جوڈیشل اصلاحات ،فیملی لاز میں فیصلہ چھ ماہ میں دیا جائے گا،پرویز رشید ، کسی شخص کو بے جا میں دینے کا اختیار ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کے پاس بھی ہوگا ججوں کی مراعات میں اضافہ کردیاگیا ہے،پولیس اصلاحات میں تبدیلیاں لارہے ہیں،بے جا مقدمہ بازی کی روک تھام کا بل2011ء لارہے ہیں جبکہ سینیٹ میں بھی قانون کی فراہمی کیلئے ارکان سینیٹ سے تجاویز کیلئے بھی آج کمیٹی بنائی جائے گی، سینٹ میں اظہار خیال، عدلیہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جب تک عدلیہ مستحکم نہیں ہوگی ادارے مستحکم نہیں ہوں گے،چئیرمین سینٹ کے ریمارکس

منگل 19 مئی 2015 06:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔19 مئی۔2015ء) وفاقی وزیر وزیر اطلاعات ،قانون وانصاف پرویز رشید نے کہا ہے کہ جوڈیشل اصلاحات کو اختیار کیا جا چکا ہے فیملی لاز میں ترامیم کرکے فیصلہ چھ ماہ میں دیا جائے گا ،کسی شخص کو بے جا میں دینے کا اختیار ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کے پاس بھی ہوگا ججوں کی مراعات میں اضافہ کردیاگیا ہے،پولیس اصلاحات میں تبدیلیاں لارہے ہیں،بے جا مقدمہ بازی کی روک تھام کا بل2011ء لارہے ہیں جبکہ سینیٹ میں بھی قانون کی فراہمی کیلئے ارکان سینیٹ سے تجاویز کیلئے بھی آج منگل کو کمیٹی بنائی جائے گی۔

پیر کے روز سینیٹ کا اجلاس چےئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی زیر صدارت ہوا،اجلاس میں ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے ایوان میں ملک میں جلدی اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے حکومت کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو زیر بحث لاتے ہوئے کہا کہ ملک میں انصاف صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو کہ اسکو حاصل کر سکتے ہیں حالانکہ ملک میں انصاف بغیر کسی امتیاز کے سب کیلئے ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں عام آدمی کیلئے انصاف نہیں ہے،ہمیں اس کیلئے سخت اور مستحکم اقدامات کرنے ہوں گے ہمیں انگلینڈ،امریکہ اور دیگر ممالک کے انصاف کے نظام کو فالو کرنا ہوگا اور مساوی بنیادوں پر انصاف فراہم کرنے کے بعد ہی حکومت بہتری کی طرف جاسکتی ہے۔

(جاری ہے)

پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ملک میں تیزی اور نتیجہ خیز انصاف کی راہ ہموار ہونا چاہئے،اب تو جرگہ اورپنچائیت سسٹم میں بھی عدالتی نظام متعارف کرانا ہوگا،انصاف کی ذمہ داری عدلیہ کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے،2007ء میں جب عدلیہ بحال ہوئی تو اس وقت کریمنل مسائل کو جلد حل کرنے کی توقع تھی لیکن اس وقت عدلیہ کی آزادی دوسرے اداروں پر تو اثر انداز ہوئی لیکن انصاف کی فراہمی میں ناکام رہی اس معاملے کو سینیٹ کی قانون وانصاف کی کمیٹی میں بھجوایا جائے۔

پختونخوا عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ اداروں نے ہمارے ملک میں اتنی زیادتیاں کی ہیں لیکن ان پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا،عدلیہ نے عوام کو مایوس کیا،بلوچستان کے حقوق پر عدلیہ نے آج تک فیصلہ نہیں کیا لوگ اب سول ہائی کورٹ اور دوسری عدالتوں کے پاس نہیں جاتے بلکہ جرگہ اور پنچائیت کی طرف رخ کر رہے ہیں،جہاں پر فوری فیصلہ ہوجاتا ہے،حکومت کو عدلیہ کا زیادہ بجٹ رکھنا چاہئے اور انہیں سبسڈی دینی چاہئے۔

سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتوں کو تیزی سے کام کرنا چاہئے لوگ مرجاتے ہیں اور انکا فیصلہ نہیں ہوتا،سینیٹ کو بہترین تجاویز بنا کر متعلقہ کمیٹی کو پیش کرنا چاہئے۔سینیٹر خوش بخت شجاعت نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ملک میں انصاف کی ناقدری کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی طبقہ اس سے مطمئن نہیں ہے ہم انصاف کے طور پر مایوس قوم ہیں، 1973ء کے آئین میں انصاف پورے کرنے کے مختلف قوانین رائج ہیں خواتین کو ووٹ نہ ڈالنے کا حق دینا عدلیہ کے منہ پر طمانچہ ہے ،عورتوں کے ساتھ ناانصافی پر ایکشن نہیں لیا جاتا ہے،ہمارے معاشرے میں خواتین اور بچوں کا طبقہ سب سے زیادہ پسا ہوا ہے،250بلین ڈالر لوگوں کے باہر ملک میں ہیں اندھا بہرا قانون اس کو نہیں دیکھتا،ہمارے ہاں سپیڈی انصاف تو دور کی بات جائز انصاف بھی نہیں ملتا ہے،سینیٹ میں اٹھائے گئے موضوع کا حل نکلنا چاہئے۔

سینیٹر تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ جان ومال کا تحفظ ملک کی ترقی کا راز ہے کیونکہ اس وقت ملک سے بہت سے لوگ جاچکے ہیں،جان ومال کے تحفظ کا تعلق عدالتوں سے منسلک ہے،گواہوں کے تحفظ کا ٹھوس نظام موجود نہیں ہے جسکی وجہ سے عدالتی نظام متاثر ہوا ہے،وکلاء دونوں پارٹیوں سے پیسے بٹور لیتے ہیں جس سے کیسز خراب اور طویل ہوجاتے ہیں،عورتوں کی فلاح وبہبود کیلئے بہتر عدالتی نظام بنایا جائے۔

سینیٹر عثمان سیف اللہ نے کہا کہ اس وقت معاشرے میں انصاف کی فراہمی سب سے بڑا مسئلہ ہے،آرٹیکل14کے تحت ہر آدمی کو اپنے حقوق محفوظ کرنے کی آزادی ہے آج عام آدمی انصاف کی فراہمی سے محروم ہے ہمارے ملک میں چند این جی اور غریب لوگوں کی فلاح کیلئے کام کرتی ہیں باقی صرف دکھاوے کیلئے کام کرتے ہیں،لوگوں کو انصاف کی فراہمی کیلئے ججوں کا نظام ہونا چاہئے،ججوں کی تعیناتیاں اور کارکردگی کا جائزہ لیا جائے اور احتساب کیا جائے،سینیٹ اور قانون وانصاف کمیٹی ملک میں انصاف کی فراہمی کیلئے قانونی ترامیم کریں۔

مسلم لیگ(ن) کے سینییٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ ہمارے ملک میں طبقاتی نظام ہے جیسے کہ مزدور لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے تو یہ تمام چیزیں اداروں کو دیکھنا ہوگا،ہمیں ڈیپارٹمنٹل نظام پر توجہ دینی ہوگی لیکن اب تو تمام مسائل ہی گاؤں کی سطح پر پنچائیت میں نمٹا دئیے جاتے ہیں حکومت کی نہیں بلکہ تمام معاشرے پر انصاف کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

سینیٹر لطیف انصاری نے کہا کہ عوام کو انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ عوام ووٹوں سے حکومت کو منتخب کرتی ہے،آجکل جھوٹے عدالتوں میں گواہ مل جاتے ہیں اس پر پولیس کو بھی توجہ دینی ہوگی۔سینیٹر سردار اعظم نے کہا کہ آئین میں جب آئین کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جائے گا تو پھر کس طرح عام آدمی کو انصاف ملے گا،جس عدلیہ کی بحالی کیلئے کوڑے کھائے انہوں نے بھی بلوچستان کے حقوق کیلئے آواز کو نہیں سنا ابھی 20سے 21گریڈ کے ملازمین کی ترقی ہوئی لیکن ان میں سندھ اور بلوچستان سے کوئی بھی نہیں تھا،عدلیہ میں سفارش سسٹم چلتا ہے ملزم اور مجرم میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے،افغانستان میں جرگہ سسٹم کامیاب ہے کیونکہ وہاں پر انصاف اور حقائق پر مبنی فیصلہ ہوتا ہے۔

سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ وہ قومیں جلد ترقی حاصل کرلیتی ہیں جہاں پر انصاف کی فراہمی تیز ہو سول اور کریمنل کیسز میں کئی سالوں سے لوگوں کو انصاف نہیں ملا،قانون وانصاف کی کمیٹی میں انصاف کی فراہمی کے حوالے سے قانون سازی کی جائے اور اس میں جرگہ سسٹم کو ضرور لاگو کیا جائے کیونکہ وہ جلد چھوٹے مسائل حل کر لیتے ہیں،بہترین ٹیلنٹ کو جوڈیشنری میں لایا جائے،انکی تنخواہوں کو اچھا کیا جائے اور ججوں کا احتساب کیا جائے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ ملک میں سینکڑوں کیسز زیر التواء ہیں ایک مزدور کو11مہینوں بعد کیس تاریخ ملے گی تو پھر ان کو کس طرح انصاف ملے گا ،ہمارے ملک میں انصاف کتابوں اور امیر لوگوں کیلئے موجود ہے۔سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ ملک میں انصاف کے بلند وبانگ دعوے تو کئے جاتے ہیں لیکن ماحول اور سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں ،ہمارے ملک میں ججوں کی مقدار کم ہے ایک ایک جج کے پاس سینکڑوں کیسز موجود ہیں،40,40سال بعد عوام کو انصاف ملتا ہے اور کیس کا فیصلہ ہوتا ہے ملک میں انصاف کی فراہمی سے امن وامان کی صورتحال بھی بہتر ہوسکتی ہے۔

تحریک کو متعلقہ کمیٹی کے حوالے کیا جائے۔پیپلزپارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ ہمیں اس تحریک کو صرف منظور نہیں بلکہ اس پر فالو اپ بھی ہونا چاہئے،اس وقت عدلیہ سپریم اور پارلیمنٹ اپنی آزادی کیلئے لڑ رہی ہے،1997ء میں مسلم کمرشل بینک سے معطل ہوا تھا جو فیصلہ90 روز کے اندر ہوتا تھا وہ آج18سال گزرنے کے بعد بھی نہیں ہوسکا جرگہ سسٹم پر قانون سازی کرکے ایسے اقدامات پر پابندی لگائی جائے جس میں وہ دو گروپوں کے درمیان فیصلہ دیتے ہیں کہ وہ آگ پر چلے یا پھر بدلے میں لڑکی دے اسکے علاوہ جرگہ سسٹم خود اچھے فیصلہ کرسکتا ہے اور اسے جاری کیا جائے۔

سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ قرارداد کو کمیٹی کو بھیجا جائے لیکن اس میں قانون سازی کو بڑی غور سے دیکھا جائے۔سینیٹر کبیر خان نے کہا کہ جب ملک میں طویل مدت کے بعد انصاف ملے گا تو ملک کی کیا حالت ہوگی،اسلام آباد کے سپرمارکیٹ اور بلوچستان کے انصاف کی فراہمی میں زمین آسمان کا فرق ہے جرگہ کی95فیصد خوبیوں کو5فیصد خرابیوں کے ساتھ مقابلہ نہ کیا جائے،جرگہ سسٹم کو متعارف کرایا جائے۔

قائد ایوان راجہ ظفرالحق نے کہا کہ موجودہ نظام عدل کے بارے میں غیر مطمئن ہے لیکن آج ہر طبقے میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ہے،سینیٹ کا فرض ہے کہ ایسے مسئلہ جس سے معاشرہ بننے یا بگڑنے کا دارومدار ہے اس کو قانون یا پھر سپیشل کمیٹی کو بھجوایا جائے تاکہ ایسی قانون سازی ہو جس میں معاشرے کی بھلائی اور انصاف کی فراہمی ہو۔قانون وانصاف کے وزیر سینیٹر پرویز رشید نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ انصاف کی عدم فراہمی کا مسئلہ پورے ملک میں ہے ،کچھ اقدامات ایسے ہیں جو انصاف کی فراہمی کیلئے کئے گئے اور مستقبل میں بھی کئے جائیں گے ،جوڈیشل اصلاحات کو اختیار کیا جاچکا ہے،فیملی قانون کیلئے بھی ایک مدت مقرر کر دی گئی ہے،فیملی لاز کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر ہوگا،بے جا میں کسی شخص کو دینے پر ہائی کورٹ کو درخواست دینا پڑتی تھی اب یہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کو اختیار سونپ دیا گیا ہے،جوڈیشل ریفارم میں ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے جو سیٹیں خالی جوڈیشری میں ہیں وہ120دنوں میں تعداد پورا کیا جائے،ججوں کی مراعات میں اضافہ ہوا ہے،ڈسٹرکٹ ججوں کے چھ ہزار اور ایڈیشنل ججوں کیلئے سات ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا ہے،ویڈیو کانفرنس کا سسٹم بھی متعارف کرا دیاگیا ہے،پولیس ریفارمز میں تبدیلیاں لارہے ہیں،وزیراعظم نے لیگل ریفارمز کمیٹی بنائی تھی جس نے رپورٹ وزیراعظم کو دے دی ہے اس پر بھی تیزی سے کام جاری ہے،آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ قرارداد پر بھی حکومت نے کام کیا ہے اور سینیٹ جو تجاویز دیگا اس کو بھی شامل کیا جائے گا،بے جا مقدمہ بازی کی روک تھام بل2011ء لارہے ہیں جس میں بے جا مقدمہ درج کرانے والے کو سارے اخراجات برداشت کرنے ہوں گے،بل کیبنٹ کمیٹی کو بھیج چکا ہے اور جلد ایوان میں پاس ہونے کیلئے بھی پیش کردیا جائے گا حکومت سینیٹ کو ایک ایسا تحفہ دیگی جس سے پاکستان کی عوام کو جلد اور سستا انصاف جیسا ہوگا۔

سینیٹر رضا ربانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے جب تک عدلیہ مستحکم نہیں ہوگی تو پھر ادارے مستحکم نہیں ہوں گے اور امن وامان کی صورتحال کو بھی خطرہ پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے جبکہ ایوان کی کمیٹی بھی عوام کو انصاف کی فراہمی کے معاملے پر غور کیلئے آج منگل کو کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔وزیراعظم کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات کو بھی ایوان کمیٹی میں شامل کرنے کی ہدایت کردی گئی

متعلقہ عنوان :