’فورتھ شیڈول‘ میں شامل افراد کی نگرانی مائیکرو چپس کے ذریعے کر نے کا فیصلہ، فورتھ شیڈول میں شامل افراد کی نقل وحرکت پر نظر رکھنا ممکن نہیں تھا اب انھیں مائیکرو چپس لگائی جائیں گی تا کہ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے‘ شجاع خانزادہ

جمعرات 12 مارچ 2015 09:46

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔12 مارچ۔2015ء)صوبائی وزیرِ داخلہ شجاع خانزادہ کا کہنا ہے حکومت پنجاب نے ’فورتھ شیڈول‘ میں شامل افراد کی نگرانی کے لیے ان کے جسم میں مائیکرو چپس نصب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیرِ داخلہ شجاع خانزادہ نے کہا صوبائی حکومت ایسے افراد کی مانیٹرنگ کو سخت کرنے کے لیے نیا نظام لا رہی ہے۔

جن کے نام مسلح گروہوں، فرقہ وارارنہ اور کالعدم تنظیموں کا رکن ہونے یا ان سے وابستگی کے باعث فورتھ شیڈول میں شامل ہیں۔ اس شیڈول میں شامل افراد کو اپنے علاقے سے باہر جانے کے لیے پولیس کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا جوائنٹ انٹیلیجنس کمیٹی نے گیارہ سو بتیس افراد کی فہرست بنائی ہے۔ جو تشدد میں ملوث رہے ہیں یا دہشتگردی کی مالی معاونت کرتے رہے ہیں اور ایسے شعلہ بیان مقرر ہیں جو مسلح کاروائیوں کی حمایت کرتے ہیں،انھوں نے کہا کہ ’ان میں سے 700 افراد گرفتار ہو چکے ہیں جبکہ فورتھ شیڈول میں شامل افراد کی نگرانی کے لیے انھیں چپس لگائی جا رہی ہیں تاکہ ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے۔

(جاری ہے)

‘شجاع خانزادہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبے کے داخلی اور خارجی راستوں پر تعینات سکیورٹی اہلکاروں اور پولیس کو ایسی مشینیں دی جائے گی جن کی مدد سے وہ انگوٹھے کا نشان لے کر لوگوں کی شناخت کر سکیں گے۔ یہ مشینیں نادرا کے ڈیٹا بیس کے ساتھ منسلک ہوں گی۔وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ حکومتِ پنجاب نے لاوٴڈ سپیکر کے غلط استعمال، نفرت انگیز مواد، وال چاکنگ اور کرائیداری کے آرڈیننس جاری کیے ہیں اور اب صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاوٴڈ سپیکر کے استعمال کے قانون کی خلاف ورزی پر ساڑھے تین ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے ساڑھے تین سو کو عدالت سزا دے چکی ہے۔اس سوال پر کہ کیا نئے قوانین کے تحت لشکر جھنگوی اور جماعت الدعوہ جیسی تنظیموں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی شجاع خانزادہ کا کہنا تھا کہ ’یہ کالعدم تنظیمیں ہیں جن کی پنجاب میں تعداد 14 ہے۔

ان کے خلاف سکیورٹی اداروں کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں۔ جہاں جہاں پر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اپنے دائرے سے باہر نکلتے ہیں یا پھر قانون کے نرغے میں آرہے ہیں تو پھر ان کے خلاف بھی کاروائی ہو گی۔اس سوال پر تو کیا ان تنظیموں نے ابھی تک کچھ ایسا نہیں کیا کہ یہ قانون کے نرغے میں آ سکیں، وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ’نہیں ابھی تک تو کوئی ایسی چیز نہیں ہوئی لیکن ہم مرحلہ وار جا رہے ہیں۔

ہم ایک ساتھ سب کچھ لپیٹنے نہیں جارہے۔ ہم نے پہلا مرحلہ شروع کیا ہے اس کے بعد آگے بڑھیں گے۔‘فوجی عدالتوں میں مقدمات کے حوالے سے شجاع خانزادہ نے بتایا کہ ابتدائی طور پر پنجاب سے 43 مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔فوجی عدالتوں میں بھیجنے کے لیے مقدمات کا چناوٴ وزیرِ اعلیٰ اور کورکمانڈرز اور ان کے ساتھیوں پر مشتمل ایپکس کمیٹی کرتی ہے۔

لیکن اب عدالتیں بھی مقدمات کے فیصلے تیزی سے کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 43 میں سے صرف سات مقدمات ایسے رہ گئے ہیں جنہیں فوجی عدالتوں میں بھیجا جائے گا۔ باقی کے فیصلے سنا دیے گئے ہیں۔‘شدت پسند تنظیم داعش کے حوالے سے پنجاب کے وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ داعش کے حق میں وال چاکنگ کرنے والے افراد کو گرفتار کیا گیا لیکن ابھی تک کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا کہ یہاں ان کا کوئی باقاعدہ انفراسٹرکچر موجود ہو۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے اس معاملے پر بہت گہری نظررکھے ہوئے ہیں۔’ہمیں پتا چلا تھا کہ کچھ لوگ یہاں سے ڈالر لے کر داعش کے لیے بھرتی کررہے ہیں۔ اس حوالے سے اورکزئی ایجنسی کے سید خان کا نام بھی لیا جارہا تھا لیکن ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملا۔‘شجاع خانزادہ کا کہنا ہے کہ پہلے تو حکومت کو صوبے میں مدرسوں کی صحیح تعداد بھی معلوم نہیں تھی: ’صرف چھ ہزار رجسٹرڈ تھے لیکن اب تک بارہ ہزار کو رجسٹر کیا گیا ہے جبکہ یہ عمل اب بھی جاری ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’مدارس کی جیو ٹیگنگ کی جا رہی ہے اور اکثر مدارس تعاون کر رہے ہیں تاہم کچھ مدارس ایسے بھی ہیں جن کے مسلح تنظیموں سے رابطے ثابت ہوچکے ہیں۔