دہشت گردوں کیخلاف جاری جنگ کے ردعمل میں پشاور اور شکارپور کے واقعات ہوئے‘ آئندہ بھی ایسے واقعات ہوسکتے ہیں،چوہدری نثار علی خان شکارپور دہشت گرد وں کا حب بن گیا ہے، دہشت گردی کا مسئلہ ہفتوں نہیں بلکہ سالوں میں حل ہوگا۔ دہشت گرد کسی بھی جگہ جاکر کارروائی کرسکتے ہیں،انٹیلی جنس ادارے فعال کردار ادا کررہے ہیں‘ مثبت کارکردگی بھی آگے لانی چاہئے، سانحہ شکارپور ایک دلخراش واقعہ تھا ، واقعہ کی تحقیقات کی گئی ۔ دھماکہ کرنے والی کی ایک انگلی ملی ہے جس سے شناخت کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے‘ جس درزی نے اس کے کپڑے سلائی کئے اسے گرفتار کرلیا گیا ہے، اپوزیشن اور حکومتی اراکین کو ذاتی شکوؤں کو قومی معاملات کیساتھ منسلک نہیں کرنا چاہئے‘ سکیورٹی معاملات پر سیاست نہ کی جائے،ہمیں خوفزدہ نہ ہونے کا عزم کرنا چاہئے‘ ہم نے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہے،وزیر داخلہ کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال،پارلیمنٹ میں بات کرنا سیاست نہیں‘ یہ ایوان ایشوز پر بات کیلئے ہی ہے‘ اپوزیشن نے ہمیشہ حکومت کا ساتھ دیا اور کبھی وزیراعظم کا استعفیٰ نہیں مانگا‘ خورشید شاہ

جمعرات 5 فروری 2015 06:11

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5فروری۔2015ء) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کیخلاف جاری جنگ کے ردعمل میں پشاور اور شکارپور کے واقعات ہوئے‘ آئندہ بھی ایسے واقعات ہوسکتے ہیں‘ انٹیلی جنس ادارے فعال کردار ادا کررہے ہیں‘ مثبت کارکردگی بھی آگے لانی چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ سانحہ شکارپور ایک دلخراش واقعہ تھا‘ واضح کردوں کہ اس واقعہ کی تحقیقات کی گئی ہیں۔ اپوزیشن اور حکومتی اراکین کو ذاتی شکوؤں کو قومی معاملات کیساتھ منسلک نہیں کرنا چاہئے۔ واقعہ کے بعد میٹنگز ہوئیں اور اس واقعہ کی مذمت بھی کی گئی اور بیان بھی دیا۔ جب وزارت کا قلمدان سنبھالا تو طے کیا کہ سکیورٹی معاملات پر سیاست نہیں کروں گا۔

(جاری ہے)

وفاق اور صوبوں میں مختلف حکومتیں ہیں میں نے کسی واقعہ کو صوبائی حکومت کے ذمے نہیں ڈالا۔ دہشت گردی کے واقعات کو عام امن عامہ کے واقعات سے منسلک نہیں کیا۔ انٹیلی جنسی اداروں نے صوبوں کو پیشگی اطلاعات دیں لیکن پھر بھی واقعات ہوئے اس پر سیاست نہیں کی کہ ذمہ دار کون ہے۔ دہشت گردی کا مقصد قوم کو تقسیم کرنا ہے۔ کسی ایک واقعہ پر ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا ئی جاتی ہیں حالانکہ انگلیاں دہشت گردوں کیخلاف اٹھانی چاہئیں۔

صوبوں کی ضرورت کے مطابق سول آرمڈ فورسز فراہم کیں۔ مشکلات کے باوجود صوبوں کی مدد کی۔ کراچی میں ایک گروپ نے ہڑتا ل کی اس پر بھی اختلاف ہے۔ یہ ہڑتال دہشت گردی کیخلاف ہونی چاہئے تھی۔ دہشت گردی کا مسئلہ ہفتوں نہیں بلکہ سالوں میں حل ہوگا۔ دہشت گرد کسی بھی جگہ جاکر کارروائی کرسکتے ہیں۔ لاکھوں مساجد اور سکول ہیں لیکن سکیورٹی ادارے اور فورسز کم ہیں۔

واقعات کیلئے پورا ملک دہشت گردی کیلئے کھلا ہے کچھ اندر سے ہیں اور کچھ باہر سے‘ کیا ان سے ڈر کر سکول اور مساجد بند کردی جائیں۔ سانحہ پشاور سے قبل پیشگی اطلاعات دیں پھر بھی واقعہ ہوا تو کیا وزیراعلی سے استعفیٰ مانگ لیا جائے۔ ہمیں خوفزدہ نہ ہونے کا عزم کرنا چاہئے۔ ہم نے مقابلہ کرنا ہے۔ ایک طرف افواج اورسول فورسز ہیں جو آئین کے تحت لڑ رہی ہیں اور دوسری جانب ایسی فورسز ہیں جن کا کوئی قانون نہیں‘ مل کر اس ناسور کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنا ہے۔

تمام سیاسی پارٹیوں سے مشاورت کے بعد سویلین حکومت نے مذاکرات کئے۔ دھماکوں کے بعد مذاکرات ختم کردئیے۔ چار ہفتوں کی مشاورت کے بعد ملٹری آپریشن کیا جس کا ردعمل سامنے آیا اور آئندہ بھی آئے گا۔ ایک دہشت گرد نے سانحہ شکارپور میں کارروائی کی‘ 62 جاں بحق اور 53 زخمی ہوئے۔ اس علاقے میں دہشت گرد افغانستان اور بلوچستان جاتے ہیں اور یہاں سے ہی کراچی کو دہشت گرد جاتے ہیں ان پر سکیورٹی ادارے نظر رکھے ہوئے ہیں۔

یہ ہشت گردوں کا حب بن گیا ہے۔ سینکڑوں میل پر مشتمل ہے۔ یہاں چیک پوسٹ بنانے سے کام نہیں چلے گا۔ دھماکہ کرنے والی کی ایک انگلی ملی ہے جس سے شناخت کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ جس درزی نے اس کے کپڑے سلائی کئے اسے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسی کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔ انٹیلی جنس کے 500 آپریشن ہوچکے ہیں جن میں سینکڑوں دہشت گرد گرفتار کئے۔

پہلے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین معلومات کی شیئرنگ نہیں ہوتی تھی لیکن اب بہتر آرہی ہے۔ ہزارہ برادری پر دھماکہ کرنے کیلئے منصوبہ بندی کرنے والے گروپ کو پکڑا ہے‘ 6 گرفتار کرلئے‘ 3 افراد مزید گرفتار کرنے ہیں۔ سانحہ پر انٹیلی جنس فیلیئر کی باتی کی جاتی ہے لیکن بہتر کارکردگی پر بات نہیں کی جاتی۔ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔

اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے خطاب کے بعد کہا کہ پارلیمنٹ میں بات کرنا سیاست نہیں۔ یہ ایوان ایشوز پر بات کیلئے ہی ہے۔ مادر پدر آزاد کے الفاظ استعمال کرنا چھوٹے ذہن کی عکاسی ہے۔ اپوزیشن نے ہمیشہ حکومت کا ساتھ دیا اور کبھی وزیراعظم کا استعفیٰ نہیں مانگا۔ اپوزیشن مشترکہ قراردادیں پاس کرکے دیتی جارہی ہے‘ وزیر داخلہ کو سوچ کر بات کرنی چاہئے تھی۔

وزیراعظم کے سانحہ شکارپور جانے کی بات کی تھی سیاست نہیں کی تھی۔ ہم نے وفاق کی بات کی ہے۔ اس بات کو تسلیم کرتا ہوں۔ سیاست کیلئے انسانی حقوق کے نام پر این جی اوز احتجاج کرتی ہے۔ دہشت گرد کی انگلی ملنے کی بات کی جارہی ہے لیکن ہمیں بریفنگ میں بتایا گیا کہ دہشت گرد کا سر‘ پاؤں اور دیگر اعضاء بھی ملے ہیں۔ ناجانے وزارت داخلہ کے پاس کہاں سے رپورٹ آگئی ہے۔

بیرون ملک واقعات کے بعد انٹیلی جنس ادارے فعال ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں حالات مختلف ہوتے ہیں۔ حکومت کو مدبرانہ سوچ رکھنی چاہئے۔ وزیراعظم اب بھی شکارپور جاکر ثابت کریں کہ وہ پورے ملک کے وزیراعظم ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے اپوزیشن لیڈر کی تقریر پر وضاحت کیلئے ایک بارپھر مائیک سنبھالا اور کہا کہ کسی بھی فرد اور لاش کی شناخت سر اور پاؤں سے نہیں بلکہ انگلیوں سے ہوتی ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے کشمیر کے حوالے سے قرارداد پیش کرنے کیلئے رولز کو معطل کرتے ہوئے قرارداد پیش کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی جرات و بہادری کو ایوان سلام پیش کرتا ہے۔ یہ ایوان حق پر مبنی جراتمندانہ کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ ایوان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے۔ عالمی برادری سے اپیل ہے کہ کشمیریوں کے اغواء اور قتل کی تحقیقات کرائے۔ عالمی ادارہ اقوام متحدہ سماجی تنظیموں کو کشمیر تک رسائی دے۔ ایل او سی پر فائرنگ کی مذمت کی جاتی ہے۔ یہ ایوان 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ ۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔