بیرسٹر علی ظفر ایڈووکیٹ نے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط پر جسٹس جواد ایس خواجہ کے تحفظات پر اپنا جواب سپریم کورٹ میں داخل کر دیا ،ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ کسی فریق کی جانب سے جا نبداری کے تھوڑے سے الزامات پر بھی عظیم ترین جج صاحبان نے خود کو بنچ سے الگ کر لیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے 31 مارچ کو جو ابزرویشن دی ہیں وہ ناکافی اور بے بنیاد مفروضوں پر مبنی ہیں۔ بطور وکیل ہمیشہ اپنے ضمیر کے مطابق موقف اختیار کیا ہے ،کبھی بھی اپنے موکل کے لئے کٹھ پتلی نہیں بنا،بیرسٹر علی ظفر ایڈووکیٹ کا اپنے جواب میں موقف

جمعہ 10 اپریل 2015 05:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔10 اپریل۔2015ء) بیرسٹر علی ظفر ایڈووکیٹ نے چیف جسٹس ناصر الملک کو لکھے گئے خط پر جسٹس جواد ایس خواجہ کے تحفظات پر اپنا جواب سپریم کورٹ میں داخل کر دیا ہے جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ کسی فریق کی جانب سے جا نبداری کے تھوڑے سے الزامات پر بھی عظیم ترین جج صاحبان نے خود کو بنچ سے الگ کر لیا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے 31 مارچ کو ان کے حوالے سے جو ابزرویشن دی ہیں وہ ناکافی اور بے بنیاد مفروضوں پر مبنی ہیں۔ انہوں نے بطور وکیل ہمیشہ اپنے ضمیر کے مطابق موقف اختیار کیا ہے اور کبھی بھی اپنے موکل کے لئے کٹھ پتلی نہیں بنے۔ جمعرات کو براہ راست جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے تین رکنی بنچ کو دیئے گئے جواب میں ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ وکلاء حضرات کا حق ہے کہ وہ اپنے موکل کے موقف کو بہادری سے عدالت کے رو برو پیش کریں اور جو موقف بھی وکیل پیش کرتا ہے اس کی تصدیق اس کے موکل نے کی ہوئی ہوتی ہے اس لئے وکلاء سے اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کوئی وضاحت طلب نہیں کی جا سکتی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ 24 مارچ سے یکم اپریل تک وہ ملک سے باہر تھے اور انہوں نے کیس کی سماعت کے التواء کی باقاعدہ منظوری چیف جسٹس پاکستان سے حاصل کی تھی۔ جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا یہ آپ کا جو جواب اس پر بعد میں فیصلہ دینگے۔ فاضل وکیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے خط نہیں لکھا تھا اور نہ ہی اس پر ان کے دستخط ہیں یہ ایک درخواست تھی جو درخواست گزار نے دوسرے وکیل کے ذریعے دائر کی تھی۔

عدالت سے انہوں نے کہا کہ انہوں نے جواب داخل کیا تھا اس پر اعتراض لگ گیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ اس حوالے سے عدالت وقت دے تاہم جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ اپنا جواب ہمیں براہ راست دے دیں جس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اس وقت کاپی نہیں ہے وقفے کے بعد وہ عدالت کو دے دیں گے۔ وقفے کے بعد عدالت نے علی ظفر سے کہا کہ ہمارے پاس آپ کی جواب کی کاپی آ گئی ہے آپ یہ پڑھ کر سنائیں۔ جس پر انہوں نے جواب پڑھ کر سنایا۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور جسٹس جواد ایس خواجہ یہ کہہ کر بنچ سمیت سماعت سے اٹھ کر چلے گئے کہ وہ اس پر بعد میں فیصلہ دینگے۔

متعلقہ عنوان :