سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو مراعات عدالتی حکم کے تحت دی گئیں‘ اٹارنی جنرل،افتخار چوہدری کو قائمہ کمیٹی میں طلب کر کے مراعات پر جواب لیا جائے‘ پیپلزپارٹی کا مطالبہ،افتخار چوہدری لاہور میں بڑا گھر تعمیر کرا رہے ہیں‘ اعتزاز احسن کا الزام

ہفتہ 7 مارچ 2015 08:55

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7 مارچ۔2015ء) اٹارنی جنرل آف پاکستان سلیمان اسلم بٹ نے سینٹ کو جمعہ کے روز بتایا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بلٹ پروف گاڑی اور سکیورٹی عدالت عالیہ کے حکم کے تحت دی گئی ہے حکومت نے فیصلہ پر انٹرا کورٹ اپیل دائر کر رکھی ہے تاہم عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کی حکومت پابند ہے۔ اٹارنی جنرل نے سینٹ کو بتایا کہ آئین کی روح سے آزاد عدلیہ کے عدالتی انتظامیہ معاملات کو پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں لیا جا سکتا کیونکہ عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ آئین کے تحت علیحدہ علیحدہ ادارے ہیں۔

اٹارنی جنرل سینٹ ایوان کے مطالبہ پر سابق چیف جسٹس کو دی گئی مراعات پر جواب دینے کے لئے آئے تھے۔ اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے مطالبہ کیا کہ یہ معاملہ قائمہ کمیٹی انصاف و قانون کو بھیجا جائے جو چیف جسٹس افتخار چوہدری کو طلب کر کے بھاری مراعات لینے پر باز پرس کرے تاہم یہ معاملہ بھیجا نہ جا سکا۔

(جاری ہے)

اعتزاز احسن نے کہا کہ افتخار چوہدری غیر قانونی طریقہ سے مراعات لے رہے ہیں اور لاہور میں بہت بڑا بنگلہ رہائش کے لئے تعمیر کر ہرے ہیں جبکہ انہوں نے کہا تھا کہ انہون نے بیٹے کی شادی قرض لے کر کی ہے اب دولت کہاں سے آ گئی ہے۔

مسلم لیگ ن کے سینئر رفیق رجوانہ نے کہا کہ یہ معاملہ اہم ہے ہمیں اس پر تعمیری تنقید کرنی چاہئے ذاتیات پر نہیں جانا چاہئے یاد رہے کہ افتخار چوہدری نے اپنے ایک فیصلے میں چیئرمین سینٹ کے قبضہ سے سی ڈی اے کی اربوں روپے زمین واگزار کرائی تھی۔ اعتزاز احسن نے ایک اہم معاملہ پر کہا کہ ججوں کا ذاتی کنڈکٹ کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے پیپلزپارتی کے سینئر فرحت اللہ بابر نے قرارداد کے ذریعے سابق چیف جسٹس کو قائمہ کمیٹی میں طلب کرنے پر زور دیا لیکن چیئرمین نے اس کی اازت نہیں دی۔

سعید غنی کے سوال پر سابق چیف جسٹس کو دی گئی مراعات پر یہ ہنگامہ پیدا ہوا ہے۔ اٹارنی جنرل سلیمان اسلم بٹ نے سینٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کی مراعات کی تمام معلومات سینٹ کو دی گئی ہیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو دی گئی بلٹ پروف گاری اور فول پروف سیکیورٹی کے حوالے سے اٹارنی جنرل نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بلٹ پروف گاری اور سیکیورٹی عدالتی حکم کے تحت دی گئی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم عدالتی حکم پر عملدرآمد کرانے کے پابند ہیں۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ افتخار چوہدری کے علاوہ دیگر ریٹائرڈ ججوں کو سیکیورٹی اور بلٹ پروف گاری کیوں نہیں دی گئی ہے اور یہ امتیازی سلوک کیوں رکھا گیا ہے اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم عدالتی حکم پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے سینٹ کے 7 ریمائنڈر کا جواب نہیں دیا جو کہ پارلیمنٹ کی توہین ہے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بتایا کہ وزارت قانون و انصاف نے سوالات کے جواب دستاویزات کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دیئے ہیں۔ حاجی عدل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ فیصلہ میں کیا لکھا ہے کہ بلٹ پروف گاری اور ہزاروں لیٹر پٹرول اور مینٹیننس کے اخراجات بارے میں کیا حکم دیا ہے اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلے میں سیکیورٹی‘ بلٹ پروف گاری اور مینٹیننس کے اخراجات ادا کرنے بارے فیصلہ میں لکھا گیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آزاد عدلیہ آئین میں واضح ہے عدلیہ اور انتظامیہ دو علیحدہ چیزیں ہیں اور اس مقصد کے لئے لوگوں نے ماریں بھی کھائی ہیں عدلیہ کے انتظامیہ اختیارات کو بھی عدلیہ چیلنج 199 دفعہ کے تحت نہیں ہو سکتا۔ اور جو معلومات پارلیمنٹ پوچھ رہی ہے وہ عدلیہ دینے کی پابند نہیں ہے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ججوں بارے جتنے سوالات پوچھے گئے ہیں آزاد عدلیہ کے نام پر جوابات نہیں دیئے گئے ہیں چاہے یہ سوالات ججوں کی دوسری شہریت‘ تنخواہوں اور کنٹریکٹ کے بارے میں پوچھے گئے ہیں لیکن ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی سے سوال کر کے جواب حاصل کر سکیں۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ حکومت افتخار چوہدری سابق چیف جسٹس کو دی گئی مراعات بارے سینٹ کو معلومات فراہم کریں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جج عام شہری ہوتا ہے اس کو عام شہریوں کے حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ افتخار چوہدری کو قائمہ کمیٹی قانون و انصاف میں طلب کیا جائے اور ان سے مراعات حاصل کرنے بارے جواب لیا جائے افتخار چوہدری نے لاہور میں ایک بڑا گھر تعمیر کر رہے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے بیٹے کی شادی قرضہ لے کر کی ہے اب بڑا گھر کیسے تعمیر کر رہے ہیں اور افتخار چوہدری کی باز پرس کی جائے۔ فرحت اللہ بابر نے قرارداد پیش کرنے کا مطالبہ کیا جس کی چیئرمین نے اجازت نہیں دی۔