لاہور سے چار سال قبل اغواء ہونے والے امریکی شہری سمیت 2 مغویوں کی پاک افغان سرحد پر امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کا انکشاف ،صدر اوباما نے معافی مانگ لی، جنوری میں انسدادِ دہشت گردی ٹیم کی ایک کارروائی میں القاعدہ کے ہاتھوں یرغمال بنائے امریکی ڈاکٹر وارن وان سٹائن اور اطالوی جیوانی لو پورتو کے علاوہ امریکہ سے تعلق رکھنے والے القاعدہ کے رہنما احمد فاروق ہلاک ہو گئے تھے،وائٹ ہاؤس، ہلاکتوں کی پوری ذمہ داری اٹھاتے ہوئے واقعہ کا مکمل جائزہ لینے کا حکم دیتے ہیں، ایسی معلومات نہیں تھیں کہ دونوں مغوی القاعدہ کے اس ٹھکانے پر موجود ہیں،جو کچھ بھی ہوا اس پر انتہائی افسوس ہے، سانحہ سے سبق حاصل کریں گے ، پوری کوشش کریں گے کہ آئندہ ایسی غلطی نہ ہو،امریکی صدر کی صحافیوں سے گفتگو

جمعہ 24 اپریل 2015 04:49

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔24 اپریل۔2015ء )پاکستان کے صوبائی دارالحکومت لاہور سے چار سال قبل اغواء ہونے والے امریکی شہری سمیت 2 مغویوں کی پاک افغان سرحد پر امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کا انکشاف ہوا ہے ،حملے میں مارے جانے والا دوسرا مغوی اطالوی تھا ،امریکی صدر براک اوباما نے ڈرون حملوں میں امریکی فورسز کی غلطی کا اعتراف اور مغویوں کی ہلاکت پر افسوس کرتے ہوئے امریکی قوم اور لواحقین سے معافی مانگ لی ۔

تفصیلات کے مطابق امر یکی شہری ڈاکٹر وائن سائن کو 2011میں طالبان نے لاہور کے علاقہ ماڈل ٹاؤن سے اغواء کیا جسکے بعد پو لیس اور قانون نافذ کر نیوالے اداروں نے انکے اغواء کے الزام میں کئی مشکوک افراد کو بھی گر فتار کر نے کا دعویٰ کیا لیکن چار سال گزرنے کے باوجود اسکو بازیاب نہیں کروایا جاسکا تھا۔

(جاری ہے)

عالمی میڈیا کے مطابق وائٹ ہاوٴس کا کہنا ہے کہ جنوری میں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں امریکی انسدادِ دہشت گردی ٹیم کا ایک کارروائی میں القاعدہ کے ہاتھوں یرغمال بنائے جانے والے امریکی اور ایک اطالوی شہری ہلاک ہو گئے تھے ۔

وائٹ ہاوٴس نے بتایا ہے کہ آپریشن میں امریکی ڈاکٹر وارن وان سٹائن اور اطالوی جیوانی لو پورتو کے علاوہ امریکہ سے تعلق رکھنے والے القاعدہ کے ایک رہنما احمد فاروق بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ایک مختلف آپریشن میں امریکہ میں القاعدہ کے ایک اور رکن آدم غادان بھی مارے گئے تھے۔امریکی صدر براک اوباما نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ وہ ہلاکتوں کی پوری ذمہ داری اٹھاتے ہوئے واقعہ کا مکمل جائزہ لینے کا حکم دیتے ہیں۔

صدر نے بتایا کہ دونوں مغوی پاکستان اور افغانستان سرحد کے قریب القاعدہ کے ایک ٹھکانے پر کارروئی میں ہلاک ہوئے۔انہوں نے بتایا کہ یہ مشن بھی خطے میں دوسرے مشنز کے مروجہ اصولوں کے تحت کیا گیا تھا۔اوباما کے مطابق، ان کے پاس کوئی ایسی معلومات نہیں تھیں کہ دونوں مغوی القاعدہ کے اس ٹھکانے پر موجود ہیں۔’بطور ایک شوہر اور ایک والد میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ آج وائن سٹائن اور لو پورٹو کے اہل خانہ کس کرب میں مبتلا ہوں گے‘۔

’جو کچھ بھی ہوا مجھے اس پر انتہائی افسوس ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس سانحہ سے کچھ سبق حاصل کر سکیں۔ہم پوری کوشش کریں گے کہ آئندہ ایسی غلطی نہ ہو‘۔اوباما نے بتایا کہ انہوں نے اس آپریشن کی کچھ تفصیلات عام کی ہیں تاکہ متاثرہ خاندان جان سکیں کہ آپریشن میں کیا ہوا۔وائن سٹائن کو 2011 میں لاہور سے اغوا کیا گیا تھا جہاں وہ ایک امریکی فرم کے لیے کام کرتے تھے۔

القاعدہ نے کہا تھا کہ ان کے بدلے میں امریکہ کی قید میں ایک شدت پسند کو رہا کر دیا جائے تو وہ انھیں چھوڑ دیں گے۔وائن سٹائن کی دو ویڈیوز مئی 2012 اور دسمبر 2013 میں جاری کی گئی تھیں جس میں انھوں نے صدر اوباما سے اپنی رہائی کے معاملے میں مداخلت کی اپیل کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دل اور دمے کے مرض میں مبتلا ہیں۔اطالوی امدادی کارکن لو پورتو جنوری 2012 سے پاکستان میں لاپتہ تھے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی ڈرون حملے میں کوئی مغوی ہلاک ہوا ہووائٹ ہاوٴس نے کارروائی کی تفصیل تو نہیں بتائی لیکن اخبار وال سٹریٹ جنرل کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ نے ڈرون حملے میں حادثاتی طور پر کسی مغوی کو ہلاک کر دیا ہو۔وائٹ ہاوٴس نے کہا ہے کہ صدر اوباما اس کارروائی کی پوری ذمہ داری لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انسدادِ دہشت گردی کے آپریشنوں کے متعلق جہاں تک ممکن ہو امریکی عوام کو آگاہ رکھا جائے، خصوصاً اس وقت جب ان میں دوسرے امریکی شہریوں کی ہلاکت بھی ہو جاتی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اگرچہ آپریشن قانون کے مطابق کیا گیا تھا اور ہماری انسدادِ دہشت گردی کی پالیسیوں سے مطابقت رکھتا تھا لیکن پھر بھی ہم اس پر مکمل آزادانہ نظرِ ثانی کر رہے ہیں تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ وہاں کیا ہوا تھا اور ہم کیسے مستقبل میں اس طرح کے المناک سانحوں سے بچ سکتے ہیں۔‘اطالوی میڈیا کے مطابق سسلی کے شہر پالیرمو سے تعلق رکھنے والے لو پورتو کو پاکستان آنے کے تین روز بعد ہی اغوا کر لیا گیا تھا۔ وہ 2010 کے سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے کام کرنے والی ایک جرمن تنظیم سے وابستہ تھے۔ایک اور شخص کو بھی ان کے ساتھ اغوا کیا گیا تھا لیکن جرمنی کی خصوصی فورسز نے اکتوبر 2014 کو ایک آپریشن میں انھیں بازیاب کروا لیا تھا۔