سعدرفیق کے بعد قومی اسمبلی کے 51حلقے خطر ے میں پڑ گئے ،مولانا فضل الرحمان،حمزہ شہباز،عابد شیرعلی ،خورشید شاہ،شاہ محمودقریشی ،مولانا شیرانی ،سکندر بوسن بھی متاثر ہو سکتے ہیں ،ن لیگ کے 32،پی پی کے چھ ،پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے تین تین اراکین کی رکنیت خطرے میں پڑ گئی ،الیکشن کمیشن کے پاس 51حلقوں کے فارم 14اور 15غائب،ذرائع الیکشن کمیشن

بدھ 6 مئی 2015 09:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6 مئی۔2015ء) حلقہ این اے 125 پر الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے بعد 51 حلقوں میں دوبارہ انتخابات ہوسکتے ہیں۔ الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کی بنیاد پر کئی اور بڑے برج الٹ سکتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کے بعد اکیاون اراکین اسمبلی کی رکنیت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ خواجہ سعد رفیق کے بعد 51 اراکین اسمبلی کی رکنیت خطرے کی ذد میں ہے ۔

الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ خواجہ سعد رفیق کے حلقے میں انتخابی دھاندلیوں کے ثبوت ملنے کے بعد دوبارہ انتخابات کروانے کا فیصلے کی بنیاد پر دیگر 51 حلقوں کے نتائج مشکوک ہوسکتے ہیں۔ حلقہ این اے 125 میں مصدقہ نتائج کی غیر موجودگی کے باعث الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کی بنیاد بنی ہے۔ حلقہ این اے 125 کے کئی پولنگ اسٹیشن کے فارم چودہ اور فارم پندرہ ہی غائب تھے۔

(جاری ہے)

ذرائع نے بتایا کہ فارم چودہ میں پولنگ اسٹیشن پر انتخابی نتائج جبکہ فارم پندرہ میں بیلٹ پیپر کی تفصیلات ہوتی ہیں پولنگ اسٹیشن غیر مصدقہ نتائج کی غیر موجودگی وجہ بنی تو اکیاون حلقوں کی انتخابات کالعدم ہوسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس قومی اسمبلی کے 51 حلقوں کے انتخابی فارم کا کوئی ریکارڈ نہیں متعلقہ حلقوں کے ریٹرننگ افسران نے پولنگ اسٹیشن مصدقہ نتائج الیکشن کمیشن کو بھجوائے ہی نہیں مشکوک نتائج والوں میں نواز لیگ کے 32 ‘ جے یو آئی 6 ‘ پاکستان پیپلزپارٹی کے تین ارکان شامل ہیں‘ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے تین تین ارکان کے حلقوں کے مصدقہ نتائج غائب ہیں۔

مذکورہ حلقوں میں پنجاب کے چھتیس ‘ سندھ کے سات‘ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے تین تین حلقے شامل ہیں خواجہ سعد رفیق کے بعد اکیاون اراکین اسمبلی کی رکنیت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن ‘ حمزہ شہباز شریف‘ عابد شیر علی‘ شاہ محمود قریشی‘ سکندر بوسن ‘ خورشید شاہ‘ مولانا شیرانی‘ آفتاب شعبان میرانی اور غوث بخش مہر ‘ جعف خان لغاری کی نشستیں بھی خطرے میں پڑ گئی ہیں۔

این اے 125 کے فیصلے کی بنیاد پر کئی اور بڑے برج الٹ سکتے ہیں۔ ذرائع الیکشن کمیشن نے خبردارکیا ہے کہ این 125 میں مصدقہ نتائج کی غیر موجودگی الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کی بنیاد بنی ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس اکیاون حلقوں کا کوئی ریکارڈ شامل نہیں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پولنگ اسٹیشن کے مصدقہ نتائج کی غیر موجودگی وجہ بنی تو اکیاون حلقوں کے انتخابات کالعدم ہوسکتے ہیں۔ اکیاون حلقوں کے ریٹرننگ افسران نے پولنگ اسٹیشن سے مصدقہ نتائج الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوائے۔