انسداد الیکٹرانک کرائم قانون 2015 ء کا مسودہ کابینہ کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش ، شق 17/18 کے تحت سیاسی یا مزاحیہ تنقید ایک جرم تصور ہوگی۔ شق 19 کے تحت کوئی بھی شخص کو الیکٹرانک سسٹم کی سکیورٹی کو ٹیسٹ کررہا ہو‘ چاہے علمی یا تحقیقی مقاصد مقاصد کیلئے ‘ جرم تصور ہوگا،شق 20 کے تحت فیس بک ‘ ٹوئٹر ‘ بلاگ وغیرہ پر فحش اور غیر اخلاقی پیغاموں کو جرم تو قرار دے دیا،کسی بھی شخص کی اجازت کے بغیر فیس بک یا انسٹاگرام پر اس کی تصویر لگانا جرم قرار دے دیا گیا

جمعرات 16 اپریل 2015 04:55

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔16 اپریل۔2015ء) پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن PASHA انٹرنیٹ سروسز‘ پروائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان ISPAK ‘ بولو بھی سول سوسائٹی کے نمائندوں کو قائمہ کمیٹی میں بطور ممبر شامل کرکے اس پر ایک کھلا مباحثہ کیا جائے تاکہ قانون الیکٹرانک کرائم قانون 2015 ء کی صحیح طریقے سے وضاحت کرنے کے ساتھ ساتھ بے گناہ عوام کے خلاف استعمال نہ ہوں گے ‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لامتناہی اختیارات دینے سے روکا جاسکے اور آزادی اظہار رائے اور ملک کی معاشرتی اقدار کے درمیان ایک توازن برقرار رکھا جائے۔

ان خیالات کا اظہار ایکشن کمیٹی برائے انسداد الیکٹرانک کرائم قانون 2015 ء کے ممبران وہاب الرج کنونیئر ISPAK ‘ سید احمد PASHA ‘ بولو بھی کی ڈائریکٹر فریحہ عزیز اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ بدھ کے روز نیشنل پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ انسداد الیکٹرانک کرائم قانون 2015 ء کا مسودہ حکومت نے کابینہ کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے۔

(جاری ہے)

یہ مسودہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کے پاس ہے اور آنے والے چند دنوں میں اسے اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کی اس مسودے پر کارروائی کو انتہائی خفیہ رکھا جارہا ہے اور ڈرافٹ مسودے کو چھپایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایکشن کمیٹی کے ذریعے ذرائع سے ایک مسودہ حاصل کیا ہے جس کے مطابق الیکٹرانک میڈیا‘ تحقیقی اداروں ‘ وکلاء اور پاکستان کے پڑھے لکھے لوگوں خصوصاً نوجوان طبقہ کیلئے ایک بھیانک قانون تصور ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس مسودے میں قانون کی چند شقیں اور ان کے منفی اثرات درج ذیل ہیں۔ شق 17/18 کے تحت سیاسی یا مزاحیہ تنقید ایک جرم تصور ہوگی۔ شق 19 کے تحت کوئی بھی شخص کو الیکٹرانک سسٹم کی سکیورٹی کو ٹیسٹ کررہا ہو‘ چاہے علمی یا تحقیقی مقاصد مقاصد کیلئے ‘ جرم تصور ہوگا۔ شق 20 کے تحت فیس بک ‘ ٹوئٹر ‘ بلاگ وغیرہ پر فحش اور غیر اخلاقی پیغاموں کو جرم تو قرار دے دیا گیا ہے لیکن قانون یہ بتانے سے قاصر ہے کہ فحش اور غیر اخلاقی پیغاموں کی تعریف کیا ہوگی۔

اس طرح قانون کے بے جا غلط استعمال ہونے کا اندیشہ ہے۔ شق 20 ہی کے تحت کسی بھی شخص کی اجازت کے بغیر فیس بک یا انسٹاگرام پر اس کی تصویر لگانا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ شق 21 کے تحت کسی بھی شخص کو اس کی اجازت کے بغیر ای میل بھیجنا بھی ایک جرم تصور ہوگا۔ شق 21 کے تحت کچھ اشتہارات بھی جو وصول کرنے والے کی اجازت کے بغیر بھیجے گئے ہوں ‘ جرم تصور کیے جائیں گے۔ حکومت کو ویب سائتس بند کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے لیکن ان کی صحیح Definition نہیں کی گئی ہے۔ جس سے سیاسی آزادی رائے کو بھی سلب کیا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی سائبر کیفے یا ریسٹورنٹ اور پبلک مقامات جو انٹرنیٹ WiFi کی سہولت مہیا کرتے ہیں ان کو 90 دن کا ڈیٹا رکھنے کا پابند کیا گیا ہے اور نہ رکھنے پر سزا تجویز کی گئی ہے۔