آئندہ مالی سال کے بجٹ میں گریڈ ایک سے چار تک کے ملازمین کو اے گریڈ دینے اور ڈومیسائل وبرتھ سرٹیفکیٹ سمیت تمام ضروری دستاویزات کی فراہمی ایک ہی چھت تلے کی جائے گی،پرویز خٹک ،تحریک انصاف کے علاوہ دیگر تمام پارٹیاں اپنے منشور سے سے ہٹ چکی ہیں،صوبہ کے پی کے میں نظام کی تبدیلی کے لیے قانون سازی کی ہے جس سے کے پی کے میں تبدیلی آگئی ہے صوبے کے وزیر اعلیٰ کے پاس ایک سپاہی تبدیل کرنے کا ختیار بھی نہیں ہے، سی پی این ای کے زیر انتظام تربیتی ورکشاپ سے خطاب

اتوار 26 اپریل 2015 04:30

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔26 اپریل۔2015ء)وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں گریڈ ایک سے چار تک کے ملازمین کو اے گریڈ دینے اور ڈومیسائل وبرتھ سرٹیفکیٹ سمیت تمام ضروری دستاویزات کی فراہمی ایک ہی چھت تلے کی جائے گی ،تحریک انصاف کے علاوہ دیگر تمام پارٹیاں اپنے منشور سے سے ہٹ چکی ہیں،صوبہ کے پی کے میں نظام کی تبدیلی کے لیے قانون سازی کی ہے جس سے کے پی کے میں تبدیلی آگئی ہے صوبے کے وزیر اعلیٰ کے پاس ایک سپاہی تبدیل کرنے کا ختیار بھی نہیں ہے، وہ گزشتہ روز کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز کے زیر انتظام پشاور کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ سہ روزہ تربیتی ورکشاپ کے افتتاح کے موقع پرخطاب کر رہے تھے۔

تقریب میں صوبائی وزیراطلاعات مشتاق احمد غنی ،سی پی این ای کے صدر مجیب الرحمٰن شامی ،سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جبار خٹک ،نائب صدر طاہر فاروق ،پیر سفید شاہ ،یو این ڈی پی کے نیشنل ٹیکنیکل ایڈوائزر امجد بھٹی ،سابق سیکرٹری ایمپلیٹیشن احمد زاہد محمود اوردیگر بھی موجود تھے ۔

(جاری ہے)

پرویز خٹک نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں گریڈ ایک سے چار تک کے ملازمین کو اے گریڈ دینے اور ڈومیسائل وبرتھ سرٹیفکیٹ سمیت تمام ضروری دستاویزات ایک ہی چھت تلے فراہم کردی جائے گی تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی منشور سے ہٹ چکی ہیں ،نہ کسی کو روٹی ،کپڑا ،مکان یاد ہے اور نہ ہی دین واسلام کے منشور کے علمبردار اپنے منشور پر عمل کررہے ہیں لیکن ہمارے پاس اپنے تبدیلی کے منشور پر عمل کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں اس لیے ہم اس پر عمل کررہے ہیں اور ہمیں طعنے دینے والے خیبرپختونخوا میں آکر دیکھیں انھیں تبدیلی خود بخود نظر آجائے گی ۔

وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کہا کہ ہم نے صوبہ میں نظام کی تبدیلی کے لیے پہلے مرحلہ میں قانون سازی کی ،ہم نے دو سال ایسے ہی نہیں گزارے ،مجھے سیاست کرتے ہوئے 31 سال ہوگئے ہیں لیکن پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ہم نے وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء کی تصاویر اشتہارات میں دینے پر پابندی عائد کی جبکہ سرکاری پیسہ خود استعمال کرنا ہم حرام سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سرکاری امور میں شفافیت لانے کی غرض سے رائٹ ٹو انفارمیشن کا قانون پاس کیا تاہم افسوس کی بات ہے کہ مرکز میں جو بیوروکریٹس ہوتے ہیں ان کا تعلق کسی اور دنیا سے ہوتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ نہ تو صوبوں میں کام کرنے کی استعداد ہے اور نہ ہی ان کے پاس وہ اسٹریکچر۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں طعنے دیئے جاتے ہیں کہ ہمارے ترقیاتی فنڈز لیپس ہوجاتے ہیں ،کیا یہ پیسہ کسی اور ملک کا ہے جو لیپس ہوجائے گا ،یہ ہمارا ہی پیسہ ہے جو ایک سال میں رہ جائے تو دوسرے سال کی جاری سکیموں کو منتقل کردیاجاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اب لازمی کردیا ہے کہ جو بھی سڑک بنائی جائے وہ دس سال سے پہلے نہ ٹوٹے نہ ہی نئی عمارات آثار قدیمہ کا نقشہ پیش کریں ،ہم سے پہلے جو حکمران تھے وہ میرے سامنے ہیں لیکن ہم نے سرکاری اداروں سے سیاست بازی کا خاتمہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ کیا میگا پراجیکٹ صرف جنگلہ بس بنانا ہی ہے ؟ہم نے تو غریب آدمی کی زندگی کو سہل بنانے کے لیے کام کیا اور پوری دنیا میں ترقی اسی لیے ہوئی کہ ان لوگوں نے نظام بنایا اوراداروں کی جانب سے مداخلت نہیں کی گئی اور آج میرے پاس ایک سپاہی بھی تبدیل کرنے کا اختیار نہیں اور نہ ہی کوئی ایک ایف آئی آر غلط رجسٹر ہوئی ہے ،سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی ترقیوں کو امتحانات کے نتائج سے منسلک کردیاگیاہے تاکہ بچے سکول چھوڑ کر نہ جائیں اور اب تک 4500 اساتذہ کے خلاف کیس بن چکے ہیں جبکہ ایک ہزار کو فارغ کیاجاچکا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اسمبلی سے اب تک 80 قوانین کی منظوری کرائی ہے ۔ڈاکٹر طبقہ نہ خود کام کرتا ہے اور نہ ہمیں کام کرنے دیتا ہے اور انکی ہڑتالوں کی وجہ سے ہسپتالوں کا نظام درست نہیں ہوسکا ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے تجاوزات کے خلاف کاروائی کی جو جاری رہے گی کیونکہ کوئی اپنی زمین کا ایک انچ بھی کسی کو نہیں دیتا لیکن سرکارکی آٹھ ،دس فٹ جگہ لوگون نے پکڑی ہوئی تھی ،دس سالوں میں صوبہ میں 400 ارب کی لکڑی غیر قانونی طور پر کاٹی اور سمگل کی گئی ۔

انہوں نے اس موقع پر سی پی این ای کے لیے 2 کروڑ روپے کے فنڈز کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اخباری مالکان اور ایڈیٹرز بھی صحافیوں کی فلاح وبہبود کا خیال رکھیں کیونکہ یہی لوگ اخبارات اٹھاتے بھی ہیں اور گراتے بھی اس لیے ان کا مطمین ہونا ضروری ہے۔ صوبائی وزیراطلاعات مشتاق احمد غنی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ عنقریب صوبائی حکومت پورے ملک سے ایڈیٹرز اور اینکر پرسنز کو پشاور بلارہی ہے جنھیں تحریک انصاف کی حکومت کی دو سالہ کارکردگی پر تفصیلی بریفنگ دی جائے گی۔

تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے دو سالوں کے دوران کئی اقدامات کیے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان کی پبلسٹی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے دو سال ہاتھ پر ہاتھ دھرے گزار دیاہے لیکن ہم یہ تاثر اب دو رکرنے کے لیے سب کو اپنی کارکردگی بتانا چاہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے دو سالوں کے دوران جو قانون سازی کی اور جو کام کیے ان کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ اہلیان صحافت ہماری تعریفیں کریں بلکہ ہماری خواہش ہے کہ جو حقیقت ہے وہ پوری دنیا کو بتائی جائے اور جہاں ہم غلطی پر ہوں وہاں ہماری اصلاح اور رہنمائی بھی کی جائے ۔انہوں نے کہا کہ صحافت کے بغیر کوئی حکومت مکمل نہیں ہوتی ۔ سی پی این ای کے صدر مجیب الرحمٰن شامی نے کہاہے کہ ایک وقت تھا کہ جب خیبرپختونخوا سے خان قیوم جیسے لوگ مضبوط مرکز کی بات کرتے تھے لیکن آج واضح ہے کہ اختیارات صوبوں اور نچلی سطح پر منتقل ہونے چاہئیں ورنہ فیڈریشن اور جمہوریت نہیں رہ سکے گی۔

سی پی این ای کے زیر اہتمام پشاور میں منعقدہ سہ روزہ ورکشاپ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یو این ڈی پی کی مدد سے اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے ورکشاپوں کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ مرکز اور صوبوں کے درمیان معاملات دستور کے مطابق چل سکیں ۔انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے بلدیات سے متعلق جو قانون بنایا ہے وہ حقیقی معنوں میں بہترین قانون ہے کیونکہ اس کے ذریعے نچلی سطح پر عوام کو بااختیار بنایاگیاہے جبکہ دیگر صوبے اس معیار پر پورے نہیں اترتے اور انھیں خیبرپختونخوا کی تقلید کرنی چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ مرکز نے صوبوں کو اختیارات اس لیے منتقل نہیں کیے کہ چار مزید اسلام آباد بن جائیں بلکہ یہ اختیارات ا سلیے صوبوں کو دیئے گئے ہیں تاکہ وہ اضلاع کو منتقل کریں لیکن افسوس کی بات ہے ک پاکستان میں جس کے بھی پاس اختیارات ہوں وہ اسے کسی اور کو دینا نہیں چاہتا اور اس سے یوں چمٹ جاتا ہے جیسے اس سے محبت ہی انسانیت اور پاکستانیت کے تقاضے پورے کرتی ہے حالانکہ اصل کام عام آدمی فلاح وبہبود ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعد تحریک انصاف تیسری بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے ۔سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جبار خٹک نے کہا کہ ہماری تاریخ میں 1973 ء کے آئین کے بعد اتھارویں ترمیم ملکی تاریخ کا بڑا واقعہ ہے کیونکہ تمام جماعتیں اس پر متفق تھیں ۔انہوں نے کہاکہ اٹھارویں ترمیم کے تحت مرکز کو فیصلہ شدہ اختیارات اور محکمے صوبوں کو منتقل کرنے چاہیں تاہم اب بھی مرکز کئی محکمے دبائے بیٹھا ہے جو غیر آئینی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم ان ورکشاپس کے منٹس یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے حوالے کرینگے تاکہ وہ انھیں یونیورسٹیوں میں شعبہ صحافت کے لیے باقاعدہ طور پر سلیبس کا حصہ بنائیں ۔سی پی این ای کے نائب صدر طاہر فاروق نے اپنے خطاب میں تمام شرکاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسی ورکشاپ کا انعقاد کیاجارہاہے جو نہایت ہی خوش آئند ہے اور یہ سلسلہ اب جاری رہے گا۔