سونے کی عالمی قیمت میں کمی،بھارت کے ذمے پاکستانی اثاثوں کی مالیت 20 فیصد گھٹ گئی،پاکستان نے بھارت کے سامنے باضابطہ ادائیگی کا سوال کبھی نہیں اٹھایا، اسٹیٹ بینک اپنے کھاتوں میں ان واجبات کو بطور اثاثے ظاہر کرتا ہے‘ رپو رٹ

منگل 10 فروری 2015 09:34

اسلا م آ با د(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔10فروری۔2015ء) انٹرنیشنل مارکیٹ میں سونے کی قیمت کم ہونے سے بھارت کے ذمہ پاکستان کے اثاثوں اور واجبات کی مالیت میں بھی کمی واقع ہورہی ہے۔ میڈیا رپو رٹ کے مطا بق قیام پاکستان کے وقت نوزائیدہ مملکت کے حصے میں آنے والے مالی اثاثے سونے کے ذخائر، برطانوی کرنسی، انڈین کرنسی اور سکوں میں سے پاکستان کا حق 68سال گزرنے کے باوجود نہیں مل سکا۔

پاکستان کی جانب سے بھارت کے سامنے کبھی بھی باضابطہ طور پر ان اثاثوں کی ادائیگی کا سوال نہیں اٹھایا گیا تاہم اسٹیٹ بینک آف پاکستان اپنے کھاتوں میں ان واجبات کو اثاثوں کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔دو سال قبل دسمبر 2012میں بھارت کے ذمے مجموعی واجبات کی مالیت 6ارب روپے سے تجاوز کرگئی تھی جن میں 5ارب 60کروڑ روپے کے سونے کے سکے اور سونا (بولین)، 48کروڑ 70لاکھ روپے کی اسٹرلنگ سکیورٹیز، ایک کروڑ 70لاکھ روپے کی انڈین سکیورٹیز اور 50لاکھ روپے کے انڈین سکے شامل تھے۔

(جاری ہے)

گزشتہ دو سال کے دوران سونے کی عالمی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے بھارت کے ذمے پاکستان کے اثاثوں کی مالیت 20فیصد کم ہوچکی ہے۔دسمبر 2014 کے اختتام پر بھارت کے ذمے پاکستان کے ان اثاثوں کی مالیت 4 ارب 84کروڑ27لاکھ روپے ریکارڈ کی گئی جس میں سونے کی شکل میں اثاثوں کی مالیت 4ارب 4کروڑ 70 لاکھ روپے، اسٹرلنگ سکیورٹیز کی مالیت 55کروڑ 57لاکھ روپے، انڈین سیکورٹیز کی مالیت 23 کروڑ 52 لاکھ روپے اور انڈین سکوں کی مالیت 48لاکھ روپے ریکارڈ کی گئی۔

اس طرح دو سال کے دوران بھارت کے ذمے پاکستان کے اثاثوں میں سے سونے کی قدر میں کمی کی وجہ سے مالیت میں ایک ارب 55کروڑ 20لاکھ روپے کی کمی واقع ہوئی ہے تاہم اسٹرلنگ سکیورٹیز اور انڈین سیکیورٹیز کی قدر بڑھنے سے واجب اثاثوں کی مجموعی مالیت میں ایک ارب 26کروڑ 53لاکھ روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔دو سال کے دوران سونے کی عالمی قیمتوں میں 29فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

جنوری 2013میں سونے کی فی اونس عالمی قیمت 1675.80ڈالر تھی جو جنوری 2015 کے ا?غاز میں کم ہوکر 1183.90 ڈالر فی اونس کی سطح پر آگئی۔ پاکستانی واجبات کی ادائیگی کے بارے میں بھارتی دانشوروں کا غیرسرکاری موقف رہا ہے کہ یہ اثاثے اور واجبات غیرمنقسم پاکستان کے حصے میں آئے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ اثاثے پاکستان کو دیے جائیں یا بنگلہ دیش کو؟۔ پاکستانی ماہرین کے مطابق بھارت کا یہ استدلال غلط اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہے۔

برطانوی کمیشن نے 30 دسمبر 1948کو ریزور بینک آف انڈیا کے اثاثے پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیے گئے جن میں سونے کے ذخائر میں سے پاکستان کے حصے میں 30فیصد اور بھارت کے حصے میں 70فیصد سونا آیا تاہم بھارت نے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اثاثے پاکستان کو منتقل نہیں کیے تاکہ قیام کے فوراً بعد پاکستان کو مہاجرین کی آبادکاری اور ریاست کے انتظامی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں مشکلات کا شکار کیا جاسکے۔ بھارت کے ذمے واجبات بنیادی طور پر پاکستان کے عوام کا حق ہے، بنگلہ دیش کا شوشہ بھارت کی بنیاگیر روایت کا ثبوت ہے۔

متعلقہ عنوان :