پاک بھارت وزرائے اعظم کا حالیہ رابطہ بامعنی اور سنجیدہ مذاکرات کی طر ف مثبت قدم ہے‘ سرتاج عزیز،مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے ہٹ کر متبادل حل نکالنا انتہائی مشکل ہے‘ حافظ سعید ممبئی حملوں کا ملزم نہیں‘ نہ ہی اس کے خلاف شواہد قابل قبول ہیں‘ جماعت الدعوة نوے فیصد سماجی بہبود کے کام کرتی ہے‘بھارت کو افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف درپردہ جنگ کے لئے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے، انٹرویو

اتوار 15 فروری 2015 10:22

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 15فروری۔2015ء) وزیراعظم پاکستان کے امور خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز نے میاں نواز شریف سے نریندر مودی کے ٹیلیفونک رابطے کو ایک محتاط پرامیدی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام کا ہدف بامعنی اور سنجیدہ مذاکرات کا آغاز ہے۔ تاہم اس کا انحصار خارجہ سیکرٹری کی سطح کے مذاکرات پر ہے۔ سرینگر سے شائع ہونیوالے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنا ایک اچھا تاہم محتاط پر امیدی کا اقدام ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ اقدام سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات کے آغاز ہے تاہم اس بارے میں واضح یقین کا انحصار دونوں ممالک کے سیکرٹری خارجہ کے درمیان ہونیوالے مذاکرات سے ہی ممکن ہو سکے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اگر بھارتی سیکرٹری خارجہ پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو یقیناً مذاکرات کے ایجنڈے‘ اور ٹائم لائن پر بھی بات ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار مذاکراتی عمل شروع ہو جائے تو اس میں خود بخود تیزی آجائیگی۔

انہوں نے کہا کہ یہ امریکہ اور دیگر عالمی ممالک کے دباؤ اور کچھ کشمیر کے اندرونی گروہوں کے ممکنہ کردار کا نتیجہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کیساتھ مذاکراتی عمل کیلئے پیشرفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور دیگر ممالک اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ بھارت نے گزشتہ سال اگست میں خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات کے حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا نہیں کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھارت پر دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے آغاز کیلئے دباؤ ڈال رہے تھے۔

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس بارے پاکستان کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی اور ہم بھارت کیساتھ دیگر ایشوز پر اس امید سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں کہ کشمیر پر سنجیدگی سے بات چیت کی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ہم اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو پس پشت ڈال کر اس مسئلے کا کوئی بھی متبادل بہتر حل تلاش نہیں کر سکتے کیونکہ یہ قرار دادیں عالمی سطح پر اس مسئلے کا تسلیم شدہ حل ہیں۔

پاکستان میں دہشتگرد گروپوں کے حوالے سے بھارتی موقف بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت کا پرانا المیہ ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف پاکستانی اقدامات کا کبھی ادراک ہی نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ حافظ سعید ممبئی حملوں کا ملزم نہیں ہے اور انکی تنظیم جماعت الدعوة کا نوے فیصد کام سماجی بہبود کیلئے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسے کوئی شواہد ملیں بھی کہ حافظ سعید ممبئی حملوں میں ملوث تھا تو ہمارے لئے ناقابل قبول ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بحالی تعمیر نو میں بھارتی کردار پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں تاہم بھارت کو افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف درپردہ جنگ کے لئے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دینے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ہم گزشتہ سال مارچ میں پیشرفت کیلئے تیار تھے تاہم بی جے پی کی جانب سے ہمیں پیغام بھیجا گیا تھا کہ ہم بھارت میں انتخابات تک اس معاملے کو ملتوی کریں یہی وجہ ہے کہ ہم ابھی تک انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کے معاملات بہتر ہو جانے کے بعد ایل او سی پر کشیدگی بھی ختم ہو جائیگی۔