پاکستان پیپلز پارٹی نے ذوالفقار مرزا سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ، ذوالفقار مرزا کی جانب سے پارٹی قیادت، وزراء اور پارٹی رہنماؤں پر تنقید اور ان پر الزامات ان کی ذاتی رنجش ہوسکتی ہے، ذوالفقار مرزا نے اخلاقیات کی تمام حدیں توڑ دی ہیں، جس کا بڑا افسوس ہے، عزیر بلوچ سمیت کسی بھی کریمنل چاہے اس کا تعلق کسی جماعت یا گروپ سے ہو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی،فاقی اور صوبائی حکومتوں اور پاک فوج سمیت تمام امن و امان کی بحالی کے ادارے ایک نکتہء پر متحد ہیں کہ اس ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ہو اور یہاں امن و امان قائم ہو، گورنر راج سمیت دیگر افواہوں اور تجزیہ نگاروں کے تجزیوں سے ملک نہیں چلتا،صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کی پریس کانفرنس

بدھ 18 فروری 2015 09:23

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 18فروری۔2015ء) سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کی جانب سے پارٹی قیادت، وزراء اور پارٹی رہنماؤں پر تنقید اور ان پر الزامات ان کی ذاتی رنجش ہوسکتی ہے، ذوالفقار مرزا نے اخلاقیات کی تمام حدیں توڑ دی ہیں، جس کا بڑا افسوس ہے، عزیر بلوچ سمیت کسی بھی کریمنل چاہے اس کا تعلق کسی جماعت یا گروپ سے ہو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی اگر ذوالفقار مرزا پارٹی قیادت پر اس طرح کی تنقید کرتے ہیں تو پھر پیپلز پارٹی بھی ان سے لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور پاک فوج سمیت تمام امن و امان کی بحالی کے ادارے ایک نکتہء پر متحد ہیں کہ اس ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ہو اور یہاں امن و امان قائم ہو، گورنر راج سمیت دیگر افواہوں اور تجزیہ نگاروں کے تجزیوں سے ملک نہیں چلتا۔

(جاری ہے)

وہ منگل کو پیپلز میڈیا سیل کراچی میں پریس کانفرنس کررہے تھے۔ اس موقع پر سینیٹر مولا بخش چانڈیو، صوبائی وزیر جام مہتاب ڈہر، ارکان قومی اسمبلی سردار کمال چنگ، شاہدہ رحمانی، ارکان سندھ اسمبلی مکیش کمار چاولہ، امداد پتافی، طارق مسعود آرائیں، ذوالفقار قائم خانی، منظور عباس اور دیگر بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اور پیپلز پارٹی کے خلاف جھوٹے الزامات کی شروعات سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کی جانب سے کی گئی ہے۔

یہ کسی نظریاتی سوچ کی نہیں بلکہ ان کی ذاتی رنجش اور ذاتی روش کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نظریاتی سوچ کے حامل کسی کی زبان اس طرح کی نہیں ہوتی۔ انہو ں نے کہا کہ پیپلز پارٹی پر ماضی میں الزامات لگائے گئے۔ ہماری شہید قائد بینظیر بھٹو اور پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری پر الزامات اور جھوٹے مقدمات بھی کئے گئے اور اس کی پاداش میں انہوں نے 12سال قید و بند کی صہوبتیں کاٹیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے تمام داروں اور عدالتوں نے ہماری قیادتوں کے خلاف لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کیں اور ہم ان الزامات سے نہ صرف بری ہوئے بلکہ ہم سرخ رو بھی ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار مرزا ایک جانب خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس آج جو کچھ ہے وہ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے مرہون منت ہے اور دوسری جانب وہ اپنی ہی قیادت اور پارٹی کے خلاف جس طریقے کی زبان اور رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں وہ اخلاقیات کی تمام حدوں کو تجاوز کرگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف ایکشن لینے یا نہ لینے کے حوالے سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت جلد فیصلہ کرے گی۔ شرجیل میمن نے کہا کہ سندھ کی ثقافت اور یہاں کی روایات کے برخلاف ذوالفقار مرزا نے ہماری بہن اور پارٹی کی اہم رکن فریال تالپور کے لئے جس طرح کی زبان استعمال کی وہ شاید انہیں زیب نہیں دیتی۔ انہوں نے کہا کہ آج فریال تالپور پارٹی کو منظم کرنے اور پارٹی کے کارکنوں اور عوام کے مسائل کے حل میں دن رات کوشاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انور مجید پر لگائے گئے تمام الزامات بھی بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے اگر سالہا سال سے بند ملیں تمام قواعد و ضوابط کو پورا کرتے ہوئے خریدیں اور ان کے شروع ہونے سے جہاں ملک کی معیشت کو استحکام ملا اور ہزاروں افراد کو روزگار میسر آیا ہے اور حکومت کو ٹیکس کی مد میں فائدہ ہوا تو انہوں نے کون سا جرم کیا ہے۔ شرجیل میمن نے کہا کہ ذوالفقار مرزا نے مجھ سمیت وزراء اور ارکان اسمبلی پر جو الزامات لگائے ہیں ہم ان سے یہ ضرور پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب تک وہ ہمارے ساتھ تھے تو انہیں ہم میں کوئی بڑائی کیوں نظر نہیں آئی۔

شرجیل میمن نے کہا کہ گذشتہ روز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے سماجی ویب سائیڈ پر پیغام آنے کے بعد ذوالفقار مرزا کی جانب سے مختلف چینلز پر انٹرویو اور ان کا پارٹی کی انتشار پھیلانے کی تمام کوشش دم توڑ گئی ہیں اور پارٹی قیادت کے مابین اختلافات کی خبریں پھیلانے کی بھی تمام سازشوں نے دم توڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی ذوافقار مرزا کے الزامات کے جواب میں تمام تر شواہد اور ٹھوس دلائل کے ساتھ ان پر الزامات لگا سکتے ہیں لیکن یہ نہ ہماری روایت رہی ہے اور نہ ہی ہماری پارٹی کی قیادت کی جانب سے اس قسم کی ہمیں اجازت ہے۔

انہوں نے کہا کہ الزامات کی بوچھاڑ اور ذوالفقار مرزا کے الفاظوں کے استعمال نے ان کی شخصیت کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ شرجیل میمن نے کہا کہ پارٹی کے چیئرمین کی جانب سے واضح پیغام کو ذوالفقار مرزا سوچ سمجھ کر پڑھ لیں اور یہ واضح پیغام پارٹی اور بدین کے عوام کے لئے ہے۔ ایک سوال کے جواب میں شرجیل انعام میمن نے کہا کہ اخلاقیات ہمیں کسی صورت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم کسی چینل پر بیٹھ کر گالی گلوچ اور غلط رویہ اختیار کریں۔

انہوں نے کہا کہ ذوالفقار مرزا نے زاتی روش کو پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف غلط زبان کا استعمال کرکے نہ صرف پارٹی ڈسپیلن کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ اخلاقیات کی تمام حدوں کو بھی توڑ دیا ہے اور اس پر پارٹی کی اعلیٰ قیادت ہی فیصلہ کرے گی۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر ذوالفقار مرزا پارٹی کی اعلیٰ قیادت پر اعتماد نہیں رکھتے تو پھر پارٹی بھی انہیں ڈس اوون کرتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں شرجیل انعام میمن نے کہا کہ اس وقت ملک سنگین چیلنجز کا سامنا کررہا ہے۔ ملک میں دہشتگردی کے باعث امن و امان کی صورت حال انتہاہی نازک ہے اور ایسے موقع پر ہماری سول اور فوجی قیادت ایک صفحہ پر متحد ہے کہ کسی صورت بھی اس ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ہو اور ملک میں امن و امان کا قیام ہو۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف ، وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے ایک بار اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ اس ملک کو دہشتگردی کی لعنت سے چھٹکارا دلا کر ہی دم لیا جائے گا اور اس سلسلے میں کئی فیصلے بھی ہوئے ہیں اور آصف علی زرداری نے خود اس چیز پر زور دیا ہے کہ پولیس میں بھرتیوں کے لئے سلیکشن بورڈ میں رینجرز اور پاک فوج کے اچھے افسران کو شامل کیا جائے تاکہ پولیس میں اچھے جوان اور افسران سامنے آسکیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی آرمی چیف کو اس بات کی مکمل یقین دہانی کرائی ہے کہ سندھ حکومت اس سلسلے میں مکمل تعاون کرنے کو تیار ہے تاکہ امن و امان کے قیام کے لئے کی جانے والی کوششوں کے خاطرخواہ نتائج سامنے آسکیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں شرجیل انعام میمن نے کہا کہ عزیر بلوچ ایک کرمنل ہے اور پیپلز پارٹی کسی بھی دباؤ میں آکر ان کی حوالگی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔

انہوں نے کہا کہ کرمنل کا کسی بھی جماعت یا گروپ سے تعلق ہو اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افواہوں اور تجزیہ نگاروں کے تبصرے پر میں کسی قسم کا کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔ ہماری وفاقی ہو یا صوبائی حکومت یا آرمی وہ سسٹم کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہ رہی۔ ان سب کو ایک ہی ایجنڈہ ہے کہ ہر حال میں ملک میں امن قائم ہو اور دہشتگردی کا خاتمہ ہو اور ملک میں امن و امان کی بحالی کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔

الزامات کے جواب میں پیپلز پارٹی کی جانب سے عدالتوں سے رجوع کرنے کے سوال پر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ الزامات لگانا بہت آسان ہے اور اس کو ثابت کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔ اگر کسی کے پاس ہمارے خلاف شواہد ہیں تو وہ عدالتوں میں جائیں ہمارے پاس وکلاء کو دینے کے لئے فالتو رقم نہیں ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کی خواہشوں پر نہیں بلکہ اپنی خواہش پر کام کرتے ہیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی کسی کی ڈکٹیشن پر کام کرتی ہے۔