سینٹ انتخابات ،چیئرمین کیلئے پی پی اور ن لیگ میں پس پردہ بات چیت شروع،ایم کیو ایم ،تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف) کا اہم کردار سامنے آنے کا امکان،ن لیگ ڈپٹی چیئرمین لے کر پی پی پی کو چیئرمین کی سیٹ دے سکتی ہے،ذرائع

اتوار 15 فروری 2015 10:14

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 15فروری۔2015ء) سینٹ انتخابات قریب آتے ہی ایوان بالا کے چیئرمین او رڈپٹی چیئرمین کے لئے بھی صلاح مشورے شروع ہوگئے ہیں اور مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے درمیان صلاح مشورہ جاری ہے جبکہ دوسری جانب امکا ن ہے کہ انتخابات کے بعد ایم کیوایم، تحریک انصاف او رجے یو آئی(ف) کا اہم کردار ہو سکتا ہے جبکہ سیاسی پنڈتوں کے مطابق مسلم لیگ ن ڈپٹی چیئرمین پر اکتفا کرکے چیئر مین کی نشست پی پی پی کو دے سکتی ہے۔

سینٹ کے انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سینٹ کے انتخابات کے بعد کوئی بھی سیاسی پارٹی کسی دوسری سیاسی پارٹی کی حمایت کے بغیر چیئرمین بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی‘ حکومت کی خواہش ہے کہ چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے لئے اتفاق رائے سے معاملات حل کر لئے جائیں اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے ساتھ پس پردہ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے‘ تاہم اس حوالے سے دونوں سیاسی پارٹیاں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہیں‘ صوبوں میں پارٹی پوزیشن اور حاصل ہونے والی سیٹوں کے بعد سینٹ میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے 26‘ 26 ارکان ہونے کا امکان ہے جبکہ دیگر سیاسی پارٹیوں میں سے کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس 6 سے زیادہ سینیٹرز نہیں ہونگے۔

(جاری ہے)

اس کے باوجود یہ قوی امید ہے کہ اگر ایم کیو ایم سندھ میں پیپلزپارٹی کے ساتھ الحاق کرتے ہوئے حکومت میں شامل ہو جاتی ہے تو چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں ایم کیو ایم اپنے 6 سینیٹرز کے ساتھ پیپلزپارٹی کی حمایت کرے گی جبکہ مسلم لیگ ق پیشگی ہی پیپلزپارٹی کی حمایت کا واضح اشارہ دے چکی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے 6 یا 7 اراکین سینٹ میں موجود ہونگے جن کی حمایت پیپلزپارٹی کے ساتھ ہی دکھائی دے رہی ہے لیکن یہ بھی امید ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں اپنا علیحدہ امیدوار کھڑا کرے۔

جمعیت علمائے اسلام کے پاس 5 سینیٹرز ہونگے جو کہ دونوں میں سے کسی ایک بھی سیاسی جماعت کی حمایت کر سکتے ہیں ان کے حوالے سے فی الوقت کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ حکومتی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن چیئرمین سینٹ کی سیٹ پیپلزپارٹی کو دیکر ڈپٹی چیئرمین سینٹ ن لیگ سے لانے کے فارمولے پر غور کر رہی ہے اور اسی فارمولے پر عملدرآمد کے قوی امکان ہیں۔