سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے رہائشی علاقوں سے سکیورٹی کے نام پر تجاوزات اور رکاوٹوں کو ہٹانے کیلئے ٹائم فریم ما نگ لیا ،غیر ملکی سفارتخانوں کو رکاوٹیں ہٹانے کیلئے نوٹس جاری کرنے کا حکم، چیئرمین سی ڈی اے عدالت میں پیش ،سی ڈی اے کیٹگری وائز علاقوں کے کمرشل استعمال بارے رپورٹ بھی عدالت میں پیش کرے،سپریم کورٹ، قوانین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے سکتے کیا پاکستانی سفارتخانے بھی دوسرے ممالک میں اس طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرسکتے ہیں، اگر سی ڈی اے تجاوزات ختم نہ کراسکی تو پھر عدالت خود حکم جاری کرے گی،جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس

جمعرات 5 فروری 2015 06:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5فروری۔2015ء)سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے رہائشی علاقوں سے سکیورٹی کے نام پر تجاوزات اور رکاوٹوں کو ہٹانے کیلئے ٹائم فریم مانگتے ہوئے غیر ملکی سفارتخانوں کو رکاوٹیں ہٹانے کیلئے نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا ہے ۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ سی ڈی اے غیر ملکی سفارتخانوں کو رکاوٹیں ہٹانے کا نوٹس جاری کرے بصورت دیگر مہلت ختم ہونے پر رکاوٹیں بلڈوزر کے ذریعے ہٹا دی جائیں ۔

یہ حکم جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں میں دو رکنی بینچ نے بدھ کے روز جاری کیا ہے ۔ عدالت نے سی ڈی اے کو رکاوٹیں ہٹانے کیلئے مزید وقت دینے سے انکار کردیا ہے ۔ چیئرمین سی ڈی اے عدالت میں پیش سی ڈی اے کیٹگری وائز علاقوں کے کمرشل استعمال بارے رپورٹ بھی عدالت میں پیش کرے ۔

(جاری ہے)

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ کیا ہم اب بھی محکوم ہیں کہ غیر ملکی سفارتخانے سکیورٹی کی آڑ میں یا رکاوٹیں کھڑی کرکے لوگوں کیلئے مشکلات پیدا کررہے ہیں ان کو ڈپلومیٹک انکلیو جانے کیلئے کون کہے گا ۔

قوانین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے سکتے کیا بیرون ملک پاکستانی سفارتخانے بھی دوسرے ممالک میں اس طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرسکتے ہیں سفارتخانوں کو نوٹس جاری کریں اور انہیں کہیں آپ ڈپلومیٹک انکلیو منتقل ہوجائیں اگر سی ڈی اے تجاوزات ختم نہ کراسکی تو پھر عدالت خود حکم جاری کرے گی ۔ آرٹیکل 190کے تحت تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کے پابند ہیں جبکہ سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ غیر ملکی سفارتخانوں کو رکاوٹیں ہٹانے کیلئے ایک ہفتے کا مہلت دیا جائے اگر وہ رکاوٹیں نہیں ہٹاتے تو سی ڈی اے ازخود وہ رکاوٹیں بلڈوز کرکے رکاوٹیں ہٹا دیں ۔

انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے ہیں ۔ سماعت شروع ہوئی تو چیئرمین سی ڈی اے معروف افضل اپنے وکیل ایس اے رحمان کے ذریعے پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ رہائشی علاقوں کے سفارتخانوں کو وزارت خارجہ کے ذریعے نوٹسز بھیج دیئے ہیں اور ان کو کہا ہے کہ آپ اپنی رکاوٹیں ہٹا دیں اور اس حوالے سے یہ سپریم کورٹ کا حکم ہے اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ اپنے کام اپنے طور پر کیوں نہیں کرتے یہ نوٹس آپ کو جاری کرنے چاہیے تھے اس پر سی ڈی اے کے وکیل ایس اے رحمان نے بتایا کہ سی ڈی اے کے پاس اتنے اختیارات نہیں ہیں کہ وہ براہ راست ان سفارتخانوں کو نوٹس جاری کرسکیں اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کیا آج بھی ہم محکموں ہیں کہ غیر ملکی سفارتخانے جہاں چاہیں سکیورٹی کے نام پر تجاوزات کھڑی کردیں کیا ہم ان کے ملک میں ایسا کرسکتے ہیں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ہمیں اپنے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت دیں اگر وہ اجازت نہیں دے سکتے تو ہم قانون کی خلاف ورزی کی اجازت کیسے دے دیں سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ غیر ملکی سفارتخانے ڈپلومیٹک انکلیو میں منتقل کیوں نہیں ہوتے انہیں منتقل ہونے کا کون کہے گا سفارتخانوں کو نوٹس جاری کریں کہ وہ یہ رکاوٹیں ہٹائیں بصورت دیگر عدالت خود حکم جاری کرے گی اس پر چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ اس حوالے سے وقت دیا جائے تاکہ سفارتخانوں کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ ان چیزوں پر عمل کرے اور رکاوٹیں ہٹائے اس پر عدالت نے کہا کہ ہم آپ کو زیادہ وقت نہیں دے سکتے آپ خود ہی ٹائم فریم بنا کردیں اسلام آباد میں کمرشل سرگرمیوں اور دیگر حوالے سے کتنا وقت درکار ہے اسلام آباد کے رہائشی علاقوں سے کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے اور رکاوٹیں ہٹانے میں کتنا وقت لگے گا تجاوزات کے خاتمے کیلئے چیئرمین سی ڈی اے ٹائم فریم دے ویسے بھی قانون کے مطابق پاکستان کے تمام ادارے عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے پابند ہیں بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت نو فروری تک ملتوی کرتے ہوئے شہری علاقوں سے رکاوٹیں اور تجاوزات ختم کرنے کیلئے کیٹگری وائز سی ڈی اے حکام سے ٹائم فریم مانگ لیا ہے ۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز کی سماعت کے دوران عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے کو طلب کیا تھا اور سفارتخانوں اور دیگر جگہوں سے رکاوٹیں ہٹانے کیلئے چوبیس گھنٹے کی مہلت دی تھی ۔