سینٹ انتخابات، 52نشستوں کے لئے 185امیدوار سامنے آگئے،مختلف نشستوں کے لئے جوڑ توڑ بھی عروج پر پہنچ گیا،ہارس ٹریڈنگ کے سنگین خدشات ، بلوچستان میں حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں بھی آمنے سامنے آگئیں، ارکان اسمبلی سے رابطوں کے سلسلے تیز ہوگئے

اتوار 15 فروری 2015 09:03

اسلام آباد/لاہور/کوئٹہ/پشاور/کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 15فروری۔2015ء)سینٹ کے انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ مکمل ہوگیا جس کے دوران سینٹ کی خالی ہونے والی 52نشستوں کے لئے 185امیدوار سامنے آگئے ہیں جبکہ مختلف نشستوں کے لئے جوڑ توڑ بھی عروج پر پہنچ گیا ہے جس سے سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے سنگین خدشات پیدا ہوگئے ہیں، حتی کہ بلوچستان میں حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں بھی آمنے سامنے آگئی ہیں اور ارکان اسمبلی سے رابطوں کے سلسلے تیز ہوگئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق سینیٹ الیکشن کیلئے آخری روز اسلام آباد میں 52 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ وفاقی دارالحکومت سے 9 جبکہ فاٹا سے 43 امیدوار سامنے آ گئے۔ پنجاب میں سینیٹ کی 11 نشستوں کیلئے 22امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دئیے۔

(جاری ہے)

سندھ سے سینیٹ کی گیارہ نشستوں کیلئے پیپلزپارٹی کے مزید تین امیدواروں جبکہ نون لیگ کے ایک اور فنکشنل لیگ کے 2امیدوار وں نے کاغذات جمع کرائے۔

خیبرپختونخوا سے 12 سینیٹ نشستوں کیلئے 40 امیدوار سامنے آ گئے جن میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی شامل ہیں۔ تحریک انصاف نے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے داماد عدنان خان خٹک کو بھی ٹکٹ جاری کر دیا۔ بلوچستان کی بارہ نشستوں کیلئے آخری روز تیس سے زیادہ امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ان میں مولانا عبدالغفور حیدری ،حافظ حسین احمد، یعقوب ناصر، میر حاصل بزنجو شامل تھے۔

دوسری جانب کوئٹہ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق بلوچستگانمیں بڑی تعداد میں آزاد امیدوار میدان میں آگئے جس کے باعث حکومتی اتحاد کا شیرازہ بکھرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے،بلوچستان میں سینٹ انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک طرف نئے اتحاد بن رہے ہیں تو دوسری جانب سہ جماعتی حکومتی اتحاد کا شیرازہ بکھرتا دکھائی دے رہا ہے۔

بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کے میدان میں اترنے سے ہارس ٹریڈنگ کے خدشات بڑھ گئے۔ بلوچستان میں سینٹ کی خالی ہونے والی 12 نشستوں پر 5 مارچ کو ہونے والے انتخابات کے لئے سیاسی جماعتوں کے درمیاں جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف اپوزیشن جماعتوں اے این پی اور بی ین پی منگل کے درمیان اتحاد ہوگیا تو دوسری جانب حکومتی اتحاد میں شامل مسلم لیگ نون اپنے اتحادیوں پشتون خواہ میپ اور نیشنل پارٹی کو چھوڑ کراپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسمنٹ کے لئے کوشاں ہے۔

مسلم لیگی ارکان اپنی مرکزی قیادت کی جانب سے گورنر وزیر اعلی اور کوئٹہ کی میئر شپ کے معاملے پر کافی عرصہ سے نالاں ہیں۔ حکومتی اتحادیوں نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ میپ کی کوشش ہے کہ مسلم لیگ نون کو ساتھ ملا کر سینٹ کی 12 نشستوں میں سے 11 حکومتی اتحاد کو ملیں۔ ایک طرف جہاں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد قائم ہو رہے ہیں تو دوسری جانب سینٹ کے انتخابات میں 20 کے قریب وہ آزاد ارکان بھی میدان میں ہیں جنہیں اپنی جماعتوں سے ٹکٹ تو نہیں ملا لیکن قسمت آزمائی کے لئے انہوں نے بھی ارکان اسمبلی سے خفیہ ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔