سلمان تاثیر کیس،سپریم کورٹ نے ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف اورحکومت کی دہشت گردی ایکٹ ختم کرنے کے خلاف اپیلیں سماعت کے لئے منظور کر لیں

جمعہ 15 مئی 2015 09:07

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔15 مئی۔2015ء)سپریم کورٹ نے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل میں ملوث ممتاز قادری کی جانب سے سزائے موت کے خلاف اورحکومت کی طرف سے دہشت گردی ایکٹ ختم کرنے کے خلاف دائر اپیلیں سماعت کے لئے منظور کر لیں ہیں اور فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم نے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہیں اگر کوئی ریاست کے قانون کی مخالفت کرتا ہے تو کیا ہم اسے توہین رسالت قرار دے سکتے ہیں ذاتی عناد بھی نہیں تھا تو پھر 28 گولیاں کیوں چلا دی تھیں۔

ممتاز قادری سلمان تاثیر کی حفاظت پر ماور تھا اگر محافظ سے کوئی محفوظ نہیں تو یہ خطرناک ہے۔

(جاری ہے)

قتل کرنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ قتل کی وجہ بتلائے۔ ریاست کے قانون کو برا کہنے اور توہین رسالت میں فرق ہے، شرعی معاملہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتا جبکہ جسٹس قاضی فائز یحیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پہلے ثابت کریں کہ سلمان تاثیر گستاخ رسول تھا ،بعیر جرم کئے کسی کو قتل کرنا اسلام میں اس کی کیا مثالیں موجود ہیں؟ سلمان تاثیر نے کیا سوچ کر بیان دیا تھا یہ کون جانتا ہے، بھلا دلوں کے اندر تک رسائی اللہ کے سوا کس کو ہو سکتی ہے۔

انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دیئے ، دوران سماعت ممتاز قادری کے وکیل نذیر ایڈووکیٹ نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ ممتاز قادری کا سلمان تاثیر سے کوئی ذاتی عناد نہیں تھا اگر وہ تحفظ رسالت قانون کو غلط الفاظ میں ڈھال کر نہ کہتا تو اس کو کیوں مارا جاتا۔ اس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اگر ذاتی عناد نہیں تھا تو 28 گولیاں کیسے چلا دیں۔

معاملہ توہین رسالت کا ہے اس لئے ممتاز قادری کو عام قانون کے تحت سزا نہیں دی جا سکتی یہ شرعی مسئلہ ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ شرعی مسئلہ کا فیصلہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔یہ کیسے پتہ چلے گا کہ جو ممتاز قادری کہہ رہا ہے وہ صحیح ہے اور سلمان تاثیر نے ان کے خیال کے مطابق ہی بیان دیا تھا جس سے یہ مشتعل ہوا۔ وکیل نے کہا کہ معاملہ ذاتی رنجش کا نہیں شریعت کا ہے اس دوران حکومت کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ ممتاز قادری نے قتل کا ارتکاب کیا ہے اور جس طرح سے فائرنگ کی ہے یہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔

لہذا ان کے خلاف جو دہشت گردی ایکٹ لگائی گئی تھی وہ ختم کرنا خلاف قانون ہے اس کو بحال کیا جائے اور اپیل سماعت کے لئے منظور کی جائے۔ جس پر عدالت نے ممتاز قادری اور حکومت دونوں کی اپیلیں سماعت کے لئے منظور کر لیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 9 مارچ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف صرف قتل کی دفعہ برقرار رکھی تھی اور دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ اے ٹی اے ختم کر دی تھی جس کے خلاف فریقین سپریم کورٹ آئے۔

ممتاز قادری کے وکیل کا کہنا تھا کہ فتح مکہ کے وقت عام معافی کا اعلان کیا گیا لیکن توہین کے جرم میں 12 لوگوں کو سزا دی گئی۔ جسٹس فائز نے کہا کہ اسلام کی تاریخ کے پس منظر میں واقعات بھی موجود ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فوجداری مقدمے میں 2 سوالات اہم ہیں، کس نے حکم دیا کیا اس اقدام کی کوئی قانونی وضاحت موجود ہے۔ یہ بھی سوال ہے کہ اسلام سے متعلق معاملہ شریعت عدالت میں سننے کا اختیار ہے مارنے کے لئے ایک گولی کافی تھی 28 گولیاں کیوں چلائیں۔

وکیل نے کہا کہ آپﷺ کے دور میں 19 واقعات موجود ہیں جن میں ایسا قتل کرنے والوں کو سزا نہیں دی گئی‘ نبی پاکﷺ کا فیصلہ تسلیم نہ کرنا بذات خود توہین ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بدامنی اور امن میں فرق ہے ایک گاؤں میں ایک بچے کو قتل کر دیا جائے تو پورے علاقے کی سکول جانے والی بچیاں سہم جاتی ہیں۔ منصوبہ بندی کے تحت معاشرے میں دہشت پھیلانا دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جو بات کر رہے ہیں وہ غیر متعلقہ ہے۔ ہم اسلامی شریعت کی تشریح نہیں کر رہے ہیں ہم نے قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہے۔ کیا یہ جرم انفرادی حیثیت سے کیا گیا۔ آرٹیکل 9 کے تحت کسی کی آزادی نہیں چھینی جا سکتی۔ سپریم کورٹ اگر سزائے موت ختم نہیں کر سکتی تو کیا ایسا فیصلہ موجود ہے کہ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا گیا ہو ۔بعد ازاں عدالت نے سماعت اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔