وفاقی حکومت ، اتحاد تنظیمات المدارس دینیہ میں رجسٹریشن فارم کو جامع بنانے ، دینی مدارس بورڈز کے قیام پر پیش رفت ،2010ء معاہدہ کے تحت 5 تعلیمی بورڈز قائم کئے جائینگے،ذرائع، مدرسہ اور مکتب میں تفریق کی جائے، تمام مدارس کے بنک اکاؤنٹس کھلوائے جائیں، فنڈنگ کی مانیٹرنگ ، غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی طلباء کی بے دخلی پر بھی کوئی اعتراض نہیں، مدارس کی اسناد کو 2010ء معاہدہ کے تحت تسلیم کیا جائے، رجسٹریشن کیلئے باقاعدہ ادارہ قائم کرکے بے جا پراپیگنڈہ بند کیا جائے، حکومت سے علماء کا مطالبہ، وزارت نے علماء کی تجاویز کو مثبت پیش رفت قرار دیدیا

ہفتہ 21 فروری 2015 09:13

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 21فروری۔2015ء)وفاقی حکومت اور اتحاد تنظیمات المدارس دینیہ میں رجسٹریشن فارم کو جامع بنانے اور دینی مدارس بورڈز کے قیام پر پیش رفت ،2010ء معاہدہ کے تحت 5 تعلیمی بورڈز قائم کئے جائینگے،وزارت مذہبی امورومدارس کی نمائندہ تنظیم میں اتفاق رائے ، مدرسہ اور مکتب میں تفریق کی جائے، تمام مدارس کے بنک اکاؤنٹس کھلوائے جائیں، فنڈنگ کی مانیٹرنگ ، غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی طلباء کی بے دخلی پر بھی کوئی اعتراض نہیں، مکمل کوائف حامل طلباء کو نہ چھیڑا جائے ، مدارس کی اسناد کو 2010ء معاہدہ کے تحت تسلیم کیا جائے، رجسٹریشن کیلئے باقاعدہ ادارہ قائم کرکے بے جا پراپیگنڈہ بند کیا جائے، حکومت سے علماء کا مطالبہ، وزارت نے علماء کی تجاویز کو مثبت پیش رفت قرار دیدیا۔

(جاری ہے)

باوثوق ذرائع نے ”خبر رساں ادارے“ کو بتایاکہ چند روز قبل وزارت مذہبی امور میں وفاقی حکومت اور اتحاد تنظیمات المدارس دینیہ کا اہم اجلاس بارے ”خبر رساں ادارے“ کو تفصیلات معمول ہوئی ہیں ۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق اجلاس میں وزارت مذہبی امور کے سیکرٹری سہیل عامر سمیت دیگر عہدیدار، وفاق المدارس اہل سنت کے سربراہ مفتی منیب الرحمن، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل قاری حنیف جالندھری، وفاق المدارس الشیعہ کے سربراہ قاضی نیاز حسین نقوی، وفاق المدارس اہلحدیث کے وسیم ظفر اور وفاق المدارس العربیہ السلفیہ کے مولانا عبدالمالک نے شرکت کی۔

اجلاس میں مدارس کی رجسٹریشن، مدرسہ کی تعریف، علماء کے بنک اکاؤنٹس اور فنڈنگ کے معاملات زیر بحث آئے۔ اجلاس کے دوران مدارس کے حوالے سے بنائے گئے رجسٹریشن فارم کو مزید جامع بنانے پر اتفاق ہوا ہے جبکہ علماء کرام نے مطالبہ کیاہے کہ مدرسہ اور مکتب میں تفریق کی جائے کیونکہ ہر مسجد میں مکتب ضرور ہے لیکن مدرسہ صرف وہی ہوتاہے جہاں سے طالب علم فارغ التحصیل قرار پاتے ہیں اور انہیں اسناد جاری کی جاتی ہیں۔

انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیاکہ 2010ء میں وفاقی حکومت اور اتحاد المدارس دینیہ میں معاہدہ ہوا تھا اس پر من وعن عمل درآمد کیا جائے اور مدارس کی اسناد کو دیگر تعلیمی اداروں کی طرح تسلیم کیا جائے۔ علماء نے یہ بھی مطالبہ کیاکہ رجسٹریشن کیلئے ایک سرکاری اتھارٹی قائم کی جائے اور اگر کسی بھی سیکورٹی ادارے کو مدارس کے حوالے سے تفصیلات چاہیے ہوں تو اسی اتھارٹی سے رابطہ کرکے حاصل کی جائیں اور مدارس کو تنگ نہ کیا جائے۔

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیاکہ مدارس کو سیکورٹی کی نظر سے نہیں بلکہ تعلیمی اداروں کی حیثیت سے دیکھا جائے اور بے جا پراپیگنڈہ بند کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق وزارت مذہبی امور نے مدارس کی بیرونی و اندرونی فنڈنگ کا معاملہ بھی اٹھایا جس پر علماء نے کہاکہ انہیں بیرونی فنڈنگ کی مانیٹرنگ پر کوئی اعتراض نہیں ہم مین سٹریم میں آنے کیلئے تیار ہیں افسوس شیڈول بنک ہمارے اکاؤنٹس نہیں کھولتے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو ہدایت کی جائے کہ مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھولے جائیں تاکہ حکومت نے شبہات بھی دور ہوسکیں اور ہم بھی اس مشکل سے نکل سکیں۔

ذرائع نے مزید بتایاکہ وفاقی حکومت اور علماء کرام میں دینی مدارس بورڈز کے قیام پر پیش رفت ہوئی ہے اور اس سلسلے میں پانچ امتحانی بورڈ ز قائم کئے جائینگے اور اس سلسلے میں باقاعدہ قومی اسمبلی سے قانون سازی کرائی جائیگی جس کے مسودہ کیلئے وزارت قانون، وزارت تعلیم اور وزارت مذہبی امور کے نمائندے حکومت کی جانب جبکہ مدارس کی جانب سے مفتی منیب الرحمن اور قاری حنیف جالندھری کمیٹی میں شامل ہونگے۔

ذرائع نے مزید بتایاکہ علماء نے حکومت سے کہاہے کہ عصری علوم اسی صورت پڑھائے جائیں جب حکومت ہمارے مطالبات تسلیم کرے گی۔ اجلاس کے دوران غیر ملکی طلباء کا معاملہ بھی زیر بحث آیا اس موقع پر علماء نے کہاکہ جن طلباء کے پاس سفری کوائف مکمل ہیں انہیں پاکستان میں درس و تدریس سے نہ روکاجائے البتہ جو غیر قانونی طور پر ملک میں موجود ہیں انہیں اگر حکومت بے دخل کرنا چاہے تو ہمیں اعتراض نہیں ہوگا۔ دوسری جانب وزارت مذہبی امور نے علماء کی ان تجاویز کو مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔