یوحنا آباد سانحے کے بعد توڑ پھوڑ ، جلائے جانے کے واقعات میں ملوث 100 افراد کی شناخت ہوگئی

ہفتہ 28 مارچ 2015 02:48

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔28 مارچ۔2015ء)لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں چرچ حملوں کے بعد توڑ پھوڑ اور دوافراد کوجلائے جانے کے مقدمات میں ملوث 100 افراد کی شناخت کر لی گئی ہے۔پولیس حکام، جو اب تک اس حوالے سے گرفتاریوں کی تردید کرتے رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ ان افراد کی گرفتاریوں کا سلسلہ جمعے کی رات سے شروع کر دیا جائے گا۔یوحنا آباد کے سانحے کے بعد دو روز تک جاری رہنے والے پْر تشدد مظاہروں کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تفتیشی ٹیم بنائی گئی تھی جس نے ابتدائی کام مکمل کر لیا ہے۔

ٹیم میں شامل ایس ایس پی انویسٹی گیشن ایاز سلیم کہتے ہیں کہ ’پولیس نے ٹیلی وڑن پر چلنے والی فوٹیج اور موقعے پر موجود پولیس اہلکاروں اور نادرا کے ذریعے سو افراد کی شناخت کر لی ہے۔

(جاری ہے)

ان میں سے اکثریت توڑ پھوڑ میں شامل تھی، تاہم دس سے 15 افراد ایسے ہیں جو نعیم اور بابر نعمان کو جلانے میں ملوث ہیں۔ ان لوگوں کی گرفتاری کا عمل آج رات سے شروع کیا جا رہا ہے۔

‘پولیس نے ٹیلی وڑن پر چلنے والی فوٹیج، موقعے پر موجود پولیس اہلکاروں اور نادرا کے ذریعے سو افراد کی شناخت کر لی ہے۔ ان میں سے اکثریت توڑ پھوڑ میں شامل تھی تاہم دس سے 15 افراد ایسے ہیں جو نعیم اور بابر نعمان کو جلانے میں ملوث ہیں۔ ان لوگوں کی گرفتاری کا عمل آج رات سے شروع کیا جا رہا ہے۔ایس ایس پی انویسٹی گیشن ایاز سلیم کا کہنا ہے کہ ان میں سے کئی لوگ یوحنا آباد کے ہی رہنے والے ہیں تاہم کچھ کا تعلق شہر کی دوسری مسیحی آبادیوں سے بھی ہے۔

’ہم نے چرچ کے پادریوں اور کمیونٹی لیڈروں سے درخواست کی ہے کہ وہ ان لوگوں کو خود پولیس کے حوالے کر دیں جن کی شناخت ہو چکی ہے۔ ان لوگوں نے ذمیداروں کی گرفتاری میں تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔‘دوسری جانب یوحنا آباد میں ابھی بھی بییقینی، سوگ اور خاموشی چھائی ہے۔ یہاں کا مرکزی بازار عام دنوں میں اتنا مصروف ہوتا ہے کہ چلنا محال ہو جاتا ہے لیکن آدھا بازار دھماکوں کے بعد سے تاحال بند ہے۔

جو یہاں موجود ہیں وہ بھی پریشان دکھائی دیے۔بازار میں جوتے مرمت کرنے والے صابر مسیح نے بتایا: ’سادہ کپڑوں والی پولیس بندوں کو اٹھا رہی ہے۔ بہت سے لڑکوں کو گرفتار کیا گیا ہے، کچھ جائز اور کچھ ناجائز۔ یوحنا آباد تو خالی ہوگیا ہے۔ کئی لوگ تو خوف سے علاقہ ہی چھوڑ گئے ہیں۔‘سادے کپڑوں والی پولیس بندوں کو اٹھا رہی ہے۔ بہت سے لڑکوں کو گرفتار کیا گیا ہے، کچھ جائز اور کچھ ناجائز۔

یوحنا آباد تو خالی ہوگیا ہے۔ کئی لوگ تو خوف سے علاقہ ہی چھوڑ گئے ہیں۔یوحنا آباد میں کرائسٹ چرچ سے کچھ گز کے فاصلے پر کپڑے کی ایک دکان ہے جس پر تالہ پڑا ہے۔ ساتھ ہی ایک نیا مکان ہے جس پر لگی تختی پر ’زاہد یوسف عرف گوگا‘ لکھا ہوا ہے۔ یہ وہی زاہد یوسف عرف گوگا ہیں جنھوں نے 15 مارچ کو کرائسٹ چرچ کے باہرخودکش بمبار کو روکتے ہوئے اپنی جان دے دی تھی۔

ان کے خاندان کو گوگا کے کارنامے پر تو بہت فخر ہے، لیکن ان سے جدائی کا غم اب بھی تمام جذبات پر حاوی ہے۔ زاہد یوسف کے بھائی ریاض فضل نے حملے کے روز کی تفصیلات بتائیں۔’جب میں نے اپنے بھائی کو چرچ کے باہر خون میں لت پت دیکھا تو میرا ذہن ماوٴف ہوگیا۔ میں نے اسے پہچانا ہی نہیں۔ پھر آس پاس کھڑے لڑکوں نے مجھے بتایا کہ یہ گوگا ہی ہے۔ میں نے اسے پکڑا اور اس کا چھلنی جسم دیکھ کر میں حواس باختہ ہوکر زمین پر گر گیا۔

‘پولیس کی جانب سے چرچ پر حملہ آور ہونے والے خودکش بمباروں کے خاکے جاری کیے جا چکے ہیں ۔پولیس کی جانب سے چرچ پر حملہ آور ہونے والے خودکش بمباروں کے خاکے جاری کیے جا چکے ہیں۔ تاہم حملہ آوروں کی شناخت اور سہولت کاروں کا پتہ لگانے کے سلسلے میں کوئی اہم پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔پولیس اس وقت حملوں سے زیادہ چرچ دھماکوں کے بعد ہونے والی توڑ پھوڑ، اور اس سے بھی زیادہ دو افراد کو جلانے والوں کی گرفتاریوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔

واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم مشترکہ تفتیشی ٹیم کے ایس ایس پی ایاز سلیم کا کہنا ہے کہ خاص طور پر تشدد کر کے جلانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا بہت ضروری ہے۔ ’اگر ایسا نہ ہوا تو مستقبل میں نہ صرف مذہبی اور فرقہ وارانہ فسادات کا خدشہ ہے بلکہ ہجوم خود سے منصف بننے لگیں گے اور صورت حال انتہائی خطرناک رخ اختیار کر لے گی۔‘محمد نعیم اور بابر نعمان کو جلانے جانے کے بعد یوحنا آباد کے مسیحی اردگرد کی مسلمان آبادیوں سے بھی خوفزدہ ہیں۔

دھماکے میں ہلاک ہونے والے زاہد یوسف کی بھائی ریاض فضل کہتے ہیں:’جن لوگوں نے دو افراد کو جلایا ہے ہم انھیں بھی دہشت گردوں کے زمرے میں ڈالتے ہیں۔ لیکن میں مسلمان بھائیوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ محمد نعیم اور نعمان بابر کو مسلمان ہونے پر نہیں بلکہ دہشت گرد ہونے کے شبے میں نشانہ بنایا گیا۔‘پولیس کے باوردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار ابھی بھی یوحنا آباد میں موجود ہیں۔یہاں زندگی معمول پر کب آئے گی، ابھی اس کا اندازہ لگانا ذرا مشکل ہے۔