے بغیر کوئی جمہوریت نہیں آ سکتی۔

عیر قانونی اقدامات باقی نہیں رکھے جا سکتے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ججز کے تقرر میں پارلیمانی کمیتی کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ خالد انور نے کہا کہ پوری دنیا میں پاکستان سے زیادہ عدلیہ کسی ملک کی مضبوط نہیں ہے کسی ملک میں بھی اتنے اختیارات عدلیہ کو نہیں دیئے گئے کہ وہ ججز کا تقرر کر سکتے۔ آسٹریلیا میں اٹارنی جنرل وزیراعظم اور کابینہ کے نام حاصل کرتا ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی ججز بارے مشاورت سے تقرر کرتا ہے جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ کامن ویلتھ کے ممالک میں ہائی کورٹس کو ماتحت عدالیہ قرار دیا گیا ہے۔

جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ ہم نے عدلیہ کو زیادہ اختیار دیا ہے اب دوسرے ملکوں کو اس کی پیروی کرنا چاہئے پارلیمانی کمیٹی کے کردار پر ضروری دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کو ججز کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن سے زیادہ اختیار دیا گیا ہے جسٹس دوست محمد نے کہا کہ جہاں جہاں پارلیمنٹ کا کیا کردار ہے وہاں کا بتایئے۔ خالد انور نے بنگلہ دیش‘ کینیڈا کا تذکرہ کیا۔

وہاں انتظامیہ کو اختیار دیا گیا ہے جرمنی میں ججوں کا تقرر ایوان بالا دو تہائی اکثریت سے کرتا ہے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی رکھی گئی ہے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جرمن نظام تو اچھا نہیں مگر ان کے سکالر اچھے ہیں۔ خالد انور نے کہا کہ بھارت میں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ نیوزی لینڈ میں اٹارنی جنرل مشاورت رکھی گئی ہے۔ جنوبی افریقہ میں جوڈیشل کمیشن رکھا گیا ہے اس حوالے سے 3 ممبران رکھے گئے ہیں 6 ممبران قومی اسمبلی سے لئے جاتے ہیں صدر چیف جسٹس اور ڈپٹی چیف کا تقرر کرتا ہے برطانیہ میں کمیشن ججز کا تقرر کرتا ہے۔

3 بار مشاورت ہوتی ہے امریکہ میں ججوں کا تقرر سب سے زیادہ دنیا میں سیاست زدہ نظام ہے۔ سینٹ کمیٹی میں پہلی رپورٹ سے تقرر کا آغاز آتا ہے اس کے 17 ممبران ہیں جبکہ نامزد لوگ آتے ہیں ان کو کٹہرے میں کھڑا کر کے قسم اٹھوائی جاتی ہے کہ وہ سچ بولیں گے جسٹس آصف نے کہا کہ 20 سال بطور جج کام کرنے کے بعد بھی امریکہ میں ہر جج کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ دیمو کریٹک پارٹی کا جج ہے یا ریبپلیکن کا ہے۔

خالد انور نے کہا کہ ہمارے ہاں پارلیمانی پارٹی نامزدگی نہیں کرتی۔ پارلیمانی کمیٹی کسی نام کو مسترد کر دیتی ہے تو جوڈیشل کمیشن کسی اور کو مقرر کر دیتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کو ججز کے تقرر میں مالکوں کا کردار دے دیا گیا ہے جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ منیر بھٹی کیس دیکھ لیں اگر پارلیمانی کمیٹی کسی جج کے لئے گئے نام کو مسترد کر دیتی ہے تو اس کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے۔

جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ کیا پارلیمانی کمیٹی صرف دکھاوے کے لئے ہے؟ جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ پاکستانی لوگ اسٹیک ہولڈرز ہیں اگر وہ تحفظات کا اظہار کرتے ہیں تو عدلیہ جائزہ لے سکتی ہے۔ خالد انور نے کہا کہ جج انصاف دیتا ہے یا نہیں عام آدمی کو عدلیہ کی آزادی بارے علم نہیں ہے اس میں حرج کیا ہے کہ کسی جج کو کہہ دیا جائے وہ انصاف نہیں دے گا۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ کوئی ایسی اسٹڈی مطالعہ ہے کہ جن لوگوں کو پارلیمانی کمیٹی نے مسترد کر دیا اور اب وہ کام کر رہے ہیں تو وہ کس طرح سے نظام چلا رہے ہیں؟ خالد انور نے کہا کہ اگر ایک سال پریکٹس نہ کی جائے اور جج بن جائے بعد میں وہ فارغ ہو جائے تو پھر وہ پریکٹس سے بھی جاتا رہے گا کسی کے قابل ہونے یا نہ ہونے بارے 1 سال کا عرصہ بہت زیادہ ہے۔

اس کو سمجھنے کے لئے تھوڑا عرصہ بھی کافی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات کا جائزہ لے رہے ہیں آرٹیکل 175A کے سب آرٹیکل 12 کا جائزہ لیں کہ پارلیمانی کمیٹی 14 روز نامزد افراد کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گی۔ مسترد کرنے کی وجوہات بھی بتانا پڑیں گی اکثریتی رائے سے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر کمیٹی کسی نامزد کو منظور نہیں کرتی تو اس حوالے سے وزیراعظم کے ذریعے وجوہات بتانا پڑیں گی۔

وہ سادہ سا بھی تو کہہ سکتے تھے کہ ہم اس کو مناسب نہیں سمجھتے اس کی وجوہات کمیشن کو بھجوانے کی کیا ضرورت رکھی گئی ہے۔ کمیشن کسی اور کو نامزد کرے گا۔ وجوہات دینے کے بعد بھی معاملہ ختم نہیں ہوتا اس ایکسرسائز کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا مقصد جوڈیشل کمیشن کے روبرو اس پر دوبارہ مشاورت کرتا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی ایک اہم فنگشن ادا کر رہی ہے۔

منیر بھٹی کیس بھی ایک مسئلہ پیدا کرتا ہے وہ ایک اختلافی فیصلہ ہے پارلیمانی کمیٹی کی سماعت ان کمیرہ ہوتی ہیں ہر پارلیمنٹیرین کا احترام کرتے ہیں ملک انہوں نے بتایا آمروں نے نہیں کیا پارلیمانی کمیٹی کی وجوہات برقرار رکھی جا سکتی ہیں یا نہیں۔ منیر بھٹی کیس کا فیصلہ کھلی مداخلت ہے۔ خالد انور نے کہا کہ منیر بھٹی کیس کا تفصیل سے فیصلہ نہیں کر سکا۔

میں آپ کی سپورٹ کرتا ہوں جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ انہوں نے اچھا پوائنٹ اٹھایا ہے اس سے قبل یہ بات نہیں کی گئی تھی میں نے یہ فیصلہ لکھا ہے جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ منیر بھٹی اچھا اضافہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پارلیمانی کمیٹی کسی نامزدگی کو بغیر کسی وجوہات کے مسترد کر دیتی ہے اور اگر وہ جوڈیشل کمیشن کو دوبارہ جائزے کے لئے بھجواتی ہے تو محض ہم نے اس کو مسترد کر دیا ہے آپ بھی دیکھ لیں۔

خالد انور نے بھارتی آئین کے بعض آرٹیکلز کا بھی حوالہ دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دو روز آپ کو سن چکے ہیں آپ کے پاس جمعرات تک کا وقت ہے کہ دلائل مکمل کر لیں۔ خالد انور نے کہا کہ وہ کوشش کریں گے کہ دلائل مکمل کر سکیں۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 13 کا حوالہ دیا۔ اس میں بنیادی حقوق کا تذکرہ ہے۔ بنیادی حقوق کو محدود کرنے بارے کی گئی ترمیم کو کالعدم قرار دیا گیا۔

آئین کے تحت دیئے گئے بنیادی حقوق میں ترمیم نہیں کی جا سکتی بھارتی آئین میں ترمیم کی گئی اور آرٹیکل میں ترمیم کر لی گئی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ 175 آرٹیکل سے ملتا جلتا کوئی آرٹیکل بھارتی آئین میں موجود ہے کیونکہ ہمارے ہاں آئین اور قانون میں فرق بیان کیا گیا ہے۔ خالد انور نے کہا کہ ایسا کوئی آرٹیکل براہ راست موجود نہیں۔ بھارتی آئین میں جوڈیشل اختیارات واضح ہیں دو طرح کے عدالتی اختیارات ہیں ایک ہائی کورٹس کے پاس ہیں انتظامی احکامات کو غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے۔

دوسرا بنیادی حقوق کے معاملات ہیں جن میں ایکٹ وغیرہ آجاتے ہیں کیسا ولندا بھارتی نے تیسری قسم بھی پیدا کر دی۔ جو آئین کے بنیادی آئینی ڈھانچے کی بات کی گئی ہے جس میں سپریم کورٹ کو بھارت میں اختیار دیا گیا ہے کہ از خود پیدا کردہ اختیار ہے جو کسی بھی ترمیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ اگر بنیادی آئینی ڈھانچے کو متاثر کئے بغیر عدالت اپنا کوئی اختیار پیدا کرتی ہے تو اس کو تسلیم کرتا ہوں۔

امریکی قانون کہتا ہے کہ اس ملک میں بادشاہت قائم نہیں ہو سکتی اس لئے چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کیا۔ امریکی آئین بنانے والوں نے بعض تصورات برطانوی آئین سے لئے ہیں۔ اختیارات کی تقسیم ایک اہم معاملہ ہے۔ عدلیہ انتظامیہ اور مقننہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم بارے باہم احترام ہونا چاہئے۔ 13 آزاد ریاستوں نے اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے تصور نے امریکہ کو اس سے ہٹ کر آئین بنانے پر آمادہ کیا کہ کوئی ان کے ملک پر قبضہ نہ کر سکے۔

فیڈرل لاء کا تصور اختیار کیا گیا۔ بھارت نے ترمیم کی پارلیمنٹ نے اعلیٰ عدلیہ کے اختیار کو تسلیم کیا انتظامیہ مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات کیا ہیں؟ اس کا جائزہ لیا گیا۔ عدلیہ قانون بنا یا نافذ نہیں کر سکتی یہ صرف نگرانی کر سکتی ہے۔ اگر عدلیہ کے پاس آئین میں ترمیم کو چیک کرنے کا اختیار ہے تو یہ بنیادی طور پر غلط ہے۔ یہ قانون کی حکمرانی کے خلاف ہے۔

جنہیں قانون بنانا ہے تو وہ غلط قانون نہ بنائے۔ عدلیہ خود کو طاقتور بنانے کا اختیار نہیں رکھتی۔ انہوں نے بھارتی آئین کا آرٹیکل 31 پڑھ کر سنایا۔ ملکی پالیسیوں کو متاثر کرنے والا کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ ہمارے ملک نے بھی اس کے اس آرٹیکل کو اپنا رکھا ہے۔ آرٹیکل 19 میں مختلف حقوق دیئے گئے ہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے ہاں کے بنیادی حقوق قوانین کے تحت دیئے گئے ہیں جبکہ بھارت میں یہ حقوق حقیقت میں دیئے گئے ہیں۔

خالد انور نے کہا کہ اگر کوئی قانون بدنیتی پر مبنی ہو تو عدالت اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ صرف ایک پہلو جس کے تحت سپریم کورٹ کے اختیار کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل کو کہنا پڑا کہ عدالت اس ڈیکلریشن کو کالعدم قرار دینے کا اختیار رکھتی ہے کیونکہ آئین سازی کی نگرانی کرتی ہے۔ پاکستان میں 5 منٹ میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ڈیکلریشن نہیں بنتا۔

دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ باتیں کیا ہو رہی ہیں اور فیصلہ کیا ہو رہا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے 31(C) مکمل طور پر اڑا دیا کیونکہ اس سے عدلیہ کے اختیارات پر قدغن لگتی تھی۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام بارے 21 ویں ترمیم کے تحت ہم بنیادی آئینی ڈھانچے کا جائزہ لے سکتے ہیں خالد انور نے کہا کہ اس حوالے سے وہ بعد میں بات کریں گے جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ کیسا ولندا بھارتی کیس میں عدالت نے اس طرح کے کسی اور آئینی ترمیم سے روکنے کے لئے فیصلہ جاری کیا تھا۔

21 ویں ترمیم میں بھی کسی اور ادارے کو تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس اقدام کو بذات خود آئین نے کوئی تحفظ نہیں دیا ہے۔ آئین کے تحت تحفظ یا آئین کے از خود تحفظ کا جائزہ لینا ہے۔ 21 ویں ترمیم میں قانون کو تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ 18 ویں ترمیم کا وجود ہی آئین سے ہے۔ خالد انور نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے کیسا ولندا کیس میں کہا کہ 31(c) بنیادی آئینی ڈھانچے کو متاثر کرتا ہے یا نہیں ہم پھر بھی اس کو عدلیہ کی آزادی کے مترادف قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیتے ہیں۔

جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ہم بھارتی آئین کا سہارا کیوں لے رہے ہیں جس کا ہمارے آئین سے کوئی تعلق نہیں ہے جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ این آر او کے مقدمے میں ہم نے بھی فیصلہ دے دیا اور غیر ضروری طور پر ساڑھے 3 سو صفحے لکھ ڈالے جبکہ حکومت نے تو از خود ہی تسلیم کر لیا تھا کہ یہ این ار آو غلط ہے اور ایسے ایسے قانونی نکات اٹھا دیئے جو غیر متعلقہ تھے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج بدھ تک ملتوی کر دی۔