سپریم کورٹ کا ملک بھر میں لاوارث اور ناقابل شناخت لاشوں کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی سطح پر مربوط نظام وضع کرنے کا حکم، ملنے والی لاشوں کی لاپتہ افراد کے لواحقین سے تصدیق کرانے کی ہدایت،ناقابل شناخت لاشوں کی تصدیق کرائی جائے اس حوالے سے اگر قانون سازی بھی کرنا پڑے تو کی جائے،صوبوں کو حکم،حکومتیں ذہن سے نکال دیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی باز پرس نہیں ہو گی،جسٹس جواد ،وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنا فرض کب ادا کریں گے سب کام عدالت نے کرنا ہیں تو حکومتیں بتا دیں کہ تمام تر وسائل کے باوجود وہ مکمل بے بس ہیں،بڑی بڑی ترامیم دو دن میں کر لی جاتی ہیں چھوٹے قوانین بنانے میں حکومتوں کو دلچسپی تک نہیں‘ حکومتیں کام نہیں کریں گی تو اثرات قومی سلامتی پر پڑیں گے ،جسٹس عظمت سعید

بدھ 11 فروری 2015 09:36

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 11فروری۔2015ء) سپریم کورٹ نے ملک بھر میں لاوارث اور ناقابل شناخت لاشوں کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی سطح پر مربوط نظام وضع کرنے کا حکم دیا ہے اور ملنے والی لاشوں کی لاپتہ افراد کے لواحقین سے تصدیق کرانے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے بلوچستان حکومت کی جانب سے لاشوں کی تصدیق کے حوالے سے رپورٹ مسترد کر دی۔

حکومت پنجاب‘ کے پی کے اور سندھ حکومت کو ہدایت کی ہے کہ ناقابل شناخت لاشوں کی تصدیق کرائی جائے اس حوالے سے اگر قانون سازی بھی کرنا پڑے تو کی جائے۔ یہ حکم جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید پر مشتمل دو رکنی بنچ نے منگل کے روز جاری کیا ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنا فرض کب ادا کریں گے سب کام عدالت نے کرنا ہیں تو حکومتیں بتا دیں کہ تمام تر وسائل کے باوجود وہ مکمل بے بس ہیں۔

(جاری ہے)

صوبوں کی رپورٹس تسلی بخش نہیں ۔ مسخ شدہ لاشیں خود آ کر اپنی شناخت نہیں کرا سکتیں۔ کوئٹہ میں صرف 9 لاشوں کو محفوظ کرنے کی سہولت ہے‘ قوم پہلے ہی مشکل ترین حالات سے گزر رہی ہے ہم نے ابھی بھی ہوش نہ کیا تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ حکومتیں ذہن سے نکال دیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی باز پرس نہیں ہو گی اس کی پوچھ گچھ یہاں نہیں تو اللہ کے حضور ضرور ہو گی جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ حکومتوں کے کام نہ کرنے کا ردعمل ہے۔

حکومت لوگوں کی خدمت کرے تو کوئی مسئلہ پیدا ہی نہ ہو گا۔ جس علاقے میں بیٹیوں کو گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں وہاں بھی ایک بیٹی نے اپنے لاپتہ کی تھانے میں جا کر گواہی دی‘ ایک لاپتہ شخص کا والد عدالت میں دھاڑیں مار مار کر روتا رہا اور گریبان چاک تک کر دیا۔ سب کاغذی کارروائی ہے حکومتوں کے طرز حکمرانی سے حالات واضح ہیں۔ حکومتیں لوگوں کے ساتھ مذاق بند کریں۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کرنے کو بڑی بڑی ترامیم دو دن میں کر لی جاتی ہیں مگر چھوٹے قوانین بنانے میں حکومتوں کو دلچسپی تک نہیں‘ حکومتیں کام نہیں کریں گی تو اس کے اثرات قومی سلامتی پر پڑیں گے۔ روزانہ ایک لاش کراچی سے ملتی ہے دوسرے صوبوں کے لوگ اٹھا کر کے پی کے لائے جاتے ہیں شدت پسند اور طالبان لواحقین سے تاوان مانگتے ہیں تاوان نہ ملنے پر لوگوں کو مار دیا جاتا ہے۔

یہ ناقابل شناخت لاشیں کن لوگوں کی ہیں اور انہیں کیوں اور کس نے مارا ہے۔ انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دیئے ہیں سماعت شروع ہوئی تو چاروں صوبوں کے لاء افسران پیش ہوئے اور انہوں نے رپورٹس پیش کیں۔ ساجد بھٹی ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔ نصر اللہ بلوچ بھی پیش ہوئے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ صرف 437 کیسے کہہ سکتے ہیں بلوچستان نے رپورٹ پیش کی 5 سال کے عرصے میں 153 افراد کی لاشیں ملیں۔

قلات میں 79 ہیں 15 کی پہچان کر لی گئی ہے باقیوں کو دفنا دیا گیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ لاشیں ملتی ہیں مگر سرد خانوں میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے اشتہار تک نہیں دیا جاتا ملنے والے لوگوں کی اطلاع کیسے دی جاتی ہے۔ 153 افراد ہیں کوئی لاکھوں افراد تو نہیں جب ایس ایچ او جا کر اطلاع دے سکتا تھا بلوچستان کی طرف سے بتایا گیا کہ پہچان نہ ہونے پر ہم اخباروں میں اشتہار دیا جاتا ہے طریقہ کار بھی درج ہے۔

اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں طریقہ کار نہیں چاہئے 153 کے لواحقین کا آپ کو علم ہونا چاہئے ان کی چیخیں آسمان تک جا رہی ہیں ‘ قدیر اور نصر اللہ بلوچ مسلسل چیخ رہے ہیں آپ کو پتہ نہیں کہ لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں اور آپ کو پتہ ہی نہیں اچھی حکومت ہے۔ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی کی جاتی۔ پولیس تھانے کی حدود میں جب کوئی لاش ملتی ہے تو اس کا طریقہ کار موجود ہے۔

تاہم موجودہ مقدمے میں پہلے ایف آئی آر تک کا اندراج نہیں ہو رہا تھا عدالت کے حکم پر مقدمہ درج کیا گیا یہ تسلی بخش رپورٹ نہیں ہے یہ ذہن میں رکھ لیں ان کے ماں باپ اور دیگر ورثاء موجود ہیں ایک حادثے میں 35 افراد لاپہ ہو گئے محمد علی قلندرانی کے بچے غائب ہو گئے۔ نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ لوگ مایوس ہو رہے ہیں مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے ہسپتال گئے تو لاشیں فرش پر پڑی ہوئی تھیں ہسپتال انتظامیہ نے بتایا کہ ایک ہفتہ مشکل سے لاشیں رکھی جاتی ہیں پھر دفنا دی جاتی ہیں ڈی این اے ٹیسٹ بھی پولیس کہے تو لئے جاتے ہیں ایدھی والوں کے حوالے لاشیں کر دی جاتی ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ حکومت کا فریضہ اتنا تو نہیں ہے کہ لاشوں کی شناخت تو کرے‘ بے شک لاپتہ افراد کی تلاش نہیں ہو سکی مگر لاشوں کی شناخت تو ہونی چاہئے تھی۔

نصر اللہ بلوچ نے بتایا کہ حکومت بے بس ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سے بھی ملاقات ہوئی ہے جسٹس جواد نے کہا کہ تمام وسائل کے باوجود اگر حکومت بے بس ہے تو اعلان کر دے اور گھر چلی جائے۔ یہاں حکومت تو کہہ رہی ہے کہ ہم بے بس نہیں ہیں بلوچستان حکومت کی رپورٹ تسلی بخش نہیں ہے اس لئے مسترد کرتے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ناصر چٹھہ چیف سیکرٹری ہیں۔

جس پر جواد ایس خواجہ نے کہا کہ لگتا ہے کہ لاء افسران کا حکومت کے درمیان رابطہ ہی نہیں ہے اس لئے انہیں افسران کے حوالے سے علم نہیں ہے۔ عدالت نے حکمنامہ میں تحریر کرایا 3 فروری کو رپورٹ دی گئی تھی جس میں لاوارث لاشوں کے حوالے سے طریقہ کار دیا گیا تھا۔ ہم نے رپورٹ دیکھی ہے اور سی ایم اے کا بھی جائزہ لیا ہے حکومت بلوچستان کی رپورٹ تسلی بخش نہیں ہے۔

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل فرید سے پوچھا گیا کہ لاشوں کے ملنے پر کیا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے تو انہوں نے کہا کہ مرنے والے کے ورثاء کو بلایا جاتا ہے اور شناخت کی جاتی ہے شناخت نہ ہونے پر اشتہار دیا جاتا ہے 153 افراد کی لاشیں ملی ہیں تعزیرات پاکستان 176 کے تحت پولیس اور مجسٹریٹ کے رویہ و بیانات ہوتے ہیں ہم یہ جان کر حیران ہوئے ہیں کہ لاء افسر نے بتایا کہ لاپتہ افراد کے ورثاء کو اطلاع نہیں دی جاتی جب بھی کوئی لاش ملتی ہے۔

اخبارات میں اشتہار دے دیا جاتا ہے۔ یہ عجیب طریقہ ہے‘ جسٹس جواد نے کہا کہ صوبے کی عوام کی حفاطت کی امین حکومت ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کتنے لوگ لاپتہ ہیں ہر لاپتہ شخص کے ایک سے زائد رشتہ دار آتے تھے لیوی اور تھانے کے ذریعے لاپتہ افراد کے لواحقین کو اطلاع دی جا سکتی تھی لاش کی تصویر کیسے آ سکتی ہے اخبار کون خریدتا ہے شرح خواندگی ہی اتنی کم ہے۔

افسوس ناک شرح خواندگی ہے۔ مسخ شدہ لاشوں کو کون شناخت کر سکتا ہے پورے ملک کو گیس سپلائی کرنے والے صوبے کی شرح خواندگی سب سے کم ہے۔ آپ کس دنیا میں رہ رہے ہیں پورے وسائل موجود ہیں اطلاع دے سکتے ہیں کہ ملنے والی لاشوں کا جائزہ لے کر پہچان کر لیں کہیں ان میں سے کوئی آپ کا اپنا تو نہیں ہے۔ فرید ڈوگر نے کہا کہ تمام تر طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے جسٹس جواد نے کہا کہ بلوچستان کے 30 ضلعے ہیں سمجھ لیں ایک لاش ملتی ہے تھانے والے نے مجسٹریٹ کو رپورٹ کر کے 176 کی کارروائی کر لے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کو کون سا تھانہ اطلاع دیتا ہے ہمیں کل تک اس کا جواب دیں۔

کیا آپ کے پاس دل نہیں ہے عدالت نے آرڈر میں مزید کہا کہ لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کو پولیس یا لیوی کے ذریعے اطلاع دی جانی چاہئے تھی مگر افسوس ایسا نہیں کیا جاتا۔ سیکشن 176 کی کارروائی لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو اطلاع نہ دینے کا متبادل نہیں بن سکتی۔ حکومت کو بار بار کہا گیا کہ لاپتہ افراد کے لواہقین کو سہولیات فراہم کی جائیں اور ان کے دکھ درد میں ان کی مدد کی جائے۔

حکومت نے سرد خانوں کی سہولیات کے حوالے سے بتایا تک نہیں گیا کوئٹہ میں صرف 9 افراد کی لاشوں کو محفوظ کرنے کی سہولت موجود ہے باقی لاپتہ افراد کی لاشیں تو فرشوں پر پڑی ہوں گی۔ یہ بھی حیران کن ہے کہ صوبے میں سرد خانوں کے حوالے سے کوئی رپورٹ نہیں دی گئی۔ معلومات کی کمی سے معاملات تک پہنچنے میں مشکل درپیش ہے۔ نصر اللہ بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ صوبے میں سردخانے تک نہیں ہیں کوئٹہ میں ہسپتال اسٹاف نے بتایا کہ ان کے پاس صرف 9 لاشوں کے تحفظ کا انتظام ہے۔

عدم سہولیات کی وجہ سے لاشیں پڑی سڑتی رہتی ہیں پھر بدبو ہونے پر انہیں لاوارث ہی دفنا دیا جاتا ہے۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو بھی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں جو ہسپتال یا انتظامیہ سے رابطہ کرتے ہیں۔ حکومت کے کرنے کے جو کام ہیں کہ وہ اس حوالے سے موثر طریقہ کار اختیار کرتی تاکہ اس طرح کے حالات کا جائزہ لیا جا سکتا موجودہ بلوچستان کی رپورٹ غیر تسلی بخس ہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ آپ ایک لمحے کے لئے تصور کر لیں اگر آپ کا کوئی لاپتہ ہو اور آپ کو بتائے بغیر ملنے والی لاش دفنا دی جائیں تو آپ کو کیا محسوس ہو گا۔ آپ لاپتہ میر اللہ کے بیٹے ہونے کا تصور کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ قوم پہلے ہی مشکل ترین حالات سے گزر رہی ہے اگر ہمیں ابھی بھی ہوش نہیں آ رہا تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے یہ ذہن سے نکال دیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی پوچھ گچھ کہیں نہیں ہو گی یہاں نہیں تو اللہ کے پاس ضرور ہو گی‘ عدالت نے آرڈر میں کہا کہ ملنے والی لاشوں کے حوالے سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کو اطلاع دی جائے تاکہ وہ ان کی شناخت کر سکیں۔

اگر ان کے رشتہ دار ہوں تو وہ لاشیں لے جا سکیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ نے اجتماعی قبروں کا قبرستان دیکھا ہے کیا اس کا کوئی ردعمل نہیں آئے گا وہاں سے ہزاروں لوگ روزانہ گزرتے ہیں جمہوری حکومت ہے ریلیف دے سکتی ہے حکومت کہہ رہی ہے بے بس ہے اگر بے بس نہیں ہے تو کوششیں کیوں نہیں کر رہی ہے۔ خیبر پختونخواء کی جانب سے بھی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ ہم نے تمام تر تفصیلات دے دی ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ صوبوں نے مسئلہ اتنا بڑا نہیں تھا جو بنا دیا ہے ایف آئی آر سے کچھ تو معاملہ سامنے آئے گا۔

اخبار میں چھپی تصویر کو کون پہچانے گا۔ لاء افسر نے بتایا کہ 2600 لاشیں ملی ہیں پشاور اور ہری پور میں تعداد زیادہ ہے۔ پولیس افسر تحقیقات کرتا ہے فنگر پرنٹس لئے جاتے ہیں شناخت کے حوالے سے تمام تر اقدامات کئے جاتے ہیں کریمنل انٹیلی جنس گزٹ شائع نہیں ہوتا۔ لاپتہ افراد کے لوگ آتے ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ پولیس نے لواحقین کو بتایا لاء افسر نے بتایا کہ 43 افراد کی شناخت نہیں ہو سکی ہے باقیوں کی شناخت ہو گئی ہیں۔

سب کے ساتھ شناختی کارڈ کی کاپی تک دی جاتی ہے۔ بوری بند لاشیں بھی ملتی ہیں ان پر نوٹ لکھا ہوتا ہے جس سے پتہ چل جاتا ہے کہ اس کو کیوں مارا گیا ہے اس طرح کا مقدمہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی چل رہا ہے لوگوں کو مدد کے لئے رقم بھی دی جا رہی ہے جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بعض لوگوں کو دہشت گرد اور طالبان مار دیتے ہیں ان کی کمائی کا ذریعہ تاوان ہی ہے۔

لاء افسر نے بتایا کہ وفاقی حکومت بھی پیسون کی ادائیگی میں مدد کر رہی ہے۔ ہمارے پاس مسخ شدہ لاشوں کا زیادہ مسئلہ موجود نہیں ہے۔ مقدمات درج کرنے کے حوالے سے ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ایف آئی آر کا ڈیٹا میں یہ لوگ بہت زیادہ ہیں۔ سرد خانوں کا بندوبست ہے لاء افسر نے بتایا کہ ہم پولیس کی مدد حاصل کر کے لوگوں سے شناخت کرتے ہیں سردخانے موجود ہیں مگر اس میں ہم 2 سے 3 روز تک لاشیں رکھتے ہیں پھر امانتاً دفنا دیتے ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ 43 کے لواحقین کی تعداد زیادہ نہیں ہو سکتی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ دوسرے صوبوں سے اٹھائے گئے افراد بھی کے پی کے میں لائے جاتے ہیں تاوان مانگا جاتا ہے نہ ملنے پر انہیں مار دیا جاتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ جو ناقابل شناخت ہیں ان کے حوالے سے لاپتہ افراد کے لواحقین سے شناخت کرائی جا سکتی ہے جسٹس عظمت نے کہا کہ یہ باقاعدہ جرائم ہیں ان کا ڈیٹا موجود ہو گا مقدمات بھی درج ہوئے ہوں گے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ آپ ایک لمحے کے لئے لاپتہ افراد کی ماؤں کا سوچیں۔ یہاں تو بیٹے نہ ملنے پر والد نے اپنا گریبان تک عدالت میں چاک کیا ہے انہوں نے پشتو میں ہمیں بھی کچھ کہا تھا جو کچھ وہ کہہ رہا تھا وہ ہمارے لئے شرمندگی کا باعث تھا۔ وہ روتا رہا اور پھر گر گیا۔ کے پی کے میں خواتین نہیں آتیں مگر عبدالرحمان کی بیٹی نے گواہی دی تھی۔ پتہ نہیں اس کا کیا بنا تھا۔

گھر سے اٹھائے جانے کی بیٹی نے شہادت دی تھی یہ کیا کم المیہ ہے کہ جہاں جس علاقے میں بیٹیاں گھروں سے باہر نہیں نکل پاتیں وہاں ایک بیٹی نے خود تھانے میں جاکر شہادت دی۔ چوبیس اضلاع ہیں وہاں کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا ہونا چاہئے۔ عدالت نے بعدازاں کے پی کے کے حوالے سے آرڈر لکھوایا کہ 2600 افراد کی لاشیں ملی ہیں ۔ کے پی کے کے صوبہ میں غیر شناخت شدہ لاشوں کا بلوچستان کی نسبت مسئلہ نہیں ہے۔

43 ناقابل شناخت لاشیں ہیں۔ ان کے صوبے میں بھی سردخانوں کی کمی ہے جس ک وجہ سے لاشیں امانتاً دفنادی جاتی ہیں۔ پولیس رولز 1934ء کے تحت طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ ڈیٹا بیس کو مرکزیت پر لانے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ ایف آئی آرز کا ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ ڈیٹا بیس بناکر ان مقدمات میں درج ایف آئی آرز کو مرکزی سطح تک لایا جائے۔ شناخت کا عمل مکمل کیا جائے۔

اس حوالے سے لاپتہ افراد کے لواحقین سے بھی رابطہ کیا جائے۔ پشاور ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق لوگوں کو ریلیف کی رقم دی جارہی ہے۔ جامع رپورٹ بھی جمع کروائی جائے۔ حکومت پنجاب کی جانب سے عبدالرزاق مرزا پیش ہوئے اور رپورٹ پیش کی تو عدالت نے کہا کہ یہ تو پرانی رپورٹ ہے اس پر لاء افسر نے بتایا کہ تفصیلات اب جمع کروائی ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں قانون نہ پڑھائیں۔

لاء افسر نے بتایا کہ 498 کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا ہے۔ 1299 لاشیں ملی تھیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ 51 غیر شناخت شدہ لاشوں کا کیا بنا ہے کیا یہ لاشیں میڈیکل کالجوں کو اناٹمی کیلئے تو نہیں دے دی گئی ہیں۔ لاء افسر نے بتایا کہ بعض کو دفنادیا گیا ہے ہم نے تمامتر اقدامات کئے ہیں اشتہار بھی دئیے جاتے ہیں ضلعی انتظامیہ کے ذریعے اطلاع دی جاتی ہے ہماری ویب سائٹ بھی موجود ہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کے صوبے میں بھی 51 لاشیں ناقابل شناخت ہیں ان کا کیا کررہے ہیں۔ ڈیڈ باڈی اٹھے گی اور آپ کو ای میل کردے گی کہ جناب والا کہ میں فلاں کا والد یا بھائی ہوں آکر لے جائیں اور میرے گھر والوں کو بھجوادیں۔ 36 اضلاع میں کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔ لاشوں کی صوبے کی آبادی کے لحاظ سے یہ تعداد کم ہے۔ کسی کو کوئی اطلاع تو دی گئی ہوگی۔

کون کس کو اطلاع دیتا ہے۔ لاء افسر نے بتایا کہ رپورٹ درج ہوتی ہے اور مقررہ شخص تک ایس ایچ او کے ذریعے رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ سب کاغذی کارروائی ہی ہمیں تفصیلات دی جائیں۔ آپ کی حکومت کا معیار ہمیں مقدمے میں نظر آتا ہے پتہ نہیں کہاں تک آپ عمل بھی کرتے ہوں گے۔ لاء افسر نے بتایا کہ بالکل ہی ناقابل شناخت لاشوں کو تمامتر کاغذی اور دستاویزی کارروائی کے بعد پولیس رولز کے تحت میڈیکل کالجوں کے حوالے کردی جاتی ہیں یا دفنادی جاتی ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ انگریز 1934ء میں رولز بناگیا آپ نے اس میں کچھ ترامیم کردی ہیں ہمیں کچھ عمل کی جانب بھی جانا پڑے گا۔ اشتہار کے پیسے کون دے گا۔ تھانیدار کس مد میں کسی بھی جنس کا پیکٹ ارسال کرنے کے پیسے دینے کا اختیار نہیں رکھتا‘ یہ مذاق کا نشانہ بن رہا ہے‘ کاغذوں کے سواء یہ کچھ نہیں ہے۔ اعدادو شمار بتارہے ہیں کہ حکومت کام نہیں کررہی۔

عدالت نے پنجاب کے حوالے سے حکم نامہ تحریر کرایا۔ لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر وزارت داخلہ نے نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے تحت ملنے والی لاوارث لاشوں کے حوالے سے طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ اگرچہ طریقہ کار موجود ہے مگر لگتا یہی ہے کہ اس پر عمل نہیں ہورہا اس حوالے سے رپورٹ دی جائے کہ ہمیں وہ کام کرنا پڑ رہے ہیں۔ تعجب ہے کہ یہ کام ہمارے ذمے کیوں لگائے جارہے ہیں۔

آپ کے سپروائزر اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں وہ کام کرتے تو اس نہج پر عوام الناس کو نہ پہنچایا جاتا۔ یہ کام ہمارا نہیں ہے۔ لاء افسر نے بتایا کہ 398 سندھ سے لاشیں ملی ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کراچی سے روزانہ ایک لاش ملتی ہے یہ تفصیل درست نہیں لگتی۔ لاء افسر نے بتایا کہ 96 کو دفنادیا گیا ہے۔ 84 کا اشتہار اور 9 لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ لئے گئے ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ 398 صرف کراچی کے جنوبی علاقے سے لاشیں ملی ہیں باقی صوبے کے دیگر علاقوں سے لاشیں ملی ہیں۔ لاء افسر نے بتایا کہ لاشوں کے ملنے پر پولیس رولز سے کام لیا جاتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ رولز میں تو لکھا ہوا ہے عملی طور پر پتہ کرکے دیں کہ زمینی حقائق کیا ہیں۔؟ 304 لاشیں ورثاء کے حوالے کی گئی ہیں۔ 94 لاشیں رہ گئی ہیں جن کی شناخت ہونا ابھی باقی ہے۔

لاء افسر نے بتایاکہ کراچی میں سرد خانے موجود ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ باقی صوبے کی لاشیں بھی کیا کراچی کو بھجوائیں گے ہر ضلع میں سرد خانہ ہوگا پتہ کرکے دیں۔ ایف آئی آر کی تعداد اور رپٹ روزنامچے کی تفصیلات اگلی سماعت پر دی جائیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد بھٹی نے بتایا کہ 68 لاشیں اسلام آباد سے ملی تھیں۔ 37 لاشوں کی شناخت ہوچکی ہے باقی 31 کی نہیں ہوسکی۔

لاپتہ افراد کے حوالے سے کوئی لاش موجود نہیں۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ یہ ناقابل شناخت لاشیں کس کی ہیں ان کی اموات کی وجوہات کیا ہیں اس کی تفصیلات دی جائیں۔ آپ اگر کام نہیں کریں گے تو اس کے اثرات قومی سلامتی پر پڑیں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ اپنا کام کیوں نہیں کرتے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ بڑی بڑی ترامیم کرلی جاتی ہیں چھوٹے قوانین آپ سے نہیں بنائے جاتے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ اسلام آباد کے ٹربیونلز ہم نے بنوائے آپ نے تو اڑھائی سال سے کچھ بھی نہیں کیا۔ جج نے اپنا کام کرناہے۔ جج کو انسان نہیں مشین سمجھا جاتا ہے کہ وہ کچھ بھی محسوس نہیں کرتے ایسی بات نہیں ہے۔ آپ نے کچھ نہیں کرنا تو بتادیں کہ آپ بے بس ہیں۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ صوبائی حکومت کیساتھ ساتھ لگتا ہے کہ وفاقی حکومت بھی بے بس ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ کوئی بے بسی نہیں ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ مرکزی اور صوبائی سطح پر ناقابل شناخٰت اور لاوارث لاشوں کے حوالے سے ڈیٹا مرتب کریں۔

متعلقہ عنوان :