اقوام متحدہ کااسرائیل سے غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ، امریکہ کی مخالفت ، غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے دوران ڈیڑھ ہزار سے زیادہ فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کی جا ئے، اقوام متحدہ، امریکا اسرائیل کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی مخالفت کرے گا‘ جا ن کیری

جمعہ 6 مارچ 2015 09:06

جنیوا(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6 مارچ۔2015ء)اقوام متحدہ کے ایک خصوصی ایلچی نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 2014ء میں غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے دوران ڈیڑھ ہزار سے زیادہ فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کرے۔ان مہلوکین میں ایک تہائی بچے تھے۔اقوام متحدہ کے تحت جنیوا میں قائم انسانی حقوق کونسل کے فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق سے متعلق خصوصی نمائندہ مکرم ویبی سونو نے اپنی پہلی رپورٹ جاری کی ہے جس سے میں اسرائیل سے عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

مگر امریکا نے انسانی حقوق کونسل کی جانب سے اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کے مطالبے کو مسترد کریا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نیایک بیان میں انسانی حقوق کونسل پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے اسرائیل پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائدکرنا اپنا وتیرہ بنا لیا ہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ امریکا اسرائیل کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی مخالفت کرے گا اور اس کا دفاع جاری رکھے گا۔

مکرم ویبی سونو انڈونیشیا کے سابق سفارت کار ہیں۔انھیں گذشتہ سال جون میں فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اپنا نمائندہ مقرر کیا تھا۔انھوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جولائی اور اگست 2014ء میں غزہ جنگ کے دوران 2256 فلسطینی شہید ہوئے تھے۔ان میں 1563 عام شہری تھے اور ان میں 538 بچے بھی شامل تھے۔فلسطینی مزاحمت کاروں کے جوابی حملوں میں اسرائیل کے 66 فوجی اور پانچ شہری ہلاک ہوئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ''جنگ میں دونوں طرف سے ہلاکتوں میں اتنا زیادہ فرق طاقت میں عدم توازن کو بھی ظاہر کرتا ہے جس کا خمیازہ فلسطینیوں کو اتنی زیادہ تعداد میں ہلاکتوں کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے اور اس سے یہ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ کیا اسرائیل نے تمیز ،تناسب اور انتباہ سے متعلق بین الاقوامی قانون کے اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا تھا؟انھوں نے لکھا ہے کہ ''جنگ کا نشانہ بننے والے زیادہ تر فلسطینی شہری کوئی راہ گیر نہیں تھے جو غلط وقت پر کسی غلط جگہ پرآ کھڑے ہوئے ہوں بلکہ ان میں زیادہ تر فلسطینی خاندان تھے جو اپنے گھروں میں اور بالعموم رات کے وقت اسرائیل کے میزائل حملوں میں مارے گئے تھے۔

انھوں نے اردن کے دارالحکومت عمان اور مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں مقیم جنگ سے متاثرہ افراد کے اں ٹرویوز کیے ہیں یا پھر انھوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے غزہ میں ان سے گفتگو کی ہے کیونکہ اسرائیل نے انھیں وہاں جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔اقوام متحدہ کا ایک اور تحقیقاتی کمیشن غزہ جنگ کے دوران طرفین کی جانب سے ممکنہ جنگی جرائم کے ارتکاب سے متعلق الگ سے ایک رپورٹ بھی بہت جلد جاری کررہا ہے۔

مکرم ویبی سونو کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق غزہ کی پٹی میں اس وقت بھی اسرائیل کی جانب سے گرایا جانے والا گولہ بارود اصلی حالت میں پڑا ہے۔یہ تب پھٹ نہیں سکا تھا اور اس کے اب وقفے وقفے سے دھماکوں سے مزید ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ان کے بہ قول غزہ میں قریباً سات ہزار ڈیوائسز موجود ہیں اور انھیں ناکارہ بنانے کی ضرورت ہے۔جنگ کے بعد قریباً ایک لاکھ افراد ابھی تک بے گھر ہیں اور خیموں میں زندگی کے دن پورے کررہے ہیں جبکہ ساڑھے چار لاکھ فلسطینیوں کی پانی کے ذرائع تک رسائی نہیں رہی ہے کیونکہ اسرائیلی بمباری سے غزہ کے انفرااسٹرکچر کی تباہی کے ساتھ ساتھ پانی کی بہت سے پائپ لائنیں بھی ناکارہ ہوچکی ہیں۔