سعودی سفارتخانہ نے اپنی حکومت کو پاکستان میں مدرسوں کو دی جانیوالی فنڈنگ پر خدشات سے آگاہ کر دیا،سعودی قائمقام سفیر کا بات چیت سے گریز، مستقبل میں مدرسوں کو فنڈنگ براہ راست نہیں ہوسکے گی اور فنڈنگ حاصل کرنے یا دینے سے قبل حکومت کو اعتماد میں لینا ہوگا حکومت کی اجازت ضروری ہوگی،بلیغ الرحمان

جمعہ 6 فروری 2015 09:10

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6فروری۔2015ء)پاکستان میں قائم سعودی عرب کے سفارتخانہ نے اپنی حکومت کو مدرسوں کو جاری غیر ملکی فنڈنگ بارے حکومت پاکستان کے خدشات سے آگاہ کیا ہے ۔ خبر رساں ادارے کو سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ سعودی سفارتخانہ نے ایک خط کے ذریعے اپنی حکومت مدرسوں کو جاری فنڈنگ بارے ملک کے اندر شدید احتجاج بارے مطلع کیا ہے ۔

خبر رساں ادارے نے جب سعودی سفارتخانہ سے موقف بارے رابطہ کیا تو پاکستان میں قائم مقام سعودی سفیر نے اس اہم اور حساس معاملہ پر بات کرنے سے انکار کیا اور ایک سفارتکار کے ذریعے بتایا کہ مستقل سفیر جلد تعینات ہوں گے وہی اس اہم ایشو پر پالیسی بیان جاری کرینگے ۔وزیر مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمان نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ مستقبل میں مدرسوں کو فنڈنگ براہ راست نہیں ہوسکے گی اور فنڈنگ حاصل کرنے یا دینے سے قبل حکومت کو اعتماد میں لینا ہوگا حکومت کی اجازت ضروری ہوگی۔

(جاری ہے)

پارلیمنٹ کے موجودہ سیشن میں بھی مدرسوں کو فنڈنگ بارے پاکستانی پارلیمنٹرین معاملہ تو ایوان میں اٹھا رہے ہیں اور اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی سینیٹر سیدہ صغریٰ امام نے سینٹ میں سوال کے ذریعے حکومت سے پوچھا کہ کتنے مدرسے غیر ملکی فنڈنگ حاصل کررہے ہیں؟ حکومت پاکستان نے اس حوالے سے مبہم جواب دیا تھا جس پر ایوان میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا ، کابینہ کے اہم وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے بھی سعودی فنڈنگ پر شدید تنقید کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ سعودی فنڈنگ کو روکا جائے، وکی لیکس نے بھی انکشاف کیا تھا کہ امریکہ کے سعودی عرب میں سفیر نے اپنی حکومت کو بتایا کہ عرب ممالک سے ہر سال سو ملین امریکی ڈالر پاکستانی مدرسوں کو فراہم ہوتے ہیں تاہم حکومت سعودی عرب نے ابھی تک اس اہم مسئلہ پر پالیسی بیان جاری نہیں کیا ہے ۔

وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر پاکستانی وزارت داخلہ نے سعودی وزارت داخلہ سے رابطہ کرکے ایک اہم اجلاس منعقد کیا ہے، اس اجلاس میں مدرسوں کو فنڈنگ کا مسئلہ زیر بحث لایا گیا ہے تاہم پاکستانی اور سعودی عرب کے وزارت خارجہ اس اہم ایشو پر پالیسی بیان جاری کرنے سے گریز کرتے آرہے ہیں ۔

متعلقہ عنوان :