گزشتہ برس سے 40 فیصد زائد رقم خواتین اور بچوں کے تحفظ کیلئے رکھی گئی‘ پرویز رشید،ایل این جی کو پائپ لائن نہ کرنے سے روزانہ 2 کروڑ کا نقصان ہو رہا ہے‘ شفقت محمود،ایل این جی قیمتوں کا تعین وزیراعظم کے ایل این جی افتتاح کے بعد ہو گا‘ وزیر مملکت پیٹرول جام کمال،،وزیر پیٹرولیم پر پیپلزپارٹی کی رکن نفیسہ شاہ برہم‘ شفقت محمود اور شیریں مزاری طنزیہ مسکارتی رہیں‘ قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کی کارروائی

جمعہ 24 اپریل 2015 04:57

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔24 اپریل۔2015ء) وفاقی وزیر اطلاعات و قانون انصاف پرویز رشید نے کہا ہے کہ گزشتہ برس سے 40 فیصد زیاد رقم خواتین اور بچوں کے حقوق اور تحفظ کے لئے رکھی گئی ہے‘ وفاقی حکومت نے تمام گزشتہ برس کا اعداد و شمار جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کی حکومت نے ہمیں اعداد و شمار نہیں دیئے باقی تمام صوبوں نے اعداد و شمار فراہم کر دیئے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوال میں جواب دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اس وقت مستعدی سے بچوں اور عورتوں کے حقوق کے لئے کام کر رہی ہے گزشتہ برس سے 40 فیصد زیادہ رقم عورتوں اور بچوں کے حقوق کے لئے مختص کی گئی ہے انہوں نے اسمبلی میں بتایا کہ وفاقی حکومت نے تمام صوبوں سے خواتین اور بچوں کے حقوق کے لئے مختص کی گئی رقم کے بارے میں تفصیلات مانگی تھی تاہم اب تک پنجاب اور سندھ نے تفصیلات جاری کر دی ہیں بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کو اس ضمن میں 2 بار خط بھی لکھا۔

(جاری ہے)

ایک خط 10 اپریل اور دوسرا 16 اپریل کو لکھا تھا اور اب ان کو یقین دہانی کے لئے دوبارہ خط لکھ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شہید بینظیر بھٹو مرکز برائے خواتین کے لئے 2010-11 میں 4.755 ملین روپے‘ 2011-12 میں 10.282 ملین روپے‘ 2012-13 میں 8.501 ملین روپے‘ 2013-14 میں 6.909 ملین روپے جبکہ 2014-15 میں 10.175 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ قومی مرکز برائے تحفظ بچگان اسلام آباد کے لئے 2010-11 میں 4.726 ملین روپے‘ 2011-12 میں 6.389 ملین روپے‘ 2012-13 میں 6.697 ملین روپے‘ 2013-14 میں 8.793 ملین روپے جبکہ 2014-15 میں 9.532 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔

اسی طرح مرکز بہبود و ترقی خواتین کے لئے بھی رقوم مختص کی گئی ہیں جو کہ 2010-11 میں 4.919 ملین روپے‘ 2011-12 میں 5.600 ملین روپے‘ 2012-13 میں 6.400 ملین روپے‘ 2013-14 میں 16.400 ملین روپے جبکہ 2014-15 میں یہی رقم 40 فیصد بڑھ کر 23.300 ملین روپے مختص کر دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2015 میں غیرترقیاتی اسکیموں کے لئے کل 212.265 ملین روپے رکھے گئے ہیں جن میں خواتین کے اداروں کے لئے 147.233 ملین روپے اور بچوں کے اداروں کے لئے 65.032 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔

وفاقی وزیر نے مزید بتایا کہ ترقیاتی اسکیموں کے لئے 2015 میں کل 127.93 ملین روپے رکھے گئے ہیں جن میں زیادہ تر رقم خواتین کے ترقیاتی منصوبے کے لئے رکھے گئے ہیں۔ وزیر مملکت برائے پٹرولیم جام کمال پر نفیسہ شاہ برہم‘ شفقت محمود اور شیری مزاری طنزیہ مسکراتی رہیں اور لفظی جملوں کا تبادلہ‘ وزیر موصوف کو اپنی وزارت کے اہم امور کا پتہ نہیں‘ شفقت محمود۔

وزیر مملکت برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل جام کمال نے کہا ہے کہ ایل این جی گیس کی قیمت کا تعین نہیں ہوا وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے افتتاح کے بعد ہی قیمت کا صحیح تعین ہو سکے گا۔ شروع میں ایل این جی صرف توانائی کے شعبوں میں استعمال کی جائے گی‘ بعد میں دیگر شعبوں کو دی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی میں پوچھے گئے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایل این جی کی قیمت کا تعین ابھی تک نہ ہو سکا اس سلسلے میں وزارت سے مزید معلومات لے کر اسمبلی میں پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ایل این جی کا افتتاح کریں گے اس کے بعد قیمت کا تعین بھی کیا جائے گا۔ کیونکہ اس کی قیمت کا تعین کے لئے مکمل سسٹم کے تحت کام کیا جا رہا ہے اس دوران ضمنی سوال پر تحریک انصاف کے رکن شفقت محمود نے کہا کہ ایل این جی پاکستان پہنچ چکی ہے اور سمندر میں لنگر انداز ہے لیکن اس کو پائپ لائن نہیں کیا جا رہا جس کی وجہ سے روزانہ 2 کروڑ کا نقصان ہو رہا ہے جس پر وزیر نے بتایا اس سلسلے میں حکومت کام کر رہی ہے اور وقت آنے پر ایل این جی کو فراہم کر دیا جائے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی رکن نفیسہ شاہ نے کہا کہ حکومت غیر تسلی بخش جواب دیتی ہے۔ حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ یہاں پارلیمنٹیرین بغیر دماغ کے بیٹھے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمیں اداروں سے صحیح جواب مل جاتے ہیں لیکن حکومت ہمیں احمق سمجھ کر غلط بیانی کرتی ہے۔ تابڑ توڑ سوالوں پر وزیر مملکت جام کمال نے کہا کہ لگتا ہے تمام اراکین ایل این جی کے بارے میں بہت پڑھ کر آئے ہیں اور بہت سخت سوال کر رہے ہیں۔ جس پر تحریک انصاف کے شفقت محمود اور شیریں مزاری طنزیہ مسکراتے رہے۔ اور لفظی جملوں کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔