عالمی بنک نے بلوچستان حکومت کی اصلاحات، اداروں کی تنظم نو اور تعلیم کے لیے مختص صوبائی بجٹ کو حوصلہ افزا قرار دیا، آپباشی ، زراعت، امور حیوانات اور گرلز ایجوکیشن کے شعبوں میں بلوچستان حکومت کو بھرپور تعاون کی یقین دہانی

جمعہ 6 فروری 2015 09:16

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6فروری۔2015ء) عالمی بنک نے بلوچستان حکومت کی اصلاحات، اداروں کی تنظم نو اور تعلیم کے لیے مختص صوبائی بجٹ کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے عالمی بنک کیجانب سے آپباشی ، زراعت، امور حیوانات اور گرلز ایجوکیشن کے شعبوں میں بلوچستان حکومت کو بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرادی۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کو ورلڈ بنک کے پاکستان میں کنٹری ڈائریکٹر رشید بن مسعود (Mr. Rasheed Binmassud)کی قیادت میں وفد نے وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے ملاقات کی۔

اس موقع پر چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ نے بتایا کہ صوبائی محکموں میں بہتری کے لیے اصلاحات ، تعلیم، صحت، زراعت ، لائیو اسٹاک اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے جیسے حکومتی اقدامات اور منصوبہ بندی کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، سیف اللہ چٹھہ نے کہا کہ مذکورہ شعبوں میں سرمایہ کاری سے ہی صوبے میں پائیدار ترقی کے ثمرات سے عوام مستفید اور ان کی معیار زندگی میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے عوام نے اپنے منتخب نمائندوں سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں کہ ان کو بہتر تعلیم، صحت کی سہولیات اور ان کی معیار زندگی کو بہتر اور خوشحال بنانے کے لیے صوبائی حکومت ٹھوس اقدامات اٹھائے گی، تاہم جمہوریت کے ثمرات سے عوام جب تک مستفید نہیں ہوتے ان کا جمہوریت پر اعتماد بحال نہیں ہوگا، مخلوط صوبائی حکومت کی بھرپور کوشش اور خواہش ہے کہ بلوچستان کے عوام بھی 21ویں صدی کی سہولیات سے مستفید ہوں جن سے آج ترقی یافتہ دنیا استفادہ کر رہی ہے ، انہوں نے کہا کہ صوبے میں 80فیصد لوگوں کے روزگار کا انحصار زراعت پر ہے اور صوبے کے وسیع علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے، بارش کا پانی ڈیمز نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے، جبکہ صوبے میں 30ہزار زرعی ٹیوب ویلز پر کیسکو ، وفاق اور حکومت سبسڈی دیتی ہے ملک میں توانائی کے بحران کے باعث بلوچستان میں زرعی شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، معدنی شعبے میں قدیم اور روایتی کانکنی سے 70فیصد سے زائدمعدنیات ضائع ہو جاتی ہیں، صحت کے شعبے میں بھی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے جبکہ بلوچستان میں 23لاکھ بچے اور بچیاں اب بھی سکولوں سے باہر اور تعلیم سے محروم ہیں، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہماری مشکلات بہت زیادہ اور وسائل انتہائی محدود ہیں، بلوچستان میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز کی ضرورت ہے، لیکن ہم اپنے محدود وسائل کے باعث ایسا کرنے سے قاصر ہیں، زرعی ٹیوب ویلوں کو مرحلہ وار شمسی توانائی پر منتقل کرنے، صحت اور تعلیم کی سہولیات کو تمام لوگوں تک پہنچانے کے لیے بھی اقدامات اٹھارہے ہیں، تاہم محدود وسائل آڑے آنے کے باعث ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ عالمی امدادی ادارے ڈیمز، توانائی ، زراعت، تعلیم، صحت، لائیو اسٹاک معدنیات اور فشریز کے شعبوں میں ہمیں مناسب مدد دیں تو ہم بہت جلد ترقی کر سکتے ہیں، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے اور انتظامیہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کا عمل جاری ہے ، نقل کے خاتمے کے لیے بھی ٹھوس اور سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں ، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی بنیاد ہیں اور بلدیاتی انتخابات کی تکمیل کے بعد حکومت عوامی خدمت کے محکمے بلدیاتی نمائندوں کو منتقل کرنا چاہتی ہے ، انہوں نے کہا کہ ورلڈ بنک بلدیاتی اداروں کی صلاحیت کار بڑھانے کے عمل میں بھی بلوچستان حکومت سے تعاون کرے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ورلڈ بنک کے پاکستان میں کنٹری ڈائریکٹر رشید بن مسعود نے کہا کہ بلوچستان کے عوام غریب ہیں لیکن بلوچستان غریب نہیں، صوبہ نہ صرف پاکستان کا مستقبل ہے بلکہ مستقبل میں اقتصادی راہداری کے باعث خطے کی تجارت اور ترقی میں بھی اس کا کردار کلیدی ہوگا، انہوں نے صوبائی حکومت کی تعلیم کے شعبے کے لیے مختص رقم اور مختلف اداروں میں اصلاحات و تنظیم نو کو حکومت کی سنجیدگی اور عوام دوست پالیسی قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ حکومتی پالیسیوں اور اقدامات میں تسلسل جاری رہے گا، انہوں نے کہا کہ عالمی بنک بلوچستان میں آبپاشی، گرلز ایجوکیشن، زراعت اور امور حیوانات کے شعبوں کی ترقی کے منصوبوں میں دلچسپی رکھتا ہے تاکہ صوبے کے عوام کے معیار زندگی میں بہتری آئے اور روزگار و تعلیم کے مواقع میسر ہوں، کنٹری ڈائریکٹر نے کہا کہ مذکورہ شعبوں کی بہتری کے لیے حکومت بلوچستان منصوبے بنائے، ورلڈ بنک ترجیحی بنیادوں پر فنڈز فراہم کرے گا۔

اس موقع پر صوبائی وزیر اطلاعات عبدالرحیم زیارتوال، مشیر تعلیم سردار رضا محمد بڑیچ، ماہر معاشیات قیصر بنگالی، وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری، محکمہ سیکنڈری ایجوکیشن، آبپاشی، صحت، خزانہ، بلدیات، امور حیوانات اور توانائی کے سیکریٹریز بھی موجود تھے۔

متعلقہ عنوان :