نیشنل بینک کی بنگلہ دیش برانچ میں فراڈ میں ملوث مرکزی کردار دو سابق صدور سمیت 61 افسران کے خلاف انکوائری مکمل،کیس نیب میں بھجوانے کا فیصلہ

پیر 6 اپریل 2015 03:53

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6 اپریل۔2015ء) نیشنل بنک آف پاکستان کی بنگلہ دیش برانچ میں 17 ارب 41 کروڑ روپے کے فراڈ میں ملوث مرکزی کردار نیشنل بنک آف پاکستان کے دو سابق صدور سمیت 61 دیگر افسران کے خلاف انکوائری مکمل‘ کیس نیب میں بھجوانے کا فیصلہ۔ ذرائع کے مطابق نیشنل بنک آف پاکستان کی بنگلہ دیش میں 4 برانچوں کا عملہ 2004 سے 2013 کے دوران بنگلہ دیشی کمپنیوں کو بغیر کسی سیکورٹی کے اربوں روپے کے قرضے جاری کرتا رہا ہے جبکہ پاکستان میں نیشنل بنک کے اعلیٰ حکام شارٹ فال پورا کرنے کے لئے بعیر کسی انکوائری کے مسلسل رقوم کی ترسیل کرتے رہے ہیں۔

کرپشن کا سکینڈل سامنے آنے کے بعد نیشنل بنک پاکستان کی انٹرنیل انکوائری رپورٹس اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کی رپورٹس میں بنگلہ دیش سکینڈل کو نیشنل بنک کے اعلیٰ حکام اور ڈھاکہ میں موجود نیشنل بنک کے عملے کی ملی بھگت قرار دے چکے ہیں۔

(جاری ہے)

حکومت نے اس سکینڈل کی تحقیقات پارلیمنٹ کے ذریعے کرنے کا فیصلہ کیا اور قومی ا سمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ نے اس سکینڈل کی جانچ پڑتال کے لئے ممبر قومی اسمبلی قیصر اے سلیم کی سربراہی میں 5 رکنی کمیٹی تشکیل دی جس نے انکوائری مکمل کر کے رپورٹ حکومت کو بھجوا دی ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ 2004 سے لے کر 2013 تک نیشنل بنک آف پاکستان کی بنگلہ دیش آپریشن میں موجود چار برانچوں (موتی جھیل برانچ ڈھاکہ‘ گلشن برانچ ڈھاکہ‘ چت گانگ برانچ اور سٹیشن برانچ) نے سیکورٹی اور گارنٹی کے بغیر بنگلہ دیشی 12 بزنس گروپوں کی 52 کمپنیوں کو 17 ارب 41 کروڑ سے زائد کے قرضے جاری کئے ہیں جو بعد میں موصول نہیں ہوئے۔ نیشنل بنک آف پاکستان کے اعلیٰ افسران کو جب معلوم ہوا تو 2013ء میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے انکوائری کا حکم دیا۔

انکوائری میں نیشنل بنک آف پاکستان ہیڈکوارٹر اوورسیز ریجنل ہیڈ کوارٹر اور نیشنل بنک بنگلہ دیش آپریشن کے حکام کو مذکورہ سکینڈل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ 2014 میں اسٹیٹ بنک کی ہدایات پر نیشنل بنک آف پاکستان کی انٹرنل انکوائری مکمل ہوئی تو 17 ارب 41 کروڑ روپے کے سکینڈل میں نیشنل بنک آف پاکستان کے دو سابق صدور سید علی رضا اور قمر حسین کے علاوہ ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ طارق اسماعیل‘ زبیر احمد‘ سابق گروپ چیف امام بخش بلوچ‘ جاوید محمود‘ محمد رفیع‘ سردار خواجہ‘ شاہد انور خان‘ طاہر رانا‘ فضل الرحمن سمیت 61 اعلیٰ افسران کو ملوث قرار دیا۔

قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس نے کرپشن کے اس سکینڈل کی مکمل جانچ پڑتال کے لئے قیصر اے شیخ کی سربراہی میں سب کمیٹی قائم کی جس نے شب و روز کی انکوائری مکمل کرنے کے بعد اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سب کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ نیشنل بنک بنگلہ دیش برانچ کے سکینڈل میں ملوث ملزمان کے خلاف نیب میں کیس درج کروایا جائے۔

متعلقہ عنوان :