وزارت پٹرولیم نے29 ارب تیل چوری کی تحقیقات مکمل لیں ،پی ایس او یونین اور ایم این اے جمشید دستی نے بھی بہتی گنگا ہاتھ دھوئے

جمعرات 23 اپریل 2015 05:15

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23 اپریل۔2015ء)وزارت پٹرولیم نے29 ارب تیل چوری کی تحقیقات مکمل کر لی ہیں اورتحقیقاتی رپورٹ میں پی ایس او یونین اور ایم این اے جمشید دستی کو تیل چوری میں ملوث قرار دیا گیا ہے ۔وزارت پٹرولیم کے دستاویزات کے مطابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی اور پی ایس او کے یونین کے ورکر صدر راشیل عالم محمود کوٹ تیل ڈپو میں تیل چوری میں ملو ث ہونے کے الزام ہیں اور اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات شروع کر دی گئیں ہیں جبکہ شکار پور میں انسٹالیشن کے اسسٹنٹ انور مہر تیل چوری میں ملوث پائے گئے ہیں۔

پی ایس او کی یونین لیڈر تیل چوری میں ملوث ہیں اور ان کے اثاثے اربوں تک پہنچ چکے ہیں جن کی اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات شروع کر دی گئیں ہیں،پی ایس او یونین نے تیل چوری میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ پی ایس او انتظامیہ کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا ہے اور اپنی ماہانہ تنخواہیں ایک لاکھ20 ہزار سے لیکرایک لاکھ50 ہزار تک وصول کررہے ہیں لیکن پھر بھی وہ انتظامیہ کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا ہے اور تیل سپلائی لائن کو بند کرنے کی بھی دھمکی دی ہے ۔

(جاری ہے)

خبر رساں ادارے کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق پاکستان اسٹیٹ ائل ایک قومی ادارہ ہے اور ملک وقوم کی توانائی کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ مگر کچھ کالی بھیٹریں اپنی حرکتوں سے نہ صرف اس قومی ادارے کو بلکہ ملک کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اس ادارے کی لیبر برادری جنھیں نان مینجمنٹ اسٹاف کہا جاتا ہے جس کے اکثر افراد پی ایس او کے آئل ٹرمینل اور ڈپوز پر کام کرتے ہیں۔

جن میں کچھ لوگ تیل کی چوری ، پروڈکٹ میں خردبرد اور ملاوٹ جیسی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال پی ایس او ورک مین یونین کے صدر راشیل عالم کی ہے جو محمود کوٹ ٹرمینل پرایک اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق ممبر جمشید دستی کے ساتھ آئل کی چوری میں ملوث ہے اور لاکھوں روپے کما چکا ہے۔ دوسری مثال شکار پور انسٹالیشن کے اسسٹنٹ انور مہر کی ہے جسے انڈسٹری کے متعلقہ لوگ ''کنگ مافیا'' کے طور پر جانتے ہیں کیونکہ وہ تیل کی چوری ، پروڈکٹ میں ملاوٹ اور خردبرد کے علاوہ رشوت لینے کے معاملات میں بھی خاص شہرت رکھتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عہدے کے لحاظ سے صرف ایک معمولی اسسٹنٹ ہونے کے باوجود یہ پراڈو جیسی مہنگی گاڑیوں کے مالک ہیں اور ان کا رہن سہن ان کہ ظاہری معاشی حیثیت سے بھی کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ دستاویزات کے مطابق آل پی ایس او ورک مین یونین پی ایس او کی مینجمنٹ کے ساتھ اپنی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافہ کے لیے مذاکرات کر رہی ہے اور ان میں غیر معمولی اضافے کے لیے مینجمنٹ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے ۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ نان مینجمنٹ سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد ماہانہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے کمپنی سے تنخواہوں اور اوور ٹائم کی مد میں وصول کر رہے ہیں۔اب ان کامطالبہ یہ ہے کہ ان کی تنخواہوں میں پچاس فیصد تک اضافہ کیا جائے اور اس مقصد کے لیے وہ کمپنی کی انتظامیہ پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالنے کے ساتھ ساتھ کمپنی کو بلیک میل بھی کر رہے ہیں کہ اگر مطالبات نہ مانے گئے تو ہڑتال کر کے کمپنی کی سپلائی چین کو متاثرکریں گے اور اس طرح سے کمپنی کے دیگر آپریشن میں بھی رکاوٹیں ڈالی جائیں گی۔

اس کے ساتھ ساتھ نان مینجمنٹ اسٹاف اوور ٹائم میں جال سازی کے ذریعے اضافی رقم کماتے ہیں اور میڈیکل کی سہولت کا بھی غلط استعمال اور ان کے جعلی بلوں کے ذریعے کمپنی سے ناجائز پیسے وصول کرتے ہیں

متعلقہ عنوان :