سپریم کورٹ،فل بنچ کے سامنے 18ویں و21ویں آئینی ترامیم وفوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں کی سماعت،اداروں کے درمیان کوئی جنگ ہے نہ ٹکراوٴ، بتایا جائے کہ ججز تقرری پارلیمانی کمیٹی آئین کی کس شق کے خلاف ہے، چیف جسٹس ناصر الملک کے ریمارکس ،سماعت آج بھی جاری رہے گی

بدھ 29 اپریل 2015 08:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔29 اپریل۔2015ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اداروں کے درمیان کوئی جنگ ہے نہ ٹکراوٴ، دیکھ رہے ہیں کہ آئینی ترامیم کے تحت کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17رکنی فل بینچ نے منگل کے روز 18ویں و21ویں آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران سماعت میں لاہور ہائی کورٹ بار کے وکیل حامد خان کے دلائل پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس بات سے کسی کو انکار نہیں عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ سے علیحدگی آئین کا اہم نکتہ ہے، اگر پارلیمانی کمیٹی کو جوڈیشل کمیشن کا حصہ بنا دیا جائے تو پھر آپ کو قبول ہوگا کیا اس صورت میں اختیارات کی تقسیم متاثر نہیں ہوگی۔

(جاری ہے)

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ہم آئین میں ایسی ترامیم کیوں نہیں لاتے جو ہمارے حالات کے مطابق ہو، چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ججز پارلیمانی کمیٹی عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم کے خلاف ہے، یہ بھی بتایا جائے کہ ججز تقرری پارلیمانی کمیٹی آئین کی کس شق کے خلاف ہے۔ ہر ملک میں ججز کی تقرری کا طریقہ کار مختلف ہے ترمیم ہوگی تو مقدمات بھی عدالتوں میں آئیں گے۔

دیکھ رہے ہیں کہ ترمیم کے تحت کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی ہمارا دوسرے ممالک کی عدالتوں سے متاثر ہونا ضروری نہیں۔حامد خان کے بعد بیرسٹر ظفر اللہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے 18ویں ترمیم میں عبوری حکم دیا جس کی وجہ سے پارلیمنٹ نے 19ویں ترمیم منظور کی جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت نے 19 ویں ترمیم جبراً منظور کرائی، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عبوری حکومت میں پارلیمنٹ کو ہدایت نہیں تجویز دی تھی، بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے باعث اداروں میں جنگ ہوئی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اداروں میں کوئی جنگ ہے نہ ٹکراوٴ۔ کیس کی مزید سماعت آج بدھ کو ہوگی۔