بین الاقوامی دباوٴ نے پاکستان میں ایل این جی درآمد کے منصوبے کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا، پورٹ اور ٹرمینل سے متعلق اٹھائے گئے اعتراضات دور کرنا پورٹ قاسم اتھارٹی کی ذمے داری ہے، قطری کمپنی

بدھ 25 مارچ 2015 07:37

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔25 مارچ۔2015ء) بین الاقوامی دباوٴ اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے ایل این جی کی درآمد میں شفافیت سے متعلق اعتراضات نے پاکستان میں ایل این جی کی درآمد کے منصوبے کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے جبکہ قطر کی گیس سپلائر کمپنی کی جانب سے پورٹ قاسم کی مطلوبہ گہرائی، ایل این جی کی آمد کے دوران جہازوں کی آمدورفت کی مینجمنٹ اور روشنی کے انتظامات پر اعتراضات نے بھی منصوبے کو تاخیر سے دوچار کرنے کی راہ ہموار کردی ہے۔

پاور سیکٹر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایل این جی کی درآمد حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے، بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو ایل این جی فراہم نہ کرنے کے لیے مسلسل دباوٴ کا سامنا ہے تاہم سیاسی قیادت نے اس دباوٴ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایل این جی کے ذریعے پاکستان میں توانائی کا بحران کم کرنے کے سلسلے میں موسم گرما میں پاور اور سی این جی سیکٹر کی طلب پوری کرنے کے لیے ایل این جی کی درآمد کا فیصلہ کیا، اس فیصلے کی راہ میں بڑی رکاوٹ قطر کی گیس سپلائی کمپنی کی جانب سے پورٹ قاسم پر ڈرافٹ کی مطلوبہ گہرائی اور دیگر انتظامات پر اعتراضات کی شکل میں پہلے پارسل کی درآمد سے کچھ روز قبل سامنے آئے جس کے بعد ایل این جی کی درآمد میں مزید تاخیر کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

(جاری ہے)

ایل این جی کو گیس میں کنورٹ کرنے کی سہولت فراہم کرنے والی اینگرو ایل این جی کمپنی کا کہنا ہے کہ قطری گیس کمپنی کی جانب سے پورٹ اور ٹرمینل سے متعلق اٹھائے گئے اعتراضات دور کرنا پورٹ قاسم اتھارٹی کی ذمے داری ہے، اینگرو ایل این جی اپنی تمام ذمے داریاں پوری کر چکی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ قطر سے باضابطہ معاہدے کے بغیر ہی ایل این جی کا پہلا پارسل درآمد کیا جا رہا ہے، یہ ایل این جی دبئی میں لنگر انداز ”فلوٹنگ، اسٹوریج اور ری گیسی فکیشن یونٹ (ایف ایس آر یو) کے ذریعے ہی درآمد کی جارہی ہے، ایگزیکویٹ نامی ایف ایس آر یو پاکستان کے لیے 68ہزار کیوبک میٹر ایل این جی لے کر 22مارچ کو پاکستان کی بندرگاہ پورٹ قاسم کے لیے روانہ ہوچکا ہے جو 26 مارچ کی شام یا 27مارچ کی صبح تک پورٹ قاسم پر لنگر انداز ہوجائے گا۔

درآمد کی جانے والی 68 ہزار کیوبک میٹر ایل این جی کنورٹ ہوکر 198 ایم ایم سی ایف گیس کی شکل اختیار کرے گی، ایگزیکویٹ کے ذریعے پاکستان درآمد کی جانے والی گیس قطر سے ہی خریدی گئی ہے، یہ پارسل پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی نے درآمد کیا ہے تاہم حکومت اس درآمد کو سرکاری سودا ظاہر کرنے سے اجتناب کررہی ہے، قطر سے پاکستان کے لیے خریدی گئی 68 ہزار کیوبک میٹر ایل این جی ایک جہاز سے دبئی پہنچائی گئی جہاں لنگر انداز ایگزیکویٹ نامی ایف ایس آر یو میں فلنگ کی گئی۔

وفاقی وزارت پٹرولیم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے 200ایم ایم سی ایف گیس کی درآمد میں بے حد دباوٴ کا سامنا ہے، درآمد کی جانے والی گیس 4 سے 5 روز میں ختم ہوجائے گی جس کے بعد ایل این جی کی درآمد کا تسلسل جاری رہنا اور نئے پارسل کی آمد کے بارے میں حکومتی حلقوں میں مکمل خاموشی پائی جاتی ہے، اگرچہ ایف ایس آر یو پورٹ قاسم کی بندرگاہ پر لنگر انداز رہے گا لیکن ایل این جی کے اگلے پارسل کی آمد کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آرہا، پورٹ قاسم پر مطلوبہ اقدامات کرنے میں کافی وقت درکار ہے، اسی طرح شفافیت سے متعلق اعتراضات دور کرنے کے لیے منصوبے پر قانونی غور کی صورت میں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں، اس صورتحال میں ٹرمینل تعمیر کرکے ایف ایس آر یو کی سہولت فراہم کرنے والی اینگرو ایل این جی کمپنی سب سے زیادہ فائدے میں رہے گی اور حکومت کو ایل این جی درآمد نہ کرنے کی صورت میں کمپنی کو 2لاکھ 72ہزار ڈالر کا ہرجانہ ادا کرنا ہوگا۔

واضح رہے کہ قطرگیس آپریٹنگ کمپنی نے جنوری 2015میں پورٹ قاسم کے اندرونی اور بیرونی چینل کے سروے کی بنیاد پر 9 مارچ کو پاکستانی حکام کو مطلع کیاکہ پورٹ قاسم میں اندرونی اور بیرونی چینل کے ڈرافٹ کی گہرائی مطلوبہ گہرائی سے کم اور ایل این جی لانے والے بڑے بحری جہاز (Q-Flex)کے لیے ناکافی قرار دے دیا ہے۔ قطری کمپنی کا کہنا ہے کہ پورٹ قاسم کے اندرونی اور بیرونی چینل کے ڈرافٹ کی گہرائی 13میٹر کے مطلوبہ ڈرافٹ سے کم ہے، اسی طرح ایل این جی ٹرمینل کی برتھ کا ڈرافٹ بھی 14 میٹر سے کم ہے جسے بڑھائے بغیر Q-Flex کی نیوی گیش اور برتھنگ نہیں کی جا سکتی۔ قطری کمپنی کا مطالبہ ہے کہ اگر جنوری کے بعد ڈرافٹ کی گہرائی بڑھائی گئی ہے تو پھر پاکستانی حکومت اس کی ضمانت فراہم کرے۔

متعلقہ عنوان :