جوڈیشل کمیشن ،تحریک انصاف کے 5 مزید گواہ 11 مئی کو جرح کے لئے طلب ، سرکاری نتائج مرتب کئے جانے تک سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی تھی۔ میاں محمد نواز شریف نے رات 11 بجے تقریر کی ،پرنٹنگ پریس نے 100 سے 200 افراد بیلٹ پیپرز کی بائنڈنگ اور نمبرنگ کے لئے مانگے تھے، لاہور سے 78 افراد بھجوائے ‘ ایک ریٹرننگ افسر نے 3 جبکہ دوسرے نے درج ووٹرز کے لئے 3 فیصد اضافی بیلٹ پیپرز مانگے تھے،الیکشن کمشنر پنجاب

ہفتہ 9 مئی 2015 07:42

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9 مئی۔2015ء) انتخابات 2013ء میں دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن نے تحریک انصاف کے 5 مزید گواہوں کو 11 مئی کو جرح کے لئے طلب کر لیا ان گواہوں میں پاکستان پرنٹنگ سیکیورٹی کارپوریشن کے لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد کے ایم ڈی‘ پوسٹل کارپوریسن کے ایم ڈی اور ایم دی پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان شامل ہیں جبکہ سابق الیکشن کمشنر پنجاب محبوب انور نے تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ کی جرح پر بتایا ہے کہ پولنگ سے قبل اور غیر سرکاری نتائج مرتب کئے جانے تک 48 گھنٹوں کے لئے سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی تھی۔

میاں محمد نواز شریف کی رات 11 بجے کی تقریر براہ راست نہیں دیکھی تھی بعد میں پتہ چلا‘ پرنٹنگ پریس نے 100 سے 200 افراد بیلٹ پیپرز کی بائنڈنگ اور نمبرنگ کے لئے مانگے تھے جس کے جواب میں لاہور سے 78 افراد بھجوائے تھے‘ ایک ریٹرننگ افسر نے 3 جبکہ دوسرے نے درج ووٹرز کے لئے 3 فیصد اضافی بیلٹ پیپرز مانگے تھے انہوں نے یہ جوابات جمعہ کے روز دیئے ہیں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل پر مشتمل 3 رکنی کمیسن نے سماعت کی کمیشن نے تحریک انصاف کے 1 لاکھ 60 ہزار ڈاکومنٹس کے حوالے سے الیکشن کمیشن سے جواب جبکہ سیاسی جماعتوں سے 11 مئی تک گواہوں کی فہرست مانگ لی ہے۔ کمیشن نے کارروائی کا آغاز کیا تو الیکشن کمیشن پنجاب محبوب انور دوبارہ پیش ہوئے اس دوران تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نہ تھے ان کا نتظار کیا گیا۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ جب تک پیرزادہ نہیں آئے پہلے ان کو سن لیا جائے۔ میرا انحصار پولنگ بیگز پر ہے ان کو کھولا جائے‘ کمیشن نے کہا کہ شہادتوں کے ریکارڈ کرنے کے بعد آپ کی درخواست سنیں گے۔ پیرزادہ نے پوچھا کہ کل عدالت سے جانے کے بعد اب تک کیس کے سلسلے میں آپ کا کوئی رابطہ ہوا ہے محبوب انور نے کہا کہ ایسا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ پیرزادہ نے کہا کہ آپ نے اخبار پڑھا ہے آج کا۔

انگریزی اخبار کا حوالہ دیا ہے۔ محبوب انور نے کہا کہ وہ کسی سے نہیں ملے حفیظ پیرزادہ نے کمیشن میں اخبار پیش کیا کہ انہوں نے یہاں سے جانے کے بعد ملاقات کی ہے۔ اس کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ جس کو کمیشن نے ریکارد کا حصہ بنانے کا حکم دیا۔ پیرزادہ نے کہا کہ کسی ریٹرننگ آفیسر نے کوئی درخواست دی ہو اس پر سابق الیکشن کمسنر نے بتایا کہ انہیں صرف انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی فہرست دی گئی تھی کوئی درخواست نہیں ملی تھی۔

پیرزادہ نے کہا کہ ہم نے ایک ڈاکومنت داخل کرا رکھا ہے اس کا جائزہ لیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے تمام حلقوں بارے تفصیلات جاری کی تھیں یہ اس بارے ہے اور یہ پنجاب کے تمام حلقوں کی تفصیل ہے۔ انہوں نے یہ تفصیل اضافی بیلٹ پیپرز کے حوالے سے ہے جو الیکشن کمیشن نے جاری کی تھی۔ شاہد حامد نے کہا کہ یہ تفصیل پیش کرنے کا کیا فائدہ ہے اس پر کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ یہ گواہ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔

کمیشن نے گواہ سے پوچھا کہ آپ نے ڈاکو منٹ دیکھا ہے اس پر گواہ نے کہا کہ یہ ڈاکومنٹ اس کا نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کا ہے جس پر کسی کے دستخط بھی نہیں ہیں۔ بار بار مداخلت پر کمیشن کے رکن جسٹس امیر ہانی مسلم نے شاہد حامد سے کہا کہ یہ نامناسب ہے آپ خاموش رہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کو سوال پر کوئی اعتراض ہے تو بتا ئیں با قی تو آپ کو کچھ نہیں کہنا چاہئے۔

یہ الیکشن کمیشن سے تعلق رکھتے ہیں یہ دستاویز الیکشن کمیشن نے جاری کی ہے یہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے علم میں نہیں ہے۔ متعلقہ وقت یہ الیکشن کمیشن کا حصہ تھے آپ بیٹھ جائیں۔ پیرزادہ نے مداخلت پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ پیر زادہ نے گواہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ ڈاکومنٹ دیکھا تھا گواہ نے کہا کہ یہ نہیں دیکھا تھا۔ یہ ڈاکومنت میں نے تیار نہیں کیا اور نہ ہی یہ ڈاکومنٹ پہلے کبھی دیکھا ہے۔

پیرزادہ نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن سے ڈاکومنت مانگا تھا تین روز گزر گئے وہاں سے کوئی جواب تک نہیں آیا۔ سلمان اکرم نے کہا کہ یہ ڈاکومنٹس میرے پاس موجود ہیں۔ پیرزادہ ان کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ پیرزادہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے جو ڈاکومنٹس داخل کرائے ہیں الیکشن کمیشن سے پوچھا جائے کہ وہ ان کو تسلیم کرتے ہیں یا مسترد۔ کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن اس کی ملکیت بارے بتائے۔

پیرزادہ سے کہا کہ آپ ان کو ڈاکومنٹ تو مہیا کریں۔ پیرزادہ نے کہا کہ ہم نے کمیسن کے پاس یہ ڈاکومنٹس فائل کر دیئے ہیں۔ یہ ڈاکومنٹ الیکشن کمیشن کو بھی دے دیتا ہوں جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ نے یہ سب الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے حاصل کئے ہیں؟ ممکن ہے کہ ان کو گزٹ میں بھی شامل کیا ہو۔ کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ پیرزادہ کیا آپ نے ڈاکومنت بارے ہوم ورک کیا ہے پیرزادہ نے کہا کہ یہ ان کا آفیشل ڈاکومنٹ ہے اس کے ہونے یا نہ ہونے کا اقرار کریں۔

سلمان اکرم نے کہا کہ ویب سائٹس پر پڑا ریکارڈ سارا درست بھی نہیں ہو سکتا۔ ہم صرف وہ ڈاکومنت مانیں گے جو براہ راست الیکشن کمیشن سے لیا گیا ہو۔ پیرزادہ نے کہا کہ ہمیں وقت دے دیں ہم ان کو ڈاکومنٹس دے دیتے ہیں یہ اس کی ملکیت بارے مبتلا دیں۔ یہ الیکشن کمیشن کا خصوصی ڈاکومنت ہے جس کو انہوں نے خود جاری کیا ہے کمیشن نے کہا کہ آپ ڈاکومنٹس فہرست دے دیں الیکشن کمیشن سے پوچھ لیتے ہیں 1 لاکھ 60 ہزار صفحات ہیں ایسے کیسے پتہ چلے گا۔

سلمان اکرم نے کہا کہ ڈاکومنٹ دیکھے بعیر کیسے اس کی ملکیت بارے جواب دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے سلمان سے کہا کہ آپ کو اس کا کتنا وقت درکار ہے جسٹس امیر نے کہا کہ آپ نے تحریک انصاف کی درخواست کا جواب دیا ہو گا آپ کیسے اس ڈاکومنت سے لاعلم ہو سکتے ہیں کمیشن نے کہا کہ پیرزادہ ڈاکومنٹس کی فہرست دیں گے سلمان اکرم راجہ کے کے آغا کی موجودگی میں سیکرٹری الیکشن کمیشن سے اس بات بارے بات کریں اور کل تک اس کا جواب دیں۔

پھر اس بارے کمیسن فیصلے کرے گا۔ پیرزادہ نے کہا کہ ہفتے کو وہ اس کی فہرست دے دیں گے۔ و ہ جرح جاری رکھیں گے وہ سمجھتے ہیں کہ ریکارڈ بھی ساتھ ساتھ آتا رہے گا۔ اس دوران اعتزاز احسن اور پیرزادہ کے درمیان کچھ دیر تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ پیرزادہ نے کہا کہ پنجاب میں الیکشن کا انچارج کون تھا تو گواہ نے کہا کہ وہ خود تھے اور باقی لوگ ان کے نگرانی میں کام کرتے رہے۔

پیرزادہ نے پوچھا کہ آپ مستقل ملازم تھے یا عارضی ملازم تھے کیا آپ نے اپنی معاونت کے لئے حکومت سے لوگ مانگے تھے گواہ نے بتایا کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب راؤ افتخار ان کی معاونت کرتے رہے ہیں ان کے ساتھ رابطہ رہا۔ جب بھی کوئی مدد کی ضرورت پڑی ان سے بات کی تھی۔ پیرزادہ نے کہا کہ آپ 9 مئی تاریخ کی شام کو راؤ کو کوئی ٹیلی فون کیا تھا گواہ نے کہا کہ انہوں نے راؤ افتخار کو فون کرنے سے انکار کیا اور نہ اس دن انہوں نے کسی اور کو کوئی ٹیلی فون کیا۔

پیرزادہ نے کہا کہ آپ یہ نوٹس لے کر کیا آئے ہیں۔ اس پر گواہ نے کہا کہ یہ اپنی یاداشت کے لئے لائے ہیں راؤ افتخار نے 7 مئی کو ٹیلی فون کیا تھا۔ بائنڈنگ ‘ نمبرنگ کے لئے کچھ لوگ چاہئے تھے اس لئے انہوں نے ٹیلی فون کیا تھا۔ بیلٹ پیپرز اسلام آباد میں تھے اور پرنٹنگ پریس کے پاس تھے‘ کتنے پیپرز کی بائنڈنگ کرنا تھی تو انہوں نے کہا کہ تعداد بارے ان کو معلوم نہیں ہے ایسی لیبر چاہئیے تھی جو بائنڈنگ اور نمبرنگ بیلٹ پیپرز کی کر سکے۔

100 سے 200 افراد کی درخواست کی تھی مجھے یہ یاد نہیں کہ انہوں نے کس جگہ سے بندے بھیجنے کی بات کی تھی‘ بندے فراہم کر دیئے گئے تھے۔ 7 مئی سے 8 مئی کی رات تک (درمیانی رات) کو یہ لوگ کام کرتے رہے 78 افراد کا تعلق لاہور سے تھا یہ 7 اور 8 مئی کی درمیانی شب آئے تھے۔ پرنٹنگ میں مہارت والے بندے نہیں مانگے تھے۔ پیرزادہ نے کہا کہ بیلٹ پیپرز اسلام آباد میں تھے بندے آپ نے لاہور سے منگوائے؟ گواہ نے کہا کہ جی ہاں تاہم لوگوں کے اصل پتہ جات سے وہ واقف نہ تھے۔

یہ اردو بازار لاہور سے آئے تھے یہ 9 مئی تک کام کرتے رہے۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ کام کا آخری وقت کون سا تھا جب یہ ختم کیا گیا۔ یہ راؤ افتخار نے درخواست کی تھی جس پر عمل کیا گیا۔ راؤ افتخار نے راولپنڈی اور لاہور الیکشن کمیشن سے درخواست کی تھی کام مکمل ہونے کے بعد ریٹرننگ افسران کو بیلٹ پیپرز کب بھجوائے گئے کے سوال پر گواہ نے کہا کہ یہ وہ کیسے کہہ سکتے ہیں انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ کتنے لوگوں سے کام لیا گیا اور کتنے واپس بھجوائے گئے۔

مختلف حلقوں کے بیلٹ پیپرز تھے مگر وہ تعداد نہیں بتا سکتے۔ میرا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رہا کہ کام پر لوگ پہنچے تھے یا نہیں یا بیلٹ پیپرز بھجوائے تھے۔ بیلٹ پیپرز بھجوائے جانے کا تمام تر ریکارڈ موجود ہے۔ ایشو کرنے کا ڈلیوری چالان (ان وائس) ان کے دفتر میں موجود ہیں لیبر کو پرنٹنگ پریس والوں نے پیسے دیئے تھے اور یہ دفتر اسلام آباد میں ہے۔

پیرزادہ نے کہا کہ آپ کی ذمہ داری نہیں تھی کہ آپ معلوم کرتے کہ یہ بیلٹ پیپرز کہاں کہاں جا رہے تھے۔ گواہ نے کہا کہ یہ میری ذمہ داری تھی پرنٹنگ پریس میں ان کی ایک نمائندہ موجود تھا۔ 9 مئی کو راؤ افتخار نے کوئی کال نہیں کی تھی۔ انہوں نے 7 مئی کو آخری کال کی تھی انہیں یہ یاد نہیں کہ موبائل فون پر کال کی تھی یا پی تی سی ایل پر۔ مگر اتنا یاد ہے کہ راؤ افتخار کو ان کے موبائل پر کال کی تھی۔

فارم نمبر 14 کے بارے میں وہ جانتے ہیں۔ فارم 15 پر بیلٹ پیپرز کی گنتی کی جاتی ہے۔ فارم نمبر 14 اور 15 کے مسنگ کی کوئی شکایت نہیں ملی۔ پیرزادہ نے کہا کہ بیلٹ پیپرز سمیت دیگر چیزیں بیگ میں ڈالے جاتے ہیں فہرستیں بھی … آپ کے ساتھ جاتی ہیں یا نہیں گواہ نے کہا کہ جاتی ہیں انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق کے لئے فہرستیں جاتی ہیں فارم 14 اور 15 بھی ساتھ جاتے ہیں ریٹرننگ افسر کو بھجواتے ہیں وہ پھر آتے تقسیم کرتے ہیں۔

بیلٹ بکس‘ الیکٹورل اول 14‘ 15 فارم‘ سیاہی بھی … کو بھجوائی جاتی ہے۔ ریٹرننگ افسر ایک ایک بیگ کھولتا ہے اور پریزائدنگ افسران کو سامان تقسیم کرتا ہے۔ ریزرو میٹریل وہ اپنے پاس رکھتے ہیں اس میں اضافی بیلٹ پیپرز بھی شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کا جواب نہیں پڑھا۔ پیرزادہ نے کہا کہ الیکشن کمیسن کہتا ہے کہ ہم نے تو صرف 34 بندے مانگے تھے اور آپ کہہ رہے ہیں 100 سے 200 بندے مانگے تھے۔

78 افراد کی بات بھی کی ہے یہ ان کے بیانات میں تضاد ہے۔ کمیسن نے کہا کہ گواہ الیکشن کمیشن کا جواب نہیں دے سکتے۔ پیرزادہ نے کہا کہ وہ سوال واپس لیتے ہیں۔ کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ جرح مکمل ہونے کے بعد بھی اگر آپ محسوس کریں کہ ابھی بھی گواہوں کی ضرورت ہے ان کو بلا سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن ریکارڈ دیکھ کر اس کے اصلی ہونے یا نہ ہونے کا فیصلیہ کرے گا اس کے لئے آپ کو درخواست دینا ہو گی کہ وہ گواہوں پر مزید جرح کرنا چاہتے ہیں۔

گواہ نے بتایا کہ ریٹرننگ افسران وردی میں نہ تھے۔ ایک کیس میں ریٹرننگ آفیسر نے 3 اضافی پیپرز جبکہ ایک نے 30 فیصد اضافی پیرز مانگے تھے۔ یہ درست ہے۔ یہ درخواست ایک بار ہی کی گئی۔ یہ اصافی بیلٹ پیپرز رجسٹرڈ ووٹوں کے 30 فیصد تھے۔ میں نے اضافی پیرز مانگنے بارے ریٹرننگ آفیسر سے کچھ نہیں پوچھا تھا۔ الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپرز اصافی دینے بارے رحم دلی کا مظاہرہ کرنے کو کہا تھا اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے باقاعدہ ایک فارمولا دے رکھا تھا اور یہ مجھے بتایا گیا تھا جو میں نے آر اوز کو بتایا تھا۔

تمام تر ہدایات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ الیکشن کمیشن نے سب کے ساتھ یکساں سلوک کا حکم دے رکھا تھا۔ 7 مئی کے بعد راؤ افتخار سے کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی کال کی تھی۔ انتخابات ہونے کے بعد وہ الیکشن کمیشن اسلام آباد آئے تھے اور یہ آنا جانا لگا رہا۔ الیکشن کمیسن نے کبھی بھی دفعہ 103 ڈبل اے بارے نہیں بلایا اور انہوں نے انتخابات سے متعلق ایک بھی شکایت موصول نہیں کی۔

103 ڈیل اے کی سماعت میں انہیں کبھی بھی طلب نہیں کیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر 48 گھنٹوں تک پابندی رہی۔ انتخابات مکمل ہونے کے بعد اس سرگرمی پر پابندی نہیں رہی تھی۔ جب تک پراسس مکمل نہیں ہو گیا اور نتائج غیر سرکاری طور پر مرتب نہیں ہو گئے یہ پابندی برقرار رہی۔ پیرزادہ نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف سپیکر ایاز صادق کے حلقے میں گئے تھے اس بارے معلومات ہیں۔

تو اس پر گواہ نے کہا کہ ان کو اس بارے معلومات نہیں ہیں۔ پیرزادہ نے کہا کہ نواز شریف نے اس رات تقریر کی تھی اور کہا تھا کہ وہ انتخابات جیت چکے ہیں کیا آپ کو علم ہے۔ اس پر گواہ نے کہا کہ انہون نے ٹیلی ویژن پر تقریر نہیں دیکھی تھی۔ پیرزادہ نے کہا کہ وہ جرح یہاں روک رہے ہیں ڈاکومنٹس کے جائزے کے بعد ہی اس بارے بات کریں گے۔ اس پر کمیشن نے کہا کہ نہیں یہاں اپ کی جرح مکمل ہو چکی ہے دوبارہ درخواست پر ہی جرح کر سکتے ہیں آپ ان سے نواز شریف کی تقریر کے اس حصے بارے نہیں پوچھ سکتے کہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ انتخابات جیت چکے ہیں۔

پیرزادہ نے کہا کہ وہا س حوالے سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کو دوبارہ سے طلب کیا جائے تاکہ ان سے جرح کی جا سکے۔ کمیشن نے تحریری طور پر لکھ دیا کہ تحریک انصاف کے وکیل نے محبوب انور پر جرح وقتی طور پر مکمل کر لی ہے الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کے جمع کروائے گئے ڈاکومنٹس پر جواب کے بعد ان پر جرح کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ بعد ازاں اعتزاز احسن نے جرح کا آغاز کیا اور این اے 124 بارے بات کی جس کے بارے میں 25 جولائی 2013ء کو الیکشن کمیشن نے ایک کارڈ جاری کیا تھا انہوں نے 6 اگست 2013ء کا بھی ایک ڈاکومنٹ پیش کیا۔ جس میں بیگوں کے جائزہ لینے کا حکم دیدیا گیا تھا۔