ایبولا کی وباء اگست تک ختم ہو جائے گی، سربراہ اقوام متحدہ ایبولا مشن ،عالمی ادروں اور ممالک نے وبا ء سے نمٹنے کے لیے وہ تیزی نہیں دکھائی جو دکھانی چاہیے تھی ،اسماعیل اولد شیخ احمد کی بی بی سی سے گفتگو

منگل 24 مارچ 2015 10:24

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔24 مارچ۔2015ء)اقوامِ متحدہ کے ا یبولا مشن کے سربراہ اسماعیل اولد شیخ احمد نے کہا ہے کہ مغربی افریقی ممالک اگست تک اس وبا سے پاک ہو جائیں گے اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس بحران سے نمٹنے میں اقوامِ متحدہ سے شروع میں غلطیاں سرزد ہوئی تھیں اور کبھی کبھار ادارے نے ’غرور‘ بھی دکھایا تھا۔ایبولا سے گذشتہ 12 ماہ کے دوران دس ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

خیراتی طبی ادارے میدساں سانز فرنٹیر (ایم ایس ایف) نے کہا ہے کہ ایبولا کی مہلک وبا پھوٹنے کی بڑی وجہ ’عالمی سستی‘ تھی۔ایبولا کی وبا پھوٹنے کے ایک سال بعد شائع ہونے والی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی حکومتوں اور اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے صحت نے مدد کی ابتدائی درخواستیں نظرانداز کر دی تھیں۔

(جاری ہے)

ادارے کا کہنا ہے کہ ’کئی ادارے ناکام ہو گئے جس کی وجہ سے ایسے المناک نتائج برآمد ہوئے جن سے بچا جا سکتا تھا۔

‘ایبولا سے زیادہ تر ہلاکتیں افریقی ملکوں گنی، لائبیریا اور سیرا لیون میں ہوئی ہیں۔ایبولا مشن کے سربراہ نے کہا کہ جب وائرس نے حملہ کیا تھا تو ’شاید اس کے متعلق زیادہ علم نہیں تھا اور کچھ حد تک تکبر بھی تھا، لیکن میرا خیال ہے ہم سبق حاصل کر رہے ہیں۔‘’ہم کوئی خاص تاریخ دینے سے گریز کر رہے ہیں لیکن مجھے بہت یقین ہے کہ یہ (وبا) گرمیوں تک ختم ہو جائے گی۔

‘اس مرض کا شکار بننے والا پہلا فرد گنی کے ایک دور دراز علاقے کا بچہ تھا جو دسمبر 2013 میں ہلاک ہوا تھا۔تین ماہ بعد عالمی ادار ہ صحت نے وبا پھوٹنے کا باضابطہ اعلان کیا۔ اس کے بعد وبا کو عالمی ہنگامی صورتِ حال قرار دینے میں ادارے کو مزید پانچ ماہ لگ گئے۔ اس وقت تک ایک ہزار سے زائد لوگ مارے جا چکے تھے۔ایم ایس ایف کے ہنگامی رابطہ کار ہینری گرے نے بی بی سی کو بتایا: ’ہمیں گذشتہ سال مارچ، اپریل ہی میں معلوم ہو گیا تھا کہ یہ کوئی مختلف چیز ہے، اور ہم نے نہ صرف عالمی ادارہ صحت بلکہ اس خطے کی حکومتوں کی توجہ بھی اس جانب مبذول کروانے کی کوشش کی جو اس سے متاثر ہو رہے تھے۔

’دنیا بشمول عالمی ادارہ صحت نے یہ سمجھنے میں دیر لگائی کہ ہمارے سامنے ہو کیا رہا ہے‘ ’ظاہر ہے کہ ہمارے لیے یہ مایوس کن بات تھی کہ ہماری بات سنی نہیں گئی، اور شاید یہی وہ وجہ تھی کہ یہ وبا اس قدر شدت اختیار کر گئی۔‘ایم ایس ایف نے کہا ہے کہ اس وبا سے نمٹنے کے لیے خود اسے بھی اپنے زیادہ وسائل جلد از جلد استعمال کر لینے چاہیے تھے۔

رپورٹ کے مطابق اگست کے اختتام تک لائبیریا میں صحت کے مراکز بھر گئے تھے۔ طبی عملہ واضح طور پر متاثر مریضوں کو واپس گھر بھیج رہا تھا حالانکہ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ لوگ اپنے علاقوں میں جا کر دوسروں کو مرض لگا دیں گے۔اس سال جنوری میں عالمی ادارہ صحت نے بھی ایک اجلاس میں یہ تسلیم کیا تھا کہ اس نے بہت دیر سے ردِ عمل دکھایا تھا۔

ادارے کی ڈائریکٹر جنرل مارگریٹ چین نے کہا: ’دنیا بشمول عالمی ادارہ صحت نے یہ سمجھنے میں دیر لگائی کہ ہمارے سامنے ہو کیا رہا ہے۔‘اب تجاویز پیش کی جا رہی ہیں کہ مستقبل میں اس قسم کے خطرات سے نمٹنے کی خاطر تیز ردِعمل دکھانے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی جائیں۔ایبولا کے مریضوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے لیکن ایم ایس ایف کا کہنا ہے کہ وبا اب بھی ختم نہیں ہوئی۔

اس نے خبردار کیا ہے کہ جنوری کے بعد سے مریضوں کی مجموعی تعداد میں نمایاں کمی واقع نہیں ہوئی۔لائبیریا میں جمعے کو دو ہفتوں کے بعد پہلا کیس سامنے آیا جس سے یہ امید بھی ساقط ہو گئی کہ شاید یہ ملک سے وائرس سے پاک ہو گیا ہے۔گنی میں سال کی ابتدا میں مریضوں کی تعداد کم ہونے کے بعد اب دوبارہ بڑھ رہی ہے۔سیئرالیون میں کچھ مریض ایبولا کے ان مریضوں کی لسٹ پر نہیں ہیں جن سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف لنکا شائر کے ڈاکٹر گیریتھ کہتے ہیں کہ ’اگر پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو دسمبر سے مارچ تک کی تاخیر نے اس وائرس کے مشرقی گنی کے کئی علاقوں اور پھر دارالحکومت کونارکی میں پھیلنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ جو اب بھی ایسے علاقے ہیں جہاں یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔‘لیکن جب تک سب سے زیادہ متاثر تینوں ممالک میں اگلے چھ ماہ تک کوئی کیس سامنے نہیں آتا، اس وقت تک سرکاری طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وبا ختم ہو گئی ہے۔

متعلقہ عنوان :