جوڈیشل کمیشن کی کارروائی کا تیرھواں روز، چیئرمین نادرا اور فافن سربراہ جرح کیلئے طلب ، پی ٹی آئی کا سابق الیکشن کمشنر سندھ اور ایم ڈی پرنٹنگ کارپوریشن پر جرح سے انکار، مہاجر قومی موومنٹ کے وکیل جرح کریں گے ، ایم ڈی سکیورٹی پرنٹنگ پریس رضوان احمد پر پی ٹی آئی اور ن لیگ کے وکلاء کی جرح مکمل، الیکشن کمیشن سے کہا تھا چند روز میں بیلٹ پیپر نہیں چھاپ سکتے، تین سے چار دن مانگے تھے،رضوان احمد، دوران جرح جو سوالات کرلئے گئے ،دوبارہ نہ کئے جائیں ، قیمتی وقت ضائع ہوگا ،چیف جسٹس کے ریمارکس ،سماعت جمعرات تک ملتوی

منگل 19 مئی 2015 06:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔19 مئی۔2015ء) عام انتخابات 2013 ء میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن نے جمعرات کو چیئرمین نادرا عثمان یوسف اور فافن کے سربراہ مدثر رضوی کو جرح کیلئے طلب کرلیا‘ تحریک انصاف نے سندھ کے سابق الیکشن کمشنر ایس ایم طارق قادری اور پرنٹنگ کارپوریشن ایم ڈی سندھ مظفر علی چانڈیو پر جرح کرنے سے انکار کردیاہے ان پر مہاجر قومی موومنٹ کے وکیل حشمت حبیب ایڈووکیٹ جرح کریں گے۔

سکیورٹی پرنٹنگ پریس کے ایم ڈی رضوان احمد پر تحریک انصاف اور ن لیگ کے وکلاء نے جرح مکمل کرلی۔ کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا ہے کہ کمیشن کے روبرو جرح کے دوران جو سوالات کرلئے گئے ہیں وہ دوبارہ نہ کئے جائیں اس سے قیمتی وقت ضائع ہوگا۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس ایم ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل تین رکنی جوڈیشل کمیشن نے پیر کے روز 13 ویں اجلاس میں دھاندلی کے حوالے سے مختلف ریکارڈ اور دیگر معاملات کی سماعت کی اس دوران کئی اہم معاملات پر سوالات کئے گئے۔

سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کے ایم ڈی رضوان احمد پیش ہوئے جس پر تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے دلائل کا آغازکیا۔ رضوان احمد نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ ہم چند روز میں بیلٹ پیپر نہیں چھاپ سکتے۔ اس لئے ہم نے تین سے چار دن مانگے تھے۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ انہوں نے ڈاکومنٹ نہیں دیکھا تھا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم نے قانون شہادت کے تحت ہی شہادتوں کا جائزہ لیا ہے۔

ایک ڈاکومنٹ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ پیرزادہ نے کہاکہ میں نے یہ نہیں کہا یہ ان کا بیان ہے یہ تو الیکشن کمیشن کار ریکارڈ ہے مجھے بھی قانون شہادت کا علم ہے چیف جسٹس نے کاہکہ آپ ان کے ذہن کو کھنگال رہے تھے حالانکہ ڈاکومنٹ ان کا نہیں تھا۔ پیرزادہ نے کہاکہ کارپوریشن نے الیکشن کمیشن سے کمٹمنٹ کی تھی کہ سب بیلٹ پیپرز 5 مئی تک چھاپ کر دے دیں گے ۔

رضوان احمد نے کہا کہ یہ ضرور ان کے ملازمت جوائن کرنے سے قبل کیا گیا ہوگا مگر انہوں نے یہ کمٹ نہیں کیا تھا۔ پیرزادہ نے کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ پرنٹنگ کے معاملات عدلیہ کے فیصلے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئے تھے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ کب آیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یاد نہیں کہ فیصلہ کب آیا تھا تاہم یہ روزانہ کی بنیاد پر سنا گیا تھا۔ پیرزادہ نے کہا کہ فیصلے کی وجہ سے کتنے حلقے متاثر ہوئے تھے اور یہ کتنے حلقوں بارے تھا۔

گواہ نے کہا کہ 8 مرتبہ دوبارہ چھپائی کی گئی بعد میں بھی یہ فیصلے آتے رہے ۔ ایک مکمل تعدادیاد نہیں ہے یہ ضرور یاد ہے کہ دوبارہ سے چھپائی عدالت کے حکم پر ہی کی گئی تھی۔ عدالتی فیصلہ پڑھنا میری جاب کاحصہ نہیں ہے ۔ حلقوں بارے تمام معاملات کی معلومات اور امیدواروں کے نام پرھنا بھی ان کے فرائض میں نہیں تھا۔ جو بیلٹ پیپرز دوبارہ سے چھاپے گئے تھے وہ ضائع کردیئے گئے تھے وہ ذاتی طو رپر اس دوران موجود نہیں تھے۔

تلفی کے حکم بارے وہ نہیں جانتے۔ پاکستان سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن ایک محفوظ ترین پریس ہے تمام تر معاملات ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق کئے جاتے ہیں بیلٹ پیپرز کی تلفی سمیت مختلف معاملات مختلف اداروں کے پاس تھا ۔ وہاں دفتر میں ہر کسی کے اپنے فرائض ہیں جس وقت یہ تلف کئے گئے وہ خود ایم ڈی تھے یہ میرا فریضہ نہیں ہے لہذا بیلٹ پیپرز کس طرح تلف کئے گئے انہیں اس بارے معلوم نہیں ہے سکیورٹی پریس کی تمام تر معاملات کی نگرانی ایم ڈی کرتے تھے ۔

بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے حوالے سے تمام تر مواد ان کے حکم پر منگوایا گیا تھا جب میں چھپائی کے پیپرز بھی شامل تھے آڈٹ انہوں نے کرایا تھا دس جولائی 2013ء کو وہ آرگنائزیشن چھوڑ گئے تھے اس لئے انہیں پیپرز کے حوالے سے آڈٹ اعتراضات سے متعلقہ معلومات نہیں ہیں ۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس اس قدر کام کی صلاحیت تھی کہ یہ کام آپ کو دیا گیا جس پر گواہ نے کہا کہ ہم نے تمام تر اپنے آپریشنز روک دیئے اور یہ پرنٹنگ کا کام ہے اور ہم نے کچھ مشینوں کے لیے کچھ ملازمین بھی مارکیٹ سے حاصل کئے ۔

اور نئی مشینیں بھی لگائیں پیرزادہ نے کہا کہ یہ مشینیں فوٹو کاپیز تھیں اس پر گواہ نے کہا کہ نہیں یہ نارمل مشینیں تھیں جن سے چھپائی کا کام لیا جاتا ہے ان کی کوئی الیکٹرانک یادداشت نہیں ہوتی ۔ نمبرنگ اور بائینڈنگ بھی انہوں نے کی سو بیلٹ پیپرز کی بکس بنائی گئیں میں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے تفویض کیا گیا تمام تر کام مکمل کیا تھا ۔ ہم نے سب سے پہلے بلوچستان کو بیلٹ پیپرز بھجوائے پھر پنجاب اور اپر سندھ اور جنوبی سندھ کو بھجوائے تھے ۔

دو اور تین مئی کو بلوچستان بیلٹ پیپرز بھجوائے پنجاب کے حوالے سے یاد نہیں سندھ بارے بھی ان کو تاریخ یاد نہیں بلوچستان میں ایئر کرافٹ کی خدمات حاصل کی گئی تھیں اس لئے وہ تاریخ یاد رہ گئی ہم نے تمام تر بیلٹ پیپرز آر اوز اور الیکشن کمیشن ، آرمی کے روبرو حوالے کئے تھے بلوچستان کے حوالے سے تمام تر مواد الیکشن کمیشن کو دیا گیا تھا ۔یہ سب کراچی میں دیئے گئے تھے ہم نے جب یہ مواد حوالے کرنے کیلئے کہا تھا وہ سب سربمہر تھے ان کے ساتھ پوسٹرٹز بھی تھے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان کی سپر ویژن کس نے کی ۔ کب سیلڈ تھے تو سیلڈ ہی تھے ۔ گواہ نے بتایا کہ ایم ڈی ہونے کی وجہ سے حوالے کرنے کے تمام تر معاملات کا ریکارڈ پریس میں موجود ہے ۔ نواز لیگ کے وکیل شاہد حامد نے جرح کا آغاز کیا گواہ نے بتایا کہ ان کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹر سروس سے ہے وہ تمام تر معاملات کے انچارج تھے شاہد حامد نے تحریک انصاف کی جانب سے فائل کردہ ڈیٹا سے متعلق سوالات کئے ۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ صرف اس بارے سوالات کرینگے اور جوڈاکومنٹ آپ پیش کرینگے اس سے ان کا تعلق ہونا ضروری ہے چیف جسٹس نے کہا کہ سوالا ت کرلئے گئے ہیں وہ نہ دہرائے جائیں ۔ گواہ نے بتایا کہ اکیس اپریل 2013ء کو الیکشن کمیشن نے اپنی جانب سے پہلی چھپائی بارے خط لکھا تھا جو کچھ چھپائی کی جاتی ہے اس بارے سیلز ٹیکس بھی ادا کیا جاتا ہے ۔

25اپریل کے بعد اضافی چھپائی کی ،73.3 ملین سے زائد بیلٹ پیپر چھاپے گئے مجھے یاد نہیں کہ اضافی بیلٹ پیپر کب چھاپے گئے مگر سب کچھ انہیں کمیشن کے کہنے پر کیا گیا اور تمام معاملات 9مئی کو مکمل ہوئے اضافی کاغذوں کی بھی ضرورت پڑی جو ہم نے پچیس اپریل کے بعد خریدے ۔ 256 حلقے تے جو بڑھ کر 371 ہوگئے تھے ۔ عدالتی فیصلوں کے بعد 8مرتبہ دوبارہ چھپائی کی گئی ترسیل کے وقت بیلٹ پیپرز سیل شدہ تھے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا تھا کہ 15روز میں سارا میٹریل نہیں چھاپ سکتے بعد ازاں کمیشن نے کارروائی جمعرات تک کے لئے ملتوی کردی