دولتِ اسلامیہ کے ہاتھوں مجبور خاتون کے ٹوٹے ہوئے خواب،شام میں تشدد سے ایک بڑی تعداد میں لوگ ملک چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں

ہفتہ 7 مارچ 2015 09:08

دمشق(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7 مارچ۔2015ء)سنہ 2013 کے بعد دولتِ اسلامیہ نے شمالی شام کے کئی علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد عورتوں پر کئی پابندیاں لگائی تھیں۔ رازان کو اب ان کی عادت پڑ گئی ہے۔وہ پہلے ماڈرن سکارف اور رنگ برنگے کپڑے پہنا کرتی تھیں۔ اب جہادیوں نے ان کو زبردستی ایک لمبا کالا عبایا اور نقاب پہننے پر مجبور کیا ہے۔لیکن رازان کوئی معمولی عورت نہیں ہیں۔

وہ ہسپتال میں ڈاکٹر اور سول سوسائٹی کی ایک سرگرم کارکن تھیں جو کہ تشدد خصوصاً عورتوں کے خلاف تشدد کی مہم چلاتی رہی تھیں۔شام میں شورش کے پہلے دو سال، جب ابھی داعش منظرِ عام پر نہیں آئی تھی اور شام کے شمالی اور مشرقی علاقوں پر ان کا قبضہ نہیں ہوا تھا، رازان اور ان کے ساتھی کارکن آزادانہ کام کرتے تھے اور آزادی اور جمہوریت کے اپنے مطالبات پیش کرتے تھے۔

(جاری ہے)

وہ کہتی ہیں کہ ’وہ ایک سنہری دور تھا۔ ہمارے بڑے خواب تھے۔‘لیکن جلد ہی یہ سنہری خواب ڈراوٴنے خوابوں میں تبدیل ہو گئے۔ رازان کو اپنی عوامی مصروفیات کو خفیہ رکھنا پڑا اور عورتوں اور مردوں کے ملنے پر سخت پابندی کی وجہ وہ اپنے مردوں سے نہ مل پاتی تھیں۔حالات اس وقت اور بھی برے ہو گئے جب جہادی خواتین، جن میں سے زیادہ تر غیر ملکی تھیں، دولتِ اسلامیہ کے کنٹرول والے علاقوں میں آنا شروع ہو گئیں اور رازان جیسی خواتین کی نگرانی شروع کر دی۔

’ہم اپنی بہت سی چیزیں نقاب کے اندر ہی کرتے کیونکہ اپنے پتہ تھا کہ جہادی ہمارے نقاب نہیں اٹھائیں گے۔ لیکن جب خواتین جہادیوں کی خانسا بریگیڈ بنی تو ہم کو اپنے گھروں میں بھی ڈر لگ لگنے لگا۔‘خانسا بریگیڈ کے پاس اختیارات تھے کہ وہ عورتوں کے نقاب اتار سکیں، ان کے گھروں کی اچانک تلاشی لیں، اور ان کی روز مرہ زندگی کی نگرانی کریں۔مذہبی سرگرمیوں کے علاوہ ہر قسم کے اجتماع پر پابندی تھی اور جو غیر قانونی مجالس میں شریک ہوتے انھیں خانسا بریگیڈ سزا دیتا۔

جون میں شام اور عراق کے کئی علاقوں میں خلافت کے اعلان کے بعد دولتِ اسلامیہ کی شہریوں کے خلاف زیادتیاں اور بھی سنگین ہو گئیں۔رازان کے پاس ابھی بھی ان کے گھر کی چابیاں موجود ہیں ۔رازان کہتی ہیں کہ ’ان کا تشدد بیان سے باہر تھا۔‘عورتوں اور مردوں کو سرِ عام کوڑے لگانا ایک معمول بن گیا۔ اس گروہ نے کئی خواتین کو بدکاری کے شبہ میں سنگسار کر دیا۔

‘یہاں تک کے غلط قسم کے نقاب، یعنی جو بہت لمبا نہیں یا دھاری دار ہے، پہننے پر بھی عورتوں کو سزا دی جاتی۔ شریعت کورٹ بنا سزائیں دیتے۔گذشتہ سال گرمیوں کی ایک صبح رازان کو بھی دولتِ اسلامیہ کا قہر سہنا پڑا۔جب گروپ کے اراکین نے رازان کے ہسپتال کا دورہ کیا تو وہ انھوں نے رازان کے نقاب پہننے پر تنقید کی۔ رازان نے مزید کسی مشکل سے بچنے کے لیے اپنا پورا چہرہ ہی ڈھانپ لیا۔

رازان کہتی ہے کہ جب وہ لوگ چلے گئے تو ان میں سے ایک شخص واپس آیا اور مجھے خبردار کیا کہ ’اپنی زندگی بچانے کے لیے بھاگ جاوٴ۔ وہ تمہیں شریعہ کورٹ کے سامنے پیش کرنے والے ہیں۔‘’میری زندگی اس شخص کی دین ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس نے میری مدد کیوں کی مگر اس نے میری جان بچائی۔‘’میں ہسپتال کے پچھلے دروازے سے نکل گئی اور اپنے والد کو کہا کہ وہ مجھے وہاں سے لے لیں۔

مجھے بہت تشویش تھی کہ وہ میرے ساتھ کچھ کرنے والے ہیں۔ میں اپنی بہن کے گھر چلی گئی۔ پھر میں نہ کبھی اپنے گھر واپس گئی اور نہ ہی کبھی ہسپتال۔‘کچھ دنوں کے بعد رازان کے دوستوں نے انھیں بتایا کہ دولتِ اسلامیہ کے اراکین ان کے متعلق دریافت کر رہے تھے۔رازان کہتی ہے کہ ’مجھے گرفتار ہونے، کوڑے کھانے اور مار دیے جانے سے ڈر لگتا تھا۔‘اس کے کچھ عرصے کے بعد وہ ایک خاتون کا شناختی کارڈ استعمال کر کے ملک سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئیں۔

’ترکی کی سرحد تک کا سفر ایک نہایت خوفناک تجربہ تھا۔‘’مجھے ابھی بھی سڑکوں پر پڑی ہوئی سرکٹی لاشیں یاد ہیں۔۔۔ ہماری کار میں دو بچے بھی تھے۔ جب انھوں نے وہ (سر) دیکھے تو وہ رونے لگے۔ سر سڑک کے دونوں اطراف میں رکھے ہوئے تھے۔ وہ بہت دھلا دینے والا منظر تھا۔‘رازان خوش قسمت تھیں کہ ان کے پاس برطانیہ کا ویزہ تھا جہاں وہ اب بطور ایک پناہ گزین کے رہ رہی ہیں۔

وہ اب یہاں محفوظ ہیں لیکن اس خوف سے کہ کہیں شام میں ان کے رشتہ دار مصیبت میں نہ پڑ جائیں وہ اپنی شناخت بتانا نہیں چاہتیں۔ازان کہتی ہیں کہ ’دنیا دولتِ اسلامیہ سے لڑنے میں مشغول ہے اور اس مسئلے کے منبع کو فراموش کر رہی ہے۔ جو کہ بشار السد ہے۔‘رازان کہتی ہیں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ وہ صرف اس وقت گھر واپس جا سکیں گی جب صدر کو اقتدار سے ہٹا دیا جائے گا۔’میرے پاس شام میں گھر کی چابیاں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میں انھیں ایک دن استعمال کر سکوں گی، امید ہے بہت جلد۔‘

متعلقہ عنوان :