کھاتے داروں کے تحفظ کی ذمہ داری پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا،اسٹیٹ بینک ،کے اے ایس بی بینک میں 1.5لاکھ کھاتے داروں کے 57ارب روپے داوٴ پر لگے ہیں، اسے کسی کمزور سرمایہ کار کے حوالے نہیں کریں گے ،چینی سرمایہ کاروں کے ساتھ اسٹیٹ بینک کی سودے بازی کی باتیں افواہیں ہیں،ترجمان عابد قمر ن کا مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب

ہفتہ 2 مئی 2015 08:29

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔2 مئی۔2015ء) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ کھاتے داروں کے تحفظ کی ذمہ داری پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔کے اے ایس بی بینک میں 1.5لاکھ کھاتے داروں کے 57ارب روپے داوٴ پر لگے ہیں، اس لیے کے اے ایس بی بینک کو کسی کمزور سرمایہ کار کے حوالے نہیں کریں گے جبکہ چینی سرمایہ کاروں کے ساتھ اسٹیٹ بینک کی سودے بازی کی باتیں افواہیں ہیں۔

کے ایس بی بینک کے انضمام کیلئے 4بینکوں عسکری بینک،بینک اسلامی،سندھ بینک اور جے ایس بینک نے دلچسپی ظاہر کی تھی تاہم بینک اسلامی کے سوا دیگر تینوں بینک انضمام کے قواعد کو پورا نہ کرسکے ،کے ایس بی بینک کے بینک اسلامی میں انضمام کا معاملہ وزارت خزانہ کے پاس ہے اور وہاں سے منظوری آنے کے بعد ہی ان بینکوں کا انضمام مکمل ہوجائے گا۔

(جاری ہے)

یہ بات اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے چیف ترجمان عابد قمر نے مرکزی بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید عرفان علی اور ڈائریکٹرارشد محمود بھٹی کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہی۔

عابد قمر نے کہا کہ ڈپازٹرز کے مفاد کا تحفظ کرنا اور بینکاری نظام کے استحکام کو یقینی بنانا بینک دولت پاکستان کے مینڈیٹ کا حصہ ہے ، بینکاری لائسنس کے اجرا کا مطلب کسی ادارے کو یہ اجازت دینا نہیں ہے کہ وہ عوام سے ڈپازٹس لے کر آگے قرض دینے میں استعمال کرے۔ عوام سے پیسہ وصول کرنے کے اختیار کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے ، اسٹیٹ بینک بطور احتیاطی اقدام اور مینڈیٹ کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے بینک میں ہر ممکنہ سرمایہ کار کی جو ایک خاص شرح سے زیادہ سرمایہ کاری کرنا چاہے (جو اس وقت 5فیصد ہے )موزونیت اور مناسبت کو جانچتا ہے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ سرمایہ کار اپنی مالی ذمہ داریاں پوری کرسکتا ہے اور اسے عوام کے ڈپازٹس جمع کرنے کا لائسنس دیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کے اے ایس بی بینک کے معاملے میں اسٹیٹ بینک یہ ارادہ رکھتا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد ڈپازٹرز کے 57ارب روپے کی ادائیگی کو یقینی بنائے اور تمام متعلقہ فریقوں خصوصاً ڈپازٹرز کے بہترین مفاد میں اور تمام بینکاری نظام کی پائیداری کی خاطر بینک کا مناسب طور پر تصفیہ کرے۔انہوں نے کہا کہ کے ایس بی بینک لمیٹڈ (دی بینک) 2009 سے کم از کم سرمائے کی شرط اور شرح کفایت سرمایہ دونوں کے لحاظ سے سرمائے کی شدید کمی کا سامنا کرتا رہا ہے ، 30 ستمبر 2014ء تک بینک کی کم از کم سرمائے کی شرط (نقصانات کو منہا کرکے )0.958ارب روپے اور شرح کفایت سرمایہ منفی 4.63فیصد تھی جبکہ مطلوبہ سطحیں بالترتیب 10ارب روپے اور 10فیصد ہیں (یعنی کم از کم سرمائے کی شرط میں9.04ارب روپے اور شرح کفایت سرمایہ میں 14.63 فیصد کی کمی تھی)،اسٹیٹ بینک کی جانب سے نگرانی کے عمل کی جانچ کے نتیجے میں نگرانی کے مسائل کے پیش نظر بینکوں کو تصفیے پر رکھا جاتا ہے ،اسٹیٹ بینک نے متعلقہ اقدامات اس وقت شروع کیے جب کے اے ایس بی بینک میں نگرانی کے حوالے سے مسائل سامنے آئے ،بینک کی ادائیگی قرض کی کمزور صورتحال اور نگرانی کے حوالے سے سنگین خلاف ورزیوں کے پیش نظر اسٹیٹ بینک نے بینک پر بعض پابندیاں عائد کیں اور اسپانسرز کو سرمایہ داخل کرنے کی ہدایت کی،تاہم نہ تو اسپانسرز نے سرمایہ داخل کیا اور نہ ہی تصفیے کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں، اس کے بجائے بینک اسٹیٹ بینک کی عائد کردہ پابندیوں پر عمل کرنے میں ناکام رہا،نتیجے کے طور پر 3جون 2013کو اسپانسرز اور بورڈآف ڈائریکٹرز کو اسٹیٹ بینک کے ساتھ ایک حلف نامے پر دستخط کرنے کی ہدایت کی گئی تاکہ ضوابطی شرائط پوری کی جاسکیں اور مئی 2014 تک سرمائے کی کمی کو پورا کیا جاسکے ،2014 میں کے اے ایس بی بینک کو اسٹیٹ بینک کی طرف سے موقع دیا گیا کہ ملک کی مارکیٹ میں جہاں مناسب ہو کسی اور بینک کے ساتھ ضم ہوجائے ، تاہم بینک اسپانسرز یہ عمل کرنے میں ناکام رہے ،سرمائے کی اساس کم ہونے کے علاوہ بینک کے نظم و نسق کے امور میں بھی سنگین مسائل دیکھے گئے جیسے بینک کے روزمرہ معاملات میں اسپانسرز کی شمولیت جو متعلقہ ضوابطی ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔